مغرب نے دہرا معیار اپنا رکھا ہے!

پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی اور مرکزی کردار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ۲۰۰۴ء میں ٹیلی وژن پر اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو جوہری ٹیکنالوجی فراہم کی۔ اعتراف کے بعد انہوں نے خاصی خاموش زندگی بسر کی ہے۔ وہ تقاریب میں شرکت سے گریز کرتے ہیں۔ میڈیا پر انہیں کم ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنے ملک میں ہیرو اور بیرون ملک عالمی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے فصیح احمد نے ای میل کے ذریعے انٹرویو کیا ہے۔


o پاکستان کے جوہری اثاثوں کو اسلامی بم قرار دیا جاتا ہے۔ کسی بھی دوسرے اسلامی ملک کے پاس جوہری بم نہیں، تو کیا پاکستانی جوہری اثاثوں کو اسلامی بم قرار دینا درست ہے؟

عبدالقدیر خان: اسلامی بم کی اصطلاح مغرب نے گھڑی تھی اور اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں اور پاکستان سے عالمی برادری کو ڈرانا تھا تاکہ جوہری پروگرام کی مخالفت کی جائے۔ مسلمانوں کو لتاڑنے، ان کا مذاق اڑانے اور اسلام کی زریں تعلیمات کے سامنے دیوار کھڑی کرنے میں مغربی دنیا ہم آہنگ ہے۔

o جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں پر ایران کو عالمی برادری کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ اگر ایران نے جوہری بم حاصل کرلیے یا بنالیے تو عالمی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟

عبدالقدیر خان: ایران کے بارے میں بھی گمراہ کن باتیں پھیلائی جارہی ہیں۔ مغربی عوام کو بتایا جارہا ہے کہ ایران ایک جنونی ملک ہے اور اگر اس نے جوہری ہتھیار بنائے تو عالمی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کیا ہم بھول گئے کہ عراق میں وسیع تباہی کے ہتھیاروں کے بارے میں بھی گمراہ کن باتیں پھیلائی جاتی رہیں۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے انسپکٹرز کے علاوہ اقوام متحدہ کے اسلحہ انسپکڑ ہانس بلکس نے عراق کے کئی دورے کیے اور مختلف مقامات کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی لانے والے ہتھیار نہیں۔ اس کے باوجود سابق امریکی صدر جارج واکر بش اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر یہی شور مچاتے رہے کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں اور پھر اس واویلے کی بنیاد پر عراق کو جنگ کی آڑ میں تباہ کردیا گیا۔ لاکھوں افراد کو قتل کیا گیا، ایک قدیم تہذیب کو تباہ کیا گیا، ایک ملک پر قبضہ جمایا گیا اور عراقیوں کو مارنے کے لیے خود عراقیوں کو توپچی بناکر بٹھادیا گیا۔ دوسری جانب ایران ہے جو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا رکن ہے اور اس کے اصولوں کے مطابق اس نے اپنی جوہری تنصیبات کو بین الاقوامی معائنے کے لیے کھول بھی رکھا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا۔ مغرب نے اس کے باوجود اپنی روش ترک نہیں کی اور دہرے معیار کو اپناتے ہوئے اس کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھا ہے۔

o پاکستان میں لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ایک جوہری ملک کے باشندے ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ اب بھارت کے خلاف ایک کارگر بھی موجود ہے۔

عبدالقدیر خان: اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا جوہری پروگرام اس کی خود مختاری کے تحفظ اور بقاء کا ضامن ہے۔ میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ اپنے محب وطن ساتھیوں کے ساتھ میں نے اس پروگرام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

o آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جاوید اشرف قاضی نے حال ہی میں ایک پاکستانی نیوز چینل کو بتایا کہ ۱۹۹۴ء میں سی آئی اے کے ایجنٹ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری اثاثے مکمل محفوظ ہیں؟

