جینی وائٹ (Jenny White) ایک مصنف ہیں، جن کا موضوع سماجی بشریات (Social Anthropology) ہے، آپ اس موضوع پر بوسٹن یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے پڑھاتی بھی ہیں۔
آپ نے دو کتابیں ترکی کے موجودہ دور پر لکھی ہیں، کتاب “Money Makes us Relatives” میں انہوں نے اسّی کی دہائی میں ترکی میں ملازمت پیشہ شہری خواتین کے بارے میں لکھا ہے، یہ کتاب ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔ ترکی میں اسلامی رجحان کے بارے میں ۲۰۰۲ء میں کتاب لکھی، اس کتاب نے ۲۰۰۳ء میں یورپ کی بشریات پر بہترین کتاب کا انعام (Douglass Prize) حاصل کیا۔ ان کا پہلا ناول “The Sultan’s Seal” ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا، یہ چودہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
بشریات میں ترکی سے متعلق امور کی ماہر جینی وائٹ کا دعویٰ ہے کہ ترکی میں اسلام نوازی ایک طرف رہ گئی ہے اور اب رفتہ رفتہ ترک مسلمانوں کی نمایاں شناخت پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ ’’ٹوڈیززمان‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جینی وائٹ نے کہا کہ اب ترکی میں یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ کوئی پارسا مسلمان اگر سیاست میں داخل ہو تو اسلام نواز بن جاتا ہے اور اسلام کو ہر اعتبار سے نافذ کرنے کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کوئی سخت گیر عیسائی سیاست کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو لازمی طور پر عیسائیت نواز یا ہر معاملے کو خالص مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھنے والا نہیں ہو جاتا۔ نومبر میں ترکی کی قومی شناخت کے عنوان سے جینی وائٹ کی کتاب “Muslim Nationalism and the New Turk’s” شائع ہو رہی ہے۔ اُس سے انٹرویو کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ (ٹوڈیز زمان)
٭ سیاسی اعتبار سے آپ ترکی کو کہاں دیکھتی ہیں؟
جینی وائٹ: ہم ترکی میں ایک ایسی سیاسی جماعت کو دیکھ رہے ہیں جو سخت گیر حفظِ مراتب کی حامل ہے۔ اس جماعت میں احکام سے انحراف کی زیادہ گنجائش نہیں۔ یہ جماعت اگرچہ عوام کی نمائندہ ہونے کی دعویدار ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک نئی اشرافیہ کی نمائندہ ہے۔ پالیسیاں تیار اور نافذ کرنے کے معاملے میں یہ سیاسی جماعت خاصے سخت گیر رویّے کی حامل ہے۔ مگر خیر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ۲۰۰۲ء میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اقتدار میں آئی تو ہمیں خوشی ہوئی کیونکہ ہمارا یہ خیال تھا کہ یہ نئی جماعت ہے۔ اس میں خواتین کی آواز سننے کی اہلیت بھی تھی۔ اس سیاسی جماعت کو اقتدار دلانے میں سماجی شعور نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مگر خیر، اقتدار پاتے ہی اے کے پی کا انداز بدل گیا اور اِسے اقتدار دلانے والی سماجی تحریک بھی دب گئی۔ اے کے پی بھی خالص ترک سیاسی جماعت ثابت ہوئی۔ جن خواتین کو یقین تھا کہ اے کے پی کے اقتدار میں آنے سے خواتین کو کچھ مل سکے گا وہ اب شدید مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔
٭ ۱۹۷۰ء سے ترک امور پر آپ کی نظر ہے۔
جینی وائٹ: جی ہاں۔ ترکی کی نصف آبادی ۳۰ سال سے بھی کم عمر ہے۔ نوجوانوں کو تو خیر کچھ بھی یاد نہیں۔ جو لوگ اے کے پی پر سخت گیر رویہ رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں ان کا حافظہ یقینا بہت کمزور ہے۔ صحافیوں کو جیل میں ڈالے جانے پر اب بہت شور مچایا جارہا ہے مگر پہلے تو صحافیوں کو قتل کردیا جاتا تھا یا عقوبت خانوں میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشروں کے مقابلے میں ترکی اب بہت بہتر ہے۔ اب کم از کم اِتنا تو ہے کہ لبرل ازم، انفرادی تشخص اور بنیادی انسانی حقوق کی راہ متعین کرنے کی کوشش تو کی جارہی ہے۔ آج کے ترکی میں آرمینیا اور ۱۹۱۵ء کے واقعات کی بات تو کی جاسکتی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں اس کی ذرا بھی گنجائش نہیں تھی۔ پہلے سوچنے پر بھی عملاً پابندی تھی۔ اب اِتنا ہوا ہے کہ لوگ اپنے طور پر سوچ سکتے ہیں۔
