چین میں امریکا مخالف جذبات

تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی قوت ہونے کی بنیاد پر چین اب امریکا کے لیے ایک بڑے اور مستقل دردِ سر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ چینیوں نے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کی ہے اور بڑے پیمانے پر پیداوار کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ سستی چینی مصنوعات کی بھرمار نے کئی ترقی پذیر ممالک کے صنعتی ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔ یورپ بھی چین کے پنپتے ہوئے عروج سے لرزہ براندام ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس کی معاشی قوت بھی زَد میں ہے۔

امریکا کی بدحواسی میں اس لیے اضافہ ہو رہا ہے کہ چین کے طاقتور ہونے سے سب سے زیادہ وہی متاثر ہو رہا ہے اسے یہ خوف بھی لاحق ہے کہ چین کوئی علاقائی اتحاد قائم نہ کر بیٹھے۔ اب تک تو امریکا پاک بھارت اور بھارت چین کشیدگی کو ہوا دے کر اپنا اُلو سیدھا کرتا آیا ہے۔ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے؟ کیا چین، بھارت اور پاکستان ہمیشہ امریکی پالیسی کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے؟

چین کے عوام کو اب بہت شدت سے یہ احساس ہو چلا ہے کہ امریکا کے خوف سے سب کچھ دائو پر نہیں لگایا جا سکتا۔ امریکا چاہتا ہے کہ ایشیا اور بالخصوص شمال مشرقی ایشیا میں اس کے مفادات دائو پر نہ لگیں۔ اس خطے کے ممالک اپنے مفادات کی قیمت پر امریکی مفادات کا تحفظ کیونکر برداشت کر سکتے ہیں؟ صورت حال کو برداشت کرنے کی بہرحال ایک حد ہے۔ چین میں رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ۵۵ فیصد چینی اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ امریکا سے سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔ یہ سرد جنگ معاشی میدان میں بھی ہے اور اسٹریٹجک میدان میں بھی۔ چینیوں کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ امریکا آسانی سے ہار نہیں مانے گا اور اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا۔ مگر کیا چینی اب سب کچھ برداشت کرنے کے موڈ میں ہیں؟ بظاہر ایسا نہیں ہے۔

چین میں رائے عامہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ میڈیا کی سرکردہ شخصیات کا لہجہ بھی بدلتا جا رہا ہے۔ چینی بحریہ کے افسران تسلیم کرتے ہیں کہ امریکا سے تصادم خارج از امکان نہیں۔ اس حوالے سے چین تیاریاں بھی کر رہا ہے۔ اہم بحری راستوں پر امریکی اجارہ داری اور نگرانی کو برداشت کرتے رہنے کی سوچ اب چین میں تیزی سے مٹ رہی ہے۔ چینی حکومت باضابطہ طور پر کچھ کہنے سے گریز کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی پالیسی ہی کا حصہ ہو۔

ایک عرصے سے عالمی میڈیا میں یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے کہ چین کی پوری توجہ اقتصادی قوت میں اضافے پر مرکوز ہے۔ اور یہ کہ فی الحال وہ کسی مناقشے میں الجھنا نہیں چاہتا۔ مگر کیا چین کے لیے امریکا کی بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے دامن چھڑانا ممکن ہو گا؟ پوری دنیا میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے امریکی افواج دندناتی پھر رہی ہیں۔ عراق اور افغانستان جیسے کمزور ممالک کو دبوچ کرامریکیوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کسی بھی طاقتور ملک کو چھیڑنے سے بہرحال گریز کیا گیا ہے۔ چین اور جاپان سے الجھنا امریکی مفاد میں نہیں۔ شاید منہ کی کھانی پڑے۔ مگر کیا چین کے لیے الگ تھلگ پڑا رہنا ممکن ہے؟ ۲۰۳۰ء تک کے لیے جو حکمتِ عملی ترتیب دی گئی ہے کیا اب اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں؟

چین میں اب یہ احساس تیزی سے ابھر رہا ہے کہ کوئی بھی طویل المیعاد حکمتِ عملی آج کے دَور میں قابلِ عمل نہیں۔ امریکا اپنی طاقت میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی کمی پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممالک اور خطوں کو زیرِ نگیں رکھنا چاہتا ہے۔ اگر چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے یہ صورتحال ناقابلِ برداشت ہوئی تو؟ ظاہر ہے کہ بات تصادم تک پہنچے گی اور تباہی پر ختم ہو گی۔ چین جیسے ممالک امریکی مجبوری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔ جنوبی، جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا میں چین کو الجھائے رکھنا امریکا اور یورپ کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ ایسے میں سرد جنگ کو گرم جنگ میں تبدیل ہونے میں کتنی دیر لگے گی؟ چین کے بہت سے اعلیٰ فوجی افسران کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ وہ امریکا سے تصادم میں بھی کوئی خوف محسوس نہیں کرتے۔ بہت سے فوجی افسران کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو سزا دینا ضروری ہو گیا ہے اور سزا دینے کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکا کے دشمنوں کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ بیچا جائے۔ ان افسران نے ایران، شمالی کوریا، شام، کیوبا اور وینزویلا کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے کی وکالت کی ہے۔ چین میں خیالات اور جذبات کے غیر سرکاری اظہار کو بہت حد تک کنٹرول کیا جاتا رہا ہے۔ اب رائے عامہ کے جائزوں سے چینی معاشرے کے فکری رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔ امریکا مخالف جذبات تیزی سے پنپ رہے ہیں۔ چینی حکومت کیا سوچ رہی ہے اس کا باضابطہ اظہار اب تک بہت محتاط رہا ہے۔

اکیسویں صدی کے بیشتر عشروں میں چین ہی امریکا کے لیے دردِ سر رہے گا۔ امریکا کا خوفزدہ ہونا اور بدحواسی میں الٹی سیدھی حرکتیں کرنا حیرت انگیز نہیں۔ اب چینیوں کو احساس ہو چلا ہے کہ امریکی پالیسیوں کے آگے بند باندھنے کے سوا چارہ نہیں۔ چین میں بدلتی ہوئی رائے عامہ خود امریکی پالیسی میکرز کے لیے بھی کم تشویشناک نہیں۔

چین کے سرکاری اخبار چائنا ڈیلی میں ایک تجزیہ کار نے امریکی پالیسیوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی منہ پر تھوکے تو جواب میں اس کے منہ پر تھوک دینا چاہیے۔ دنیا کی ریت یہی ہے۔ یہ امریکا کے لیے واقعی لمحۂ فکریہ ہے۔ اسے اپنی تمام پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ معاملات کو نرمی اور اعتدال ہی سے درست کیا جا سکتا ہے۔

(بشکریہ: ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘۔ ۷ فروری ۲۰۱۰ء۔ ترجمہ: سعیدہ رحیم)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*