تیس جون کو سبکدوش ہونے والے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اب بین الاقوامی امور میں امریکا کی گرفت پریشان کن حد تک کمزور پڑتی جارہی ہے۔ وہ اس بات کو برملا کہتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر امریکا کو سپر پاور دیکھا ہے مگر اب بہت کچھ بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کی سپر پاور کی حیثیت خطرے میں ہے اور ایسے میں ریٹائرمنٹ لے لینا ہی بہتر ہے۔ گیٹس کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کو یوں کمزور ہوتا ہوا دیکھنا گوارا نہیں کرسکتے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں رابرٹ گیٹس نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب امریکی معیشت مستحکم تھی اور مستحکم بھی کچھ ایسی تھی کہ دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا اس پر کچھ خاص اثر مرتب نہیں ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں امریکا کے لیے کوئی ایسی ویسی بات سوچنے کی گنجائش بھی نہیں تھی۔ مگر اب دنیا بھر میں کچھ اس قسم کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ امریکا کے لیے اپنی برتری برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔
امریکا میں یہ بات کہنے والے رابرٹ گیٹس واحد فرد نہیں بلکہ بہت سے سیاست دان اور کانگریس کے ارکان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جن سے معاملات بہتر ہوں۔ دنیا بھر میں جاری عسکری مہمات ختم کرنے اور فوجیوں کو واپس بلانے پر اسی لیے زور دیا جارہا ہے۔ بجٹ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس مل کر حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جنگی بجٹ کم کیا جائے۔ رابرٹ گیٹس کو اپنے سیاسی ترکے کی فکر ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ وہ اس بات سے فکر مند ہوں گے کہ امریکا کو عسکری مہمات کی دلدل سے کیونکر نکالا جائے۔ ساڑھے چار سال کے دوران گیٹس نے وزیر دفاع کی حیثیت سے دو صدور کے ساتھ کام کیا۔ اوباما نے انہیں اس منصب پر برقرار رکھ کر یہ ثابت کیا کہ انہیں گیٹس کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے اور یہ کہ وہ پارٹی وابستگی سے بالا تر ہوکر سوچتے ہیں۔
کانگریس میں ایسے ارکان کی تعداد اب نمایاں طور پر زیادہ ہے جو چاہتے ہیں کہ بجٹ میں موزوں کٹوتیاں کی جائی اور دفاعی اخراجات کے نام پر قومی دولت کو لٹایا نہ جائے۔ رابرٹ گیٹس نے جب وزیر دفاع کا منصب سنبھالا تھا تب امریکا پر جنگی اخراجات کے حوالے سے دباؤ غیر معمولی تھا۔ عراق میں بھی جنگ جاری تھی۔ افغانستان اور عراق کے لیے ہر سال سیکڑوں ارب ڈالر کا بجٹ کانگریس سے منظور کروانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ نے جنگی اخراجات کی وکالت میں حد سے گزر کر دفتر خارجہ کو ناراض کردیا تھا۔ جب رابرٹ گیٹس وزیر دفاع مقرر ہوئے تب محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ میں ٹھنی ہوئی تھی۔ بیشتر اہم امور میں اختلافِ رائے نمایاں تھا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہ تھی۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی تھا کہ امریکا کے قائدانہ کردار کے بارے میں بھی کانگریس میں مکمل اتفاق رائے نہیں پایا جاتا تھا۔ بہت سے ارکان اس بات کے حق میں تھے کہ امریکا تمام امور میں عالمی قائد بننا ترک کردے اور بہت سے معاملات دوسرے ممالک کے حوالے کرے یا انہیں معاملات میں شریک کرلے۔
رابرٹ گیٹس بعض معاملات میں تذبذب کا شکار تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے کوئی زمینی کارروائی کی جائے۔ ۱۹۸۰ء میں ایران کے دارالحکومت تہران میں امریکی یرغمالیوں کو چھڑانے کے لیے جب امریکا نے زمینی کارروائی کی تھی تب کئی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ زمینی کارروائی کے حوالے سے رابرٹ گیٹس نے براک اوباما سے بھی اختلاف کیا۔ مگر خیر، اوباما نے بعد میں ان کی رائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے بحریہ کے سیلز میرینز کو کارروائی کا حکم دیا اور بالآخر اسامہ بن لادن سے مبینہ طور پر چھٹکارا پالیا گیا۔