عبدالقدیر خان: اب تک کوئی غیر متعلقہ شخص کہوٹہ کی جوہری تنصیبات میں داخل نہیں ہوسکا۔ میجر، بلکہ جنرلز کو بھی حساس معلومات تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔ امریکا اس حوالے سے مکمل اندھیرے میں ہے۔ کہوٹہ میں ریسرچ لیباریٹریز اور پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کوئی جنرل اسٹور نہیں کہ جس میں کوئی داخل ہو اور اپنی مرضی کے مطابق کوئی بم وغیرہ خرید لے! امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے ہمارے دو سائنس دانوں کو ورغلانے اور مالا مال کرنے کی پیشکش کی۔ ان دونوں نے معاملات سے مجھے آگاہ کیا۔

o کیا جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں؟

عبدالقدیر خان: یہ بھی مغرب کا ایک پروپیگنڈا ہے۔ جوہری ہتھیار خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان میں کئی آلات استعمال ہوتے ہیں۔ انجینئرز بھی موزوں ترین تربیت کے بغیر جوہری ہتھیار تیار اور استعمال نہیں کرسکتے۔ ایسے میں غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ دہشت گرد جوہری ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں، اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

o جنوبی افریقا اور لیبیا کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے جوہری ہتھیار بنانے یا رکھنے کی خواہش ترک کردی۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا ممکن ہے؟

عبدالقدیر خان: جنوبی افریقا کی مثال دینا بہت آسان ہے۔ اس ملک نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق خواہش اس وقت ترک کی جب اقتدار کی منتقلی کا معاملہ سامنے آیا۔ سفید فام اقلیت نے سیاہ فام اکثریت کو اقتدار سونپنے سے قبل جوہری ہتھیار تلف کردیئے۔ سفید فام نسل یہ برداشت ہی نہیں کرسکتی تھی کہ سیاہ فام نسل کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہوں۔ لیبیا والوں کو تو عراق پر مغربی دنیا کے حملے نے بدحواس کردیا تھا۔ صدام حسین کی حکومت پر وسیع پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ لیبیا کے حکمرانوں نے سوچا کہیں ان کے ملک پر ایسا ہی کوئی جواز تلاش کرکے حملہ نہ کردیا جائے۔ اسی بدحواسی میں انہوں نے جوہری پروگرام ترک کرنے کا اعلان کیا اور جو کچھ بھی مواد یا آلات وغیرہ تھے وہ مغرب کے حوالے کردیئے۔

o امریکا کو پاکستان کے جوہری پروگرام کا علم تھا مگر جب تک افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد جاری رہا، امریکا نے چشم پوشی اختیار کی۔ جہاد ختم ہوا تو امریکی کانگریس نے پاکستان کے لیے امداد پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کردی کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جوہری پروگرام کے معاملے میں پاکستان اور بھارت سے عالمی برادری کا رویہ امتیازی نوعیت کا رہا ہے؟

عبدالقدیر خان: پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے افغان جنگ ایک نعمت ثابت ہوئی۔ جب تک افغان جنگ جاری رہی، مغرب کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ کہنے کا حوصلہ بھی نہ ہوا۔ انہیں اندازہ تھا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی موجودگی کی صورت میں پاکستان کی مخالفت کرنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ ۱۹۹۰ء تک امریکا اور برطانیہ کو ہمارے جوہری پروگرام کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مغرب نے اقتصادی پابندیاں عائد کرکے بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے چند ایک رعایات حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔

o کہا جاتا ہے کہ امریکا کی جوائنٹ اسپیشل آپریشن کمانڈ آپ کو قتل کرنے کے درپے رہی ہے۔ آپ خود کو کس حد تک محفوظ تصور کرتے ہیں؟