٭ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ ترکی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے؟
جینی وائٹ: ویسے تو خیر پوری دنیا ہی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور ترکی اِس کُلیے سے مستثنیٰ نہیں۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے ترکی کو ذہن میں لائیے تو آج کا ترکی کوئی اور ہی دنیا معلوم ہوتا ہے۔ ۱۹۷۰ء کا ترکی بہت حد تک آہنی پردے والے مشرقی یورپ جیسا تھا۔ دنیا کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
٭ ترکی میں اسلام کا کیا مفہوم ہے؟
جینی وائٹ: کسی بھی مذہب سے وابستگی ظاہر کرنے کے سوطریقے ہوسکتے ہیں۔ استنبول میں ایک عالمہ ایسی بھی ہیں جو اسکارف نہیں پہنتیں مگر ان کی مقبولیت برقرار ہے، اور بہت سی سیکولر مزاج والی خواتین ان سے رابطہ کرتی ہیں۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ مسلم یا ترک ہونے کا مفہوم کیا ہے۔ دونوں معاملات میں ذہن کا واضح رہنا لازم ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت کسی نہ کسی طور آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ مگر ریاست کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ کسی کسی میں پایا جاتا ہے۔ اب ریاست اور حکومت ایک ہوچکی ہیں۔ پہلے ان میں فرق تھا۔ سیاسی بنیاد پر بہت سے اختلافات ہیں مگر اس کے باوجود شناخت واضح نہیں۔ لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ انہیں ترک کی حیثیت سے زیادہ شناخت کیا جائے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی شناخت زیادہ مستند ہو۔ ان کی نظر میں اسلام اب بھی بہت حد تک ترک پہلو کی حامل شناخت ہے۔ مغربی تہذیب اور بین الاقوامی شناختی علامات نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ وہ اپنی جڑوں کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔
٭ نومبر میں آپ کی کتاب ’’مسلم نیشنل ازم اینڈ دی نیو ٹرکز‘‘ شائع ہو رہی ہے۔ کیا اِس کتاب میں آپ نے ترکی میں شناخت کے مسئلے پر بحث کی ہے؟ اور کیا نئی شناخت کا کوئی تصور دیا ہے؟
جینی وائٹ: کیوں نہیں؟ پوری کتاب ہی ترکی میں شناخت کے مسئلے پر ہے۔ کمال ازم خون، نسل اور توارث پر مبنی تھا۔ ترکوں میں نسلی تعلق کا چرچا بہت رہتا ہے۔ ایک سال قبل ترکی میں ایک وزیر نے سائنس دانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس نکتے پر زور دیا کہ ترک ماہرین کو سائنسی امور میں ترقی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مہارت ہوگی تو ہم اسرائیل سے درآمدات ٹماٹر کے بیج استعمال کرنے سے بچیں گے کیونکہ اسرائیلی بیجوں والے ٹماٹر کھانے سے ترکوں کا جینیاتی ڈھانچا متاثر ہوگا! وزیر زراعت کو وضاحت کرنی پڑی کہ ترکی ٹماٹر کی فصل کے لیے درکار بیجوں کا صرف دس فیصد اسرائیل سے درآمد کرتا ہے۔ ۱۹۹۹ء کے زلزلے کے متاثرین کے لیے یونان کی جانب سے خون کا عطیہ لینے سے ایک ترک وزیر نے انکار کردیا تھا کیونکہ اس صورت میں ترکوں کی رگوں میں یونانیوں کا خون شامل ہو جاتا۔ لبرل ازم بھی یہی ہے کہ سب ایک ہیں، کوئی علیٰحدہ شناخت نہیں۔ ترکی میں لبرل زیادہ طاقتور نہیں۔ اقتدار مختلف گروپوں کے ہاتھ میں ہے جو جانتے ہیں کہ حدود کیا ہیں اور ان کی توضیح کس طور کرنی ہے۔
٭ ترکی میں شناخت کی تبدیلی کے حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟
جینی وائٹ: بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۰ء کے عشروں میں یورپ اور روس سے نسل پرستانہ نظریات ترکی پہنچے اور ترکوں نے اپنی نسلی شناخت کو دیگر تمام امور پر مقدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ترکوں میں اپنی نسلی شناخت کا معاملہ بہت حساس رہا ہے۔ اگر کوئی شخص بازنطینی سلطنت کے دور سے ترکی میں رہتا آیا ہو مگر اس کا نام اسحق یا ایشاک ہو تو اسے ترک تصور نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ یہودی ہے۔ ترکوں میں اب وسیع تر شناخت کا تصور پروان چڑھ رہا ہے۔ وہ محض رنگ اور نسل کو بنیاد بنائے رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ کل تک ترکی کی تاریخ ۱۹۲۳ء سے شروع ہوتی تھی۔ اب ترکی کے مسلمان تاریخ کھنگالتے ہوئے ۱۴۵۳ عیسوی تک چلے جاتے ہیں۔ تب سلطنتِ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں بھی بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بچوں کو تاریخ کے نام پر اقلیتی گروپوں سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر وسیع النظری اپنانے پر زور دیا جارہا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کردیا جاتا ہے کہ یہ سلطنتِ عثمانیہ کے بعد کا نہیں بلکہ استعمار کے بعد کا زمانہ ہے۔ ترکی کے سابق صدر اور وزیراعظم ترغت اوزال (Turgut Ozal) نے اس نکتے پر زور دیا تھا کہ کون ترک ہے اور کون دشمن۔ اب زیادہ زور یہ ثابت کرنے اور یاد دلانے پر لگایا جارہا ہے کہ کبھی ترکی بھی عظیم طاقت تھا اور اب بھی وہ سپر پاور بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔
٭ بین الاقوامی سطح پر ترکی کے نمایاں ہونے اور ترقی سے ہمکنار ہونے کی پُشت پر کون سے عوامل ہیں؟
جینی وائٹ: ترغت اوزال کے دور میں ترکی نے وسیع النظری کو اپنایا۔ اس سے قبل ماڈل یہ تھا کہ جو ترک نہیں وہ ہمارے دشمن ہیں اور انہیں شک کی نظر سے دیکھو۔ مگر تُرغَت اوزال نے اِس نکتے پر زور دیا کہ ہمیں کسی پر بلا وجہ شک کرنے کی ضرورت نہیں۔ آزاد معیشت کو گلے لگا کر ترکی نے بہت تیزی سے اپنا آپ منوایا ہے۔ اب ترک قوم کا اعتماد بحال ہوچکا ہے اور اسی کیفیت کو سامنے رکھ کر موجودہ حکومتی نظام اس نکتے پر زور دے رہا ہے کہ ترکی اپنے ماضی کو دُہرا سکتا ہے یعنی سپر پاور بن سکتا ہے۔ ترکی نے سیاسی، سفارتی اور معاشی سطح پر بہت عمدگی سے اپنی صلاحیتوں کو پہچانا ہے اور یوں اپنی بھرپور حیثیت کو منوایا بھی ہے۔
٭ جن ممالک میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی ہے کیا اُن کے لیے ترکی ماڈل کا کردار ادا کرسکتا ہے؟
جینی وائٹ: مختلف لوگوں کے لیے اس کا مفہوم مختلف ہوتا ہے۔ مصر میں جب جرنیلوں نے پارلیمنٹ تحلیل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا اور اسلام نواز عناصر کو دھکیل دیا تو اسے بھی انہوں نے ترک ماڈل قرار دیا۔ کمال اتا ترک کا ماڈل یہ ہے کہ فوج کو انتہائی طاقتور ہونا چاہیے تاکہ وہ اسلامی عناصر کو اقتدار میں آنے سے روک سکے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردغان قاہرہ گئے تو اخوان المسلمون کے رہنماؤں سے ملے۔ اخوان المسلمون کے رہنما ترکی کو ماڈل قرار دیتے ہیں مگر اردغان نے انہیں بتایا کہ ترکی میں اسلامی جمہوریت نہیں ہے بلکہ سیکولر جمہوریت کا راج ہے۔ تیونس میں النہضہ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کو ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیونس بہت سے معاملات میں پہلے ہی ترکی جیسا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ترکی ماڈل ہے بلکہ اب تیونس نے خود کو زیادہ قوت کے سامنے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ ترکی میں اب ترک اسلامیت کا زور ہے اور اس شناخت نے اسلام نواز رویّے کو ایک طرف ہٹا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنا یا متعلق ہونا ذاتی نوعیت کا معاملہ ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم ہر معاملے میں انتہا پسندی یا شدت پسندی کا مظاہرہ ہی کریں۔ کسی بھی متقی عیسائی کے لیے سیاست کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد لازم نہیں کہ وہ عیسائی عقائد ہی کو سختی کے ساتھ اپنائے اور دوسروں پر مسلط کرے۔ آپ کے مذہبی عقائد خواہ کچھ ہوں، حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں یہ سب کام نہیں آتا۔ سیاسی دنیا میں کام کرنے کا الگ ہی ڈھنگ ہوتا ہے اور اِس دنیا کے اصول الگ ہیں۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی ہر اعتبار سے خالص ترک سیاسی جماعت ہے۔ اس میں بھی سخت گیری ہے اور حفظِ مراتب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اِس کے لیے اسلامی تعلیمات کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یہ کوتاہ نظری ہے۔