رابرٹ گیٹس نے سی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے بھی اپنی کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کی کوشش کی تاکہ انہیں یاد رکھا جائے۔ انہوں نے ادارے میں اصلاح کی کوشش کی۔ وہ چاہتے تھے کہ خفیہ معلومات کے حصول اور درجہ بندی کا کام منظم اور بے داغ انداز سے انجام پائے تاکہ عسکری مہم جوئی کو زیادہ سے زیادہ بار آور بنانا ممکن ہو۔
رابرٹ گیٹس نے دسمبر ۲۰۰۶ء میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا کر ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ سب سے بڑا مسئلہ دفتر خارجہ سے تعلقات بہتر بنانا اور اہم قومی امور میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ اس کوشش میں وہ بہت حد کامیاب رہے۔ ہلیری کلنٹن نے جب وزارت خارجہ سنبھالی تب رابرٹ گیٹس نے انہیں تمام اہم امور پر اعتماد میں لینا اپنا معمول بنالیا۔ کئی مواقع پر انہوں نے طے شدہ طریق کار اور پروٹوکول سے ہٹ کر ایسے اقدامات کیے جن سے دفتر خارجہ کی اشک شوئی ہوئی اور گلے شکوے مٹ گئے۔ ہلیری کلنٹن سے انہوں نے ہفتہ وار ملاقات کا اہتمام کیا تاکہ تمام اہم امور پر تبادلہ خیال ہو، مشاورت کی جائے اور سفارشات وصول کی جائیں۔ یہ طریقہ خاصا کارگر ثابت ہوا اور اوباما انتظامیہ کے ڈھائی سال کے دوران اب تک محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع کے درمیان کسی مناقشے کی اطلاع نہیں ملی۔ قومی سطح کے اور سلامتی سے متعلق بیشتر امور میں دونوں محکموں کا رویہ اور نقطہ نظر یکساں ہوتا ہے اور دونوں کے اعلیٰ ترین عہدیداروں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
رابرٹ گیٹس کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ وہ ایسے مرحلے پر رخصت ہو رہے ہیں جب بہت سے امور ادھورے پڑے ہیں۔ افغانستان سے انخلاء کا معاملہ اب تک ادھورا ہے۔ ڈیڑھ سال میں تیس ہزار امریکی فوجی نکالے جائیں گے۔ یہ اعلان کیا جاچکا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال میں صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔ امریکا کے لیے آنے والے ڈیڑھ دو برسوں میں کتنی اور کیسی مشکلات پیدا ہوںگی، کوئی نہیں جانتا اور افغانستان کے حالات اس قدر دگرگوں اور غیر یقینی ہیں کہ کوئی پیش گوئی کرنا بھی ممکن نہیں۔
رابرٹ گیٹس نے افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجنے کی ہر مرحلے پر مخالفت کی۔ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے معاملات صرف الجھیں گے اور خرابیاں ہی پیدا ہوں گی۔ اب تک وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ اوباما انتظامیہ کے تحت انہوں نے افغانستان میں مزید تیس ہزار فوجی تعینات کرنے کی منظوری دی مگر یہ محض رسمی معاملہ تھا، وہ خود اس surge کے حق میں نہیں تھے۔ اب جبکہ رابرٹ گیٹس رخصت ہوچکے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے مکمل عافیت کے ساتھ باہر نکل پاتی ہیں یا نہیں۔ طالبان نے اشارہ دینا شروع کردیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اس انخلاء کو آسانی سے مکمل نہیں ہونے دیں گے۔ رابرٹ گیٹس کو اندازہ نہیں کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاملات کس طور طے پاسکیں گے۔ افغان فورسز اس پوزیشن میں نہیں کہ طالبان پر قابو پاسکیں۔ گیٹس کی رخصتی بہت سے امور کو ادھورا چھوڑنے کی صورت میں ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکی بالا دستی داؤ پر لگ چکی ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۱۹ ؍جون ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply