اب امریکا کے بڑے بینکوں کی باری؟

وکی لیکس وہ ویب سائٹ ہے جس نے قیامت ہی ڈھا دی ہے۔ پہلے عراق سے متعلق ۳ لاکھ ۹۲ ہزار اور اس کے بعد افغانستان کے بارے میں امریکا کی ۷۶ ہزار خفیہ دستاویزات جاری کیں اور امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اب وکی لیکس نے ڈھائی لاکھ سے زائد خفیہ امریکی دستاویزات جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو پھر بحرانوں کے آثار ہیں۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانچ کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ امریکا کی خفیہ دستاویزات جاری کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔ اب تک ماہرین یہ طے نہیں کرسکے کہ وکی لیکس کے بانی اس میدان میں تنہا کھڑے ہیں یا ان کے ساتھ کوئی اور نادیدہ قوت بھی ہے۔ یہ امر بھی طے نہیں ہوسکا کہ وکی لیکس (ویب سائٹ) اپنی جنگ لڑ رہی ہے یا کسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانچ نے ۱۱؍نومبر کو معروف جریدے ’’فوربز‘‘ کو لندن میں انٹرویو دیا جو جریدے کی ویب سائٹ پر بدھ یکم دسمبر کو شائع ہوا۔


٭ وکی لیکس کا بنیادی مقصد کیا ہے؟

جولین اسانچ: ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں لوگوں کو سچائی تک رسائی کا موقع ملے اور وہ مختلف حالات و واقعات کو درست تناظر میں سمجھ سکیں۔ ہم اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے مشن سے متفق نہ ہونے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ ایسے میں غیر معمولی احتیاط بھی لازم ہے۔

٭ اب آپ کون سا بڑا انکشاف کرنے والے ہیں؟

جولین اسانچ: ۲۰۱۱ء کے اوائل میں ایک بڑے امریکی بینک کو بے نقاب کیا جائے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ مالیاتی اداروں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کی راہ مسدود ہو۔ بے قاعدگیاں سامنے آئیں گی تو اصلاح کی گنجائش پیدا ہوگی۔ بڑے مالیاتی اداروں میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے عام آدمی بے خبر ہی رہتا ہے۔ یہ فیصلے پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو معلوم ہونا چاہیے کہ بڑے مالیاتی اور کاروباری اداروں کے اعلیٰ ترین افسران کن خطوط پر سوچتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کو کس حد تک تحفظ دیتے ہیں۔

٭ وکی لیکس کی پوزیشن اب کیا ہے؟ لوگ کس حد تک اعتبار کرتے ہیں؟

جولین اسانچ: ہم پر لوگوں کے اعتماد میں اور خود ہمارے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سچائی منظر عام پر آئے۔ ہمیں فراہم کی جانے والی دستاویزات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بہت کچھ پائپ لائن میں ہے۔ ہم بہت کچھ منظر عام پر لانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔ بہت چھان بین بھی کرنی پڑتی ہے۔ جو مواد ہمیں فراہم کی جارہا ہے اس میں پچاس فیصد نجی شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ کاروباری اداروں کے بارے میں ہمیں فراہم کی جانے والی دستاویزات پیچیدہ ہیں۔ ان میں سے کام کی بات تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے۔ مالیاتی اداروں سے متعلق مواد زیادہ سنسنی خیز نہیں۔ ویسے بھی دو چار بڑے اداروں کے بارے میں کچھ معلوم ہو پایا ہے۔ ہمارا زور اس بات پر ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ بڑے مالیاتی اداروں میں فیصلے کس طرح ہوتے ہیں۔ اس صورت میں لوگ بہتر طور پر سمجھ پائیں گے کہ انہیں کن کن معاملات میں کچھ فائدہ پہنچ سکتا تھا اور کس طرح اس فائدے کی راہ مسدود کی گئی۔ ویسے مالیاتی اداروں میں بے قاعدگیاں عموماً غیر اخلاقی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ تمام بے قاعدگیوں کو قانون شکنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم فوری طور پر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے۔ برٹش پٹرولیم کے بارے میں بھی اچھا خاصا مواد لوگوں نے فراہم کیا ہے جس کا ہم جائزہ لے رہے ہیں۔