مصر میں جو کچھ ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ مصری عوام نے اخوان المسلمون کو محض اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل چاہتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی نظر میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے سیاست دان تبدیلی لانے کے اہل ہیں۔ مصر کے عوام کو تبدیلی درکار ہے۔ وہ ایک نئی زندگی کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خواتین چاہتی ہیں کہ ان کی آزادی کی ضمانت دی جائے۔ ترک ماڈل وسطِ ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے وہ ممالک ان تمام مراحل سے گزریں جن سے ترکی گزرا ہے۔
٭ ترکی میں خواتین کے معاملات کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ آپ نے کہا ہے کہ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو نظر انداز کردیا گیا۔
جینی وائٹ: ترکی میں لوگ اب بھی خواتین کو ان کی مخصوص حیثیت دینے یا اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا میں یہ تجربہ کیا تھا۔ باتھ رومز پر ’’لیڈیز‘‘ لکھا ہوا تھا جو اس بات کی علامت تھا کہ عورت ذات کو ایک خاص تناظر میں دیکھا جارہا ہے، ایک گروپ کے طور پر لیا جارہا ہے۔ ہم نے ’’لیڈیز‘‘ کے بجائے ’’ویمین‘‘ لکھوانا شروع کیا جو اس امر کا غمّاز تھا کہ اب خواتین کی انفرادی شناخت اور حیثیت تسلیم کرلی گئی ہے۔ بعض معاملات میں ریاست خواتین پر کچھ زیادہ ہی جبر کر رہی ہوتی ہے۔ ترکی میں خواتین کے لیے جبری ورجینٹی ٹیسٹ (Wirginity Tests) تھا یعنی اُن کی عصمت و عفت کا تعین کرنا ریاست اپنی ذمہ داری اور حق سمجھتی تھی۔ ریاست کو اِن امور میں کیوں مداخلت کرنی چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ ریاست بھی جبر ہی کی ایک شکل ہے۔
٭ رجب طیب اردغان نے اسقاطِ حمل اور سیزرین آپریشن سے متعلق جو کچھ کہا ہے کیا وہ آپ کے نزدیک قابل قبول ہے؟
جینی وائٹ: بات یہ ہے کہ ریاستی مشینری کے ذہن سے یہ بات نہیں نکلتی کہ عورت اس کی ذمہ داری اور جاگیر ہے۔ عورت سے متعلق بہت سے امور میں ریاست نے یہ طے کرلیا ہے کہ وہ ذمہ دار ہے اور پھر عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کردیا جاتا ہے۔ ترکی جیسے معاشروں میں خواتین کے لیے احترام کی صرف ایک صورت رہ گئی ہے ۔۔۔ یہ کہ شہید کی ماں کہلوایا جائے۔
٭ گولن تحریک کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
جینی وائٹ: یہ خالص اسلامی تحریک نہیں۔ لوگ جو کچھ بھی چاہتے ہیں وہی ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس تحریک نے نوجوانوں کو خاصا متاثر کیا ہے۔ ترک نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دیا جائے۔ اخوان المسلمون جس طرز کی تبدیلی نہیں لاسکے، وہ گولن تحریک کے ذریعے آئی ہے۔ اسلام کے معاملے میں ترک اور دیگر مسلم معاشروں کو قدرے خود مختار سوچ کا حامل ہونا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی بھی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔ ترک معاشرے میں لوگ اپنی شناخت چاہتے ہیں۔ وہ روحانی خلا محسوس کر رہے ہیں اور اس حوالے سے بہت کچھ پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اُن کی راہ نمائی کی جائے۔
ترکی میں ایسے بہت سے مسلمان لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو کسی اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے بغیر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور عمل کرتے بھی ہیں۔ ایسی بہت سی خواتین ہیں جو سر ڈھانپنا پسند کرتی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر ان کا تعلق کسی بھی سیاسی تنظیم یا جماعت سے نہیں۔ ترک ماڈل مصر کے لیے بہت موزوں ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر یہ سب آسانی سے نہیں ہوگا کیونکہ فوج معیشت کے بڑے حصے پر قابض اور متصرف ہے۔ فوج کے اثرات کم کرنے کے بعد ہی کوئی مثبت تبدیلی لائی جاسکے گی۔
(“Anthropologist: Turkish Muslimhood Replacing Islamism”…”Todays Zaman”. July 1st, 2012)
Leave a Reply