ڈینگ ذیائوپنگ آج سے سو سال پہلے ایک نیم نوآبادیاتی‘ پسماندہ اور دبے ہوئے معاشرے میں پیدا ہوئے تھے۔ جب ۱۹۹۷ء میں ان کا انتقال ہوا تو چین کی حیثیت ایشیا کے پاور ہائوس کی تھی جس پر بیرونی قوت کا کوئی تسلط نہ تھا اور یہ ملک ایک ایسی دنیا میں اپنے کلیدی کردار کا خواہاں تھا جس پر تسلط کے لیے متصادم تہذیبیں ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتی تھیں۔ مائو ذی تنگ نے سرمایہ داروں کے لیے راہ ہموار کرنے والا اور پالیسی پر نظرثانی کرنے والا شخص سمجھ کر ثقافتی انقلاب کے دوران انہیں پارٹی سے نکال دیا۔ اس کے بعد ڈینگ ذپائونگ کی چینی قیادت میں دوبارہ شمولیت ۷۳۔۱۹۷۲ء میں چائو این لائی کے دور میں ہوئی۔ یہ ٹھیک وہی وقت تھا جب امریکا مستقل طور پر اپنے رابطہ آفس کے ساتھ بیجنگ میں براجمان ہوا۔
اس وقت ۱۹۷۴ء میں اس رابطہ آفس کی سربراہی جارج ہربرٹ واکر بش (موجودہ صدر بش کے والد) فرما رہے تھے جب ان دونوں کی ملاقات ہوئی یعنی چھوٹے قد ڈینگ کی جو وسطی چین کے شہر سیشوان (Sichuan) سے تعلق رکھنے والے ایک سخت کوش انقلابی تھے اور بش جو لمبے قد اور اشرافی اوصاف کے حامل ایک پُرعزم شخصیت کے مالک تھے۔ ڈینگ نے بش کو ایک ایسے امریکی کے طور پر دیکھا جو کبھی اپنے ملک کی قیادت کرے گا اور بش نے ڈینگ کی شخصیت میں اس قوت کا مشاہدہ کیا جو چین کے مستقبل کی معمار تھی۔ ایک دوسرے کے لیے دونوں کا یہ کوئی علمی اعتراف نہیں تھا بلکہ ایک جذباتی احساس تھا۔
مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے یہ غیرمعمولی تعلق کو صورت پذیر ہوتے دیکھا کیونکہ میں ۷۵۔۱۹۷۴ء میں بیجنگ میں بش کے ساتھ تھا۔ بہت کچھ کیا جانا باقی تھا۔ بش ۱۹۷۵ء میں بھی دفترِ رابطہ (Liaision office) کے سربراہ تھے۔ اس وقت ہنری کسنجر چینیوں کے پاس یہ تجویز لے کر آئے کہ چین اور امریکا سویت یونین کے عام تباہی والے اسلحے کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ فعال تعاون کریں اور تعاون کی صورت یہ ہو گی کہ چین کی سرزمین اور افرادی قوت استعمال ہو جبکہ امریکا اپنی ٹیکنالوجی اور مینجمنٹ سے اس منصوبے میں حصہ لے گا۔ یہ تجویز میں نے ہی ڈرافٹ کی تھی۔ یہ تجویز قابلِ عمل ثابت ہوئی۔ سینئر بش اور ڈینگ کے مابین معاہدہ ثمرآور ثابت ہوا۔ جب بش نے بیجنگ کو خدا حافظ کیا تو ڈینگ نے انہیں مائو ذی تنگ کا یہ پیغام پہنچایا کہ وہ جب چاہیں امریکا واپس آسکتے ہیں۔ چین میں اپنے مرضی سے کہیں بھی جاسکتے ہیں اور جسے چاہیں وہ اپنے ساتھ لاسکتے ہیں۔ اس کے بعد ڈینگ نے بش کو CIA کا سربراہ مقرر ہونے پر مبارکباد دی۔ اس وقت میری ڈیوٹی سی آئی اے کے محکمہ میں تھی۔ ستمبر ۱۹۷۷ء میں بش نے ڈینگ کے ذریعہ بھیجی گئی مائو کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ۱۶ دنوں کے لیے چین تشریف لے گئے۔ بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں ڈینگ اور بش نے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا کہ چین کے آف شور آئل ریزروس کو ڈیولپ کرنے کے لیے کس طرح امریکی ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بش نے Risk Contract کے عنوان سے ایک متعین تجویز پیش کی جس کا مطلب یہ تھا کہ امریکا چین میں تیل کی پیداوار میں حصہ لے گا۔ یہ ایک غیرمعمولی کامیابی تھی جو ڈینگ کے نومبر ۱۹۷۸ء کے معاشی اصلاحات کے پروگرام سے ہم آہنگ تھی۔ فروری ۱۹۷۹ء میں جس وقت کہ بش ایک پرائیویٹ شہری تھے‘ دونوں افسران نے تائیوان کے مسئلے پر کھل کر تعمیری انداز میں گفتگو کی۔ چھ سال بعد بش نے ڈینگ سے کہا کہ وہ انہیں چینی رہنمائوں کی نئی نسل سے متعارف کرائیں۔ ۱۹۸۹ء میں جبکہ سینئر بش امریکا کے صدر تھے‘ چین سے تعلقات برقرار رکھنے کے حوالے سے امریکا میں شدید تنقید کا خطرہ مول لیا اگرچہ ٹیانا مین کے بعد جو پابندیاں چین پر عائد ہوئی تھیں‘ انہیں جاری بھی رکھا۔ ڈینگ کے ماضی میں دیکھتے ہوئے مجھے ہیری ٹرومین کی یاد آجاتی ہے۔ دونوں ہی دو انتہائی سحرانگیز رہنمائوں کے زیرِ اثر پروان چڑھے۔ ڈینگ کے لیے یہ شخصیت مائو کی تھی اور ٹرومین کے لیے فرینکلین روز ویلٹ کی۔ دونوں ہی کا تعلق اپنے ملک کے مرکزی شہر سے تھا۔ ڈینگ کا سیشوان سے اور ٹرومین کا مسوری (Missouri) سے۔ دونوں ہی کے کردار اور خطابت میں ان کے علاقے کا مخصوص رنگ جھلکتا تھا۔ دونوں ہی اپنے بیوی بچوں کے لیے پورا وقت دیتے تھے اور دونوں ہی جنگ میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ نیٹو اور بریٹّن ووڈز انٹر نیشنل فائنانشیل انسٹی ٹیوشنز کے ماسٹر پلان کے ساتھ اور یونان و ترکی کو امداد فراہم کر کے ٹرومین نے یورپ کو سویت یونین سے بچا لیا اور وہ بیج بو دیا جو بالآخر سویت یونین کی تباہی پر منتج ہوا۔ ۱۹۷۸ء میں ڈینگ کا پروگرام برائے معاشی اصلاحات اس کی قائدانہ صلاحیت اور ثباتِ قدم کی وجہ سے چین کو ثقافتی انقلاب کے تعطل سے نکالنے میں کامیاب ہوا اور جدید دنیا میں داخل کر دیا۔ پھر ڈینگ نے ٹرومین کی طرح سوویت یونین کی بیخ کنی میں مدد کی یعنی انہوں نے افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے لیے امریکا کے ساتھ تعاون کیا اور سویت یونین کے عام تباہی والے اسلحوں کی بڑی باریک بینی سے نگرانی کی۔ ڈینگ کے تعلقات خواہ وہ چینیوں کے ساتھ ہوں یا اغیار کے ساتھ کبھی پرسکون نہیں رہے۔ ڈینگ کا انداز توہین آمیز‘ تلخ اور جھگڑالو ہو سکتا ہے لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنے آپ کو ایک دانشمند ویژنری ثابت کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ ممکن ہے کہ اس نے جس اقدام کو چین کے استحکام کے لیے خطرہ تصور کیا ہوا ہے‘ بڑی بے رحمی سے کچلنے کی کوشش کی ہو اور کمیونسٹ پارٹی کے کردار کا ناقابلِ چیلنج ہونا کو قبول کر لیا ہو۔ اگرچہ پارٹی کے رہنمائوں نے اسے پارٹی سے نکال دیا تھا لیکن وہ پارٹی میں واپسی کے لیے یہ عزم تھا۔ اس نے پارٹی کو بالآخر اپنے ویژن کے مطابق ڈھالا۔ مختصر یہ کہ ڈینگ نے چین کی اسی طرح مدد کی جس طرح سینئر بش نے اپنے دورِ صدارت میں امریکی مفادات کو فروغ دے کر کی۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے لیکن دونوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے ایک مشترک گرائونڈ ہاتھ آگیا تھا۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین)
Leave a Reply