٭ کیا وکی لیکس کے ذریعے خفیہ دستاویزات جاری کرنے کا سلسلہ طویل مدت تک جاری رہے گا؟

جولین اسانچ: ہمیں مواد ملتا رہے گا تو جاری بھی کرتے رہیں گے۔ کبھی کبھی کسی ایک معاملے سے متعلق مواد خصوصی پیکیج کے تحت بھی شائع کیا جاسکتا ہے۔ ویسے عمومی ریلیز کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ جن باتوں سے پورا معاشرہ متاثر ہوسکتا ہو یا کسی ایک بڑے واقعے کی وضاحت ہوتی ہو انہیں میگا لیکس قرار دے کر بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ بڑی جنگوں اور انقلابات سے متعلق مواد بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ عراق جنگ سے متعلق جو کچھ جاری کی گیا اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو اس جنگ کا تناظر بہتر انداز سے سمجھنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ یہی معاملہ افغانستان سے متعلق انکشافات کا بھی تھا۔

٭ اب تک فوج اور سیاست دانوں کے بارے میں زیادہ مواد جاری کیا گیا ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟

جولین اسانچ: بات یہ ہے کہ لوگ سیاست دانوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں۔ فوج کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا بھی لوگوں کو شوق ہے۔ ان دونوں شعبوں میں عمومی دلچسپی دیکھتے ہوئے کوشش کی گئی کہ ان سے متعلق مواد زیادہ جاری ہو۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں جو مواد موصول ہوتا ہے اس کا بڑا حصہ سیاست اور فوج سے متعلق ہے۔ معاملہ کرپشن کا ہے۔ مالیاتی کرپشن بھی سیاست کے کوچے سے ہوتے ہوئے آتی ہے۔

٭ آپ پر چند ممالک اور اداروں کو ہدف بنانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے؟

جولین اسانچ: یہ الزام بے بنیاد ہے۔ ہم نے ہر ملک کے بارے میں کچھ نہ کچھ مواد جاری کیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جہاں بھی کوئی غلط بات ہو رہی ہے، کرپشن کی جارہی ہے اسے بے نقاب کریں۔ بہت سے ممالک ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی کرتے ہیں۔ بہت سے کاروباری ادارے بھی ایسی ہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ کاروباری دنیا میں مسابقت رفتہ رفتہ رقابت میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ بعض ممالک بھی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں۔ جن اداروں یا ممالک کا مفاد متاثر ہوتا ہے وہ ظاہر ہے کہ ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں شدید دباؤ اور کشیدگی میں کام کرنا پڑتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بعض ممالک بھی ہائی ٹیک کے حوالے سے ایک دوسرے کے اس قدر خلاف کام کرتے ہیں کہ نشاندہی پر ان کے مفادات داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ کئی حکومتوں نے ہمیں کارروائی کی دھمکی بھی دی ہے۔ دبئی کی حکومت نے باضابطہ اعلان کیا کہ ہمیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ہم ایسے کسی بھی ملک میں جانے سے گریز کرتے ہیں جہاں کارروائی کا امکان ہو۔

٭ وکی لیکس کے انکشافات سے کیا فرق پڑا ہے، کیا بہتری آئی ہے؟

جولین اسانچ: ہم نے بہت سے اداروں اور حکومتوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اس سے کئی حلقوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور اصلاح احوال کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

کرپشن میں حکومتیں، ادارے اور بہت سے لوگ انفرادی حیثیت میں ملوث ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں اور حکومتوں پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔ بہت سے آمروں نے اربوں ڈالر کی کرپشن کی ہے۔

ہمیں دوا ساز اداروں کے بارے میں جو مواد ملا ہے وہ الجھا ہوا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور دوسری بہت سی تنظیمیں اس معاملے میں ملوث پائی گئی ہیں۔ بعض ادارے اپنا منافع بڑھانے کے لیے معیار گراتے چلے جاتے ہیں۔ جو ادارے ایمانداری کی راہ پر گامزن رہتے ہیں ان کے لیے کام کرتے رہنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ ہم کرپشن کی نشاندہی اس لیے کرتے ہیں کہ کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی ہو، حکومتوں اور اداروں کا معیار بلند ہو اور دنیا بہتر مقام میں تبدیل ہو۔ دنیا کے ہر انسان کو بہتر ماحول میں کام کرنے کا حق حاصل ہے۔