عبدالقدیر خان: یہ سب محض کہنے کی باتیں ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کا بنیادی ذہن میں ہوں۔ میں دنیا بھر میں بے فکری سے سفر کرتا رہا ہوں۔ مجھے کبھی کسی نے قتل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اللہ نے میرے لیے جو وقت مقرر کر رکھا ہے وہی مقررہ وقت ہے۔ میں پہلے کبھی موت سے ڈرا تھا، نہ اب ڈرتا ہوں۔ موت کی دھمکیوں سے بھی میں نہیں ڈرتا۔ جب میرا وقت آئے گا تو عزرائیل علیہ السلام مجھے ڈھونڈ نکالیں گے۔

o کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ افغانستان اور عراق میں جنگ سے دنیا محفوظ ہوئی ہے؟

عبدالقدیر خان: ہرگز نہیں۔ ان دونوں جنگوں نے دنیا کو مزید غیر محفوظ بنادیا ہے۔ قوم پرستوں کو آپ بنیاد پرست کہیں یا دہشت گرد، انہوں نے جنگ کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو مزید مستحکم کرلیا ہے۔ یہ لوگ مغربی قوتوں کے تمام منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے میدان میں ہیں اور کسی بھی طرح ہتھیار پھینکنے کے لیے تیار نہیں۔

o سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے پاکستان کو القاعدہ کا موجودہ ہیڈ کوارٹر قرار دیا ہے۔ برطانیہ کا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردی اور دہشت گرد برآمد کر رہا ہے۔ ان دونوں الزامات کے جواب میں پاکستان کیا کرسکتا ہے یا کیا کرے گا؟

عبدالقدیر خان: اپنے پیش روؤں کی طرح سی آئی اے کا موجودہ سربراہ بھی جھوٹا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی موجودگی سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہمارے بے حس حکمرانوں نے جوہری قوت سے لیس ۱۸ کروڑ نفوس پر مشتمل قوم کو تیسرے درجے کی، بھکاری بنا ڈالا ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں میں ذرا بھی غیرت ہوتی تو وہ صورت حال کے مطابق اقدامات کرتے اور کسی کو تنقید کی جرأت نہ ہوتی۔

o ٹی وی پر جوہری پھیلاؤ کا اعتراف کرنے کے باوجود پاکستان میں آپ کی مقبولیت میںکوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کیا آپ کبھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ سے نا انصافی روا رکھی گئی یا آپ کو دھوکا دیا گیا؟

عبدالقدیر خان: عوام کو بے وقوف بنانا ممکن نہیں۔ لوگ بہت کچھ جانتے ہیں۔ سچائی کا انہیں علم ہے، اندازہ ہے۔ میں کبھی یہ محسوس نہیں کرتا کہ میرے عوام نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ ہاں، حکومت کے ہاتھوں فریب کھانے کا احساس ضرور ہوتا ہے۔

o کیا پاکستان دنیا کے لیے خطرہ ہے؟

عبدالقدیر خان: کسی بھی طور نہیں۔ پاکستان کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں۔ جب غیر ملکی افواج اس خطے سے نکل جائیں گی تب ہم دوبارہ امن اور سکون سے رہنا شروع کردیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن اللہ کا خوف اپنے دلوں میں رکھنے والے حکمران اس ملک کو ملیں گے اور وہ ایسا نظام لائیں گے جس سے ملک حقیقی مفہوم میں ترقی کرے گا۔

o کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جس کی کوئی پائیدار شناخت نہیں۔ جوہری بم بھی کرکٹ کی طرح محض ایک ایسی چیز ہے جو قوم کو متحد رکھنے کے کام آ رہا ہے۔ آپ اس خیال سے کس حد تک متفق ہیں؟

عبدالقدیر خان: پاکستان کوئی مصنوعی یا مفروضے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا ملک نہیں۔ ہندوستانی مسلمان مذہب، ثقافت اور روایات کے اعتبار سے ایک الگ اور باضابطہ قوم تھے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تنگ نظر اور مفاد پرست قائدین نے اس قوم کو مختلف النوع گروہوں میں تقسیم کردیا۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۶ ستمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*