شکریہ۔۔۔ اور خدا حافظ!

نتیجہ اچھا نکلے گا یا برا یہ تو کوئی نہیں جانتا تاہم اتنا ضرور ہے کہ مصر اور سعودی عرب میں بہت جلد بڑے پیمانے پر اور بنیادی نوعیت کی تبدیلی آ رہی ہے۔

عرب دنیا کی دو بڑی ریاستوں کا مقدر معمر اور مطلق العنان حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ۸۲ سالہ حسنی مبارک ۱۹۸۱ء سے مصر پر حکومت کر رہے ہیں۔ اب ان کی صحت جواب دیتی جارہی ہے۔ شاہ عبداللہ نے پانچ سال قبل عرب دنیا کی امیر ترین ریاست کی باگ ڈور سنبھالی۔ ویسے وہ اس سے بہت پہلے سے حکمرانی کرتے آ رہے تھے۔ شاہ عبداللہ بھی اب خاصے معمر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی عمر ۸۶ سال ہے۔ ان دونوں حکمرانوں کے بعد اب ان کے ملک میں ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

قوی امکان اس بات کا ہے کہ حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ اپنے جانشین کا انتخاب خود کریں گے اور انہیں اقتدار سونپنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال کو طویل مدت سے حکومت کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ دوسری طرف شاہ عبداللہ چاہیں گے کہ ان کے بعد اقتدار ولی عہد سلطان ہی کو ملے۔ ویسے سعودی عرب میں بادشاہ بننے کی قانونی حیثیت رکھنے والے شہزادوں کی تعداد ۱۸ ہے! دونوں ممالک میں اپوزیشن برائے نام ہے۔ مصر میں اپوزیشن کو کچلنے کے لیے ریاستی قوت بھرپور طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ کچھ کچھ یہی حال سعودی عرب کا بھی ہے۔ دونوں ممالک میں کسی نہ کسی حد تک تشدد کو بھی راہ ملی ہے۔ جنہیں کچلا جاتا رہا ہے وہ طاقت جمع کرکے، منظم ہوکر سرکاری افسران اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ جہاں مطلق العنان حکومت ہو وہاں اقتدار کی منتقلی کا عمل خاصا پیچیدہ ہوا کرتا ہے۔

مغرب کو مشرقی وسطیٰ میں دیگر ممالک سے کچھ خاص غرض نہیں۔ سعودی عرب اور مصر میں اقتدار کی منتقلی پر مغرب کی زیادہ نظر ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک توانائی اور سیکورٹی کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگر اس کے حالات خراب ہوئے تو توانائی کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ مصر کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں کچھ گڑبڑ ہوئی تو خطے کی سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔ مصر اور سعودی عرب اب تک مغرب کے لیے قابل اعتماد اتحادی ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ان دونوں ممالک کے معاملات بگڑے تو مغرب کا بہت کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔ مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اور مصر اپنے ہاں کسی حد تک سیاسی اور معاشی اصلاحات نافذ کریں تاکہ مستقبل میں کسی بھی بڑی پیچیدگی کو آسانی سے روکا جاسکے۔ جن لوگوں کے جذبات کچلے جاتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح انتقام لینے پر تلے رہتے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں اپوزیشن کو ہر دور میں کچلا گیا ہے۔ اب مغرب کو احساس ہو رہا ہے کہ صورت حال کسی بھی وقت بے قابو ہوسکتی ہے۔

حکمرانی کا مسئلہ سعودی عرب اور مصر تک محدود نہیں۔ مسلم دنیا کسی زمانے میں فلکیات، الجبرا، تعمیرات اور انجینئرنگ میں غیر معمولی مہارت کی حامل تھی مگر کئی صدیوں سے اس پر جمود طاری ہے۔ عرب معاشرے خاص طور پر انحطاط اور زوال سے دوچار رہے ہیں۔ عرب دنیا تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس کے باوجود بھرپور ترقی خال خال دکھائی دیتی ہے۔ تیل کی دولت سے ضرورت کا سارا سامان خرید لینا ترقی نہیں۔ چند ایک عرب ممالک ہی میں عوام کو بھرپور خوش حالی کے ساتھ جینے کا موقع دیا گیا ہے۔

عرب لیگ کے ارکان کی تعداد ۲۲ ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی رکن ایسا نہیں جس کے ہاں مکمل جمہوریت نافذ ہو۔ لبنان اس معیار پر کسی حد تک پورا اترتا ہے۔ اس کی کوئی ایک، مکمل قومی فوج بھی نہیں اور فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم بھی نمایاں ہے مگر اس کے باوجود اس نے کسی نہ کسی حد تک جمہوریت کو اپنایا ہے۔ صدام حسین کے بعد کے عراق میں انتخابات تو ہوئے ہیں مگر کرپشن، تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے معاملات کو خراب ہی رکھا ہے۔ فلسطین میں انتخابات ہوئے تو حماس کو فتح ملی مگر اسے حکمرانی کا موقع نہیں دیا گیا۔ مراکش اور کویت میں کثیر الجماعتی نظام ہے مگر معاملات اب بھی بادشاہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ دوسری جانب لیبیا اور شام جیسے ممالک ہیں جن میں سب کچھ وراثت ہی کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ انتخابات اور جمہوری روایات کے معاملے میں بعض افریقی ممالک عرب دنیا سے بہتر ہیں۔

مصر اور سعودی عرب میں کچھ کچھ بہتری کے آثار ہیں۔ مصر کی معیشت مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب میں تعلیم پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ خواتین کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ جدہ میں

ایک نئی یونیورسٹی قائم کرنے پر بارہ ارب ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ ہائی اسپیڈ ریلوے کی تعمیر پر بھی اربوں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔ یہ وہ منصوبے ہیںجن سے پورے معاشرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مشکل یہ ہے کہ مصر اور سعودی عرب میں سیاسی نظام مقفل ہے۔ عام آدمی کے لیے سیاست میں اوپر آنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ بدعنوانی بھی اچھی خاصی ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے سازشیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ بالائی سطح پر پائی جانے والی یہ تمام خرابیاں نچلی سطح پر بھی خرابیاں پیدا کرسکتی ہیں، معاشرے میں شدید عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹیلی مواصلات کی دیگر جدید سہولتیں اب عوام کو تیزی سے متحرک کردیتی ہیں۔ اور ایسے میں انہیں کنٹرول کرنا آسان نہیں رہتا۔

یہ سوچنا محض سادہ لوحی پر مبنی ہوگا کہ مصر اور سعودی عرب میں بھرپور جمہوریت بہت کم وقت میں آسکتی ہے۔ اگر مصر میں اخوان المسلمون (غیر سرکاری