امریکا جیسے ملک میں بھی کھلی مسابقت ممکن نہیں۔ چند بڑے اداروں نے سازباز کرکے معاملات کو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب سرمایہ دارانہ نظام کو بھی چلنے نہیں دیا جارہا۔ چیزیں آپس میں اس طرح جڑ گئی ہیں کہ اب کسی بھی ادارے کے لیے ایمان داری کے ساتھ کھل کر کام کرنا بہت دشوار ہوگیا ہے۔ جب معیشتیں چند اداروں کی اجارہ داری بن جائیں تو بہتوں کے لیے کام کرنا زیادہ دشوار ہو جاتا ہے۔

٭ آپ چاہیں گے کہ سرمایہ دارانہ نظام چلتا رہے؟

جولین اسانچ: اگر چند خرابیاں دور کردی جائیں تو یہ نظام کچھ ایسا برا بھی نہیں۔ اور پھر ہمارے پاس کوئی متبادل بھی نہیں۔ کمیونزم کو آزمایا جاچکا ہے۔ ہم جو کچھ منظر عام پر لاتے ہیں اس کا بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ معیشت درست ہو تاکہ معاشرت میں بہتری آئے۔

٭ مگر وکی لیکس کے انکشافات سے بہتوں کو تکلیف پہنچی ہے؟

جولین اسانچ: تکلیف انہی کو پہنچی ہے جو غلط کام کرتے ہیں۔ ہم نے جو کچھ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ آئینہ دکھانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کسی کی بدعنوانی سامنے آ جائے تو اس کے پاس اصلاح کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر وہ اپنے آپ کو نہ بدلے تو اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ ہم بدعنوانی کو بے نقاب کرکے خوش ہوتے ہیں کیونکہ اس صورت میں مجرموں کے لیے سزا کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ اس کے مفادات کو کس کس طرح نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

٭ امریکی محکمہ دفاع اور دیگر اداروں نے خفیہ دستاویزات کو منظر عام پر آنے سے بچانے کے لیے چند مشہور ہیکرز کی خدمات حاصل کی ہیں جن میں پیٹر زیٹکو عرف ’’مج‘‘ نمایاں ہے۔ ان کی خدمات ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی نے حاصل کی ہیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خفیہ دستاویزات کو منظر عام پر آنے سے مکمل طور پر روکا جاسکتا ہے؟

جولین اسانچ: دستاویزات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بہت سی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔ انکشاف کے عمل کو پیچیدہ بنایا جاسکتا ہے، تاہم روکنا ممکن نہیں۔ کسی بھی کمپیوٹر کو صرف اس صورت میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے کہ اس کا انٹرنیٹ یا نیٹ ورکنگ سے کوئی کنکشن نہ ہو اور ملکیت کسی ایک فرد کے ہاتھ میں ہو! ہائی ٹیک کی دنیا میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ نئے فارمیٹس آتے ہیں اور معاملات مزید بے نقاب ہونے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سینسر شپ کے بعض طریقے خود ہی لیکیج کا اہتمام کرتے ہیں! مواد کو سی ڈی یا یو ایس بی کے ذریعے بھی منتقل کیا جاسکتا ہے مگر اس میں وائرس کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔

خفیہ دستاویزات کے اجرا کو روکنا اس لیے ممکن نہیں کہ لوگ ہمیں معلومات فراہم کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ دنیا بھر سے ہمیں مواد حاصل ہو رہا ہے۔ لوگ اداروں اور حکومتوں کی کرپشن کو منظر عام پر لانا چاہتے ہیں۔ بعض ممالک یا گروپوں کے بارے میں ہمیں بہت ہی کم مواد مل پایا جائے۔ طالبان کے بارے میں ہمارے پاس زیادہ کچھ نہیں۔ ہم نے لوگوں سے کہا ہے کہ منحرف طالبان کو ہمارے بارے میں بتائیں تاکہ وہ ہمیں مواد فراہم کریں۔ جب عوام کچھ کرنا چاہیں تو ان کے جذبے کو ہرایا نہیں جاسکتا۔

☼☼☼

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*