اور اب یمن کو تیار کیا جارہا ہے!

امریکی کمانڈوز یمن کی فوج کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے خصوصی تربیت دے رہے ہیں۔ یہ کمانڈوز منظر عام پر آنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ صدر بارک اوباما کی پالیسی یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے منظر عام پر آنے سے گریز کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے یمن کو نئی حکمت عملی کا امریکی ماڈل بنانے پر محنت کی جارہی ہے۔

امریکی حکومت نے یمن میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے کروڑوں ڈالر کا ایسا تربیتی پروگرام شروع کیا ہے جس کا زیادہ ڈھنڈورا نہیں پیٹا جارہا۔ یمن کے بعض علاقے غیر معمولی حساس ہیں اور ان میں امریکیوں کا سر عام دکھائی دینا اور حکومت سے اشتراک عمل خطرناک صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔ امریکی حکومت اس معاملے میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ یمنی عوام کو کسی بھی مرحلے پر مشتعل نہ ہونے دیا جائے۔

ایک سال کے دوران یمن میں فوجیوں کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی تربیت دینے والے امریکی کمانڈوز کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۵۰ رہی ہے۔ اب امریکی کمانڈوز یمنی فوج کو زیادہ حساس امور کی تربیت فراہم کر رہے ہیں جس میں زمینی اور فضائی کارروائی سے متعلق اہم نکات شامل ہیں۔ امریکی حکومت کا موقف یہ ہے کہ یمن میں القاعدہ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں مغربی مفادات کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ماہر رک نیلسن کہتے ہیں کہ امریکی حکومت یمن کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک ایسا نمونہ بنانا چاہتی ہے جسے دیکھ کر دنیا کو اندازہ ہو کہ امریکا دہشت گردی ختم کرنے کے حوالے سے مستقبل میں کیا حکمت عملی اپنایا کرے گی۔ امریکا چاہتا ہے کہ اب باضابطہ جنگ چھیڑنے کے بجائے چھوٹے پیمانے پر کارروائی کی جائے اور کسی بھی ملک میں زیادہ ملوث ہونے سے گریز کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ سابق صدر جارج واکر بش کی اپنائی ہوئی حکمت عملی مکمل ناکام رہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ چھیڑنے کی صورت میں اخراجات پر قابو پانا ناممکن ہو جاتا ہے اور معیشت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

امریکی دفتر خارجہ میں انسداد دہشت گردی کے رابطہ کار ڈینیل بنجامن کہتے ہیں کہ امریکا نے یمن کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے خصوصی اہمیت دی ہے۔ شدید افلاس، بدعنوانی اور ناقص حکمرانی کے باعث یمن کے طول و عرض میں القاعدہ جیسے گروپوں کے پنپنے کی گنجائش زیادہ ہے۔ بعض علاقوں کی غربت اور بدعنوانی کا فائدہ اٹھاکر دہشت گرد اور عسکریت پسند گروپ اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرتے جارہے ہیں۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کرتے ہوئے ڈینیل بنجامن نے کہا کہ امریکی حکومت یمن میں اس سال ۳۰کروڑ ڈالر خرچ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اس میں سے نصف رقم فوجی آلات اور متعلقہ ساز و سامان کی خریداری کے لیے مختص ہوگی۔

یمن میں فوجیوں کو دی جانے والی تربیت کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں۔ پاکستان میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے۔ امریکی ٹرینرز نے ۱۵۰۰پاکستانی فوجیوں اور فرنٹیئر کور کے ۲ ہزار جوانوں کو بھی انسداد دہشت گردی کی تربیت دی ہے۔

امریکی حکومت نے اب تک یمن میں مداخلت کا عندیہ نہیں دیا۔ اوباما انتظامیہ چاہتی ہے کہ یمن کی حکومت سماجی اور سیکورٹی سے متعلق مسائل خود حل کرے۔۱۸ماہ کے دوران یمن سے لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق یمن میں القاعدہ کے ۳۰۰ارکان یا سیل کام کر رہے ہیں۔ یمن ہی میں انوار العولقی بھی سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ امریکی شہریت رکھنے والے عالم دین پر گزشتہ کرسمس کے موقع پر ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والے امریکی مسافر بردار طیارے کو گھریلو ساختہ بم سے اڑانے کی کوشش کرنے والے افریقی نوجوان عبدالمطلب کو ذہنی طور پر اس کام کے لیے آمادہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔

یمن کی حکومت بھی امریکیوں کا ذکر کرنے کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط برتتی ہے۔ یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ یمن کی سرزمین پر کوئی غیر ملکی فوج تعینات نہیں۔ گزشتہ ماہ انہوں نے یہ ضرور تسلیم کیا کہ چند امریکی فوجی ٹرینرز یمنی فوج کو تربیت دے رہے ہیں۔

کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں یمنی امور کے ماہر کرسٹوفر بوچیک کا کہنا ہے کہ یمن کو صرف فوجی امداد دینا اور اس کے فوجیوں کو تربیت فراہم کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ یمن میں غربت بھی ہے اور بدعنوانی بھی کم نہیں۔ دوسری جانب ناقص حکمرانی نے ملک کو پس ماندگی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایسے میں اگر امریکی حکومت نے صرف عسکری امداد دینا جاری رکھا اور یمن کی ترقی پر توجہ نہ دی تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اور عسکریت پسند گروپوں کے لیے بھرتیاں آسان تر ہوتی جائیں گی۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن ٹائمز‘‘۔ ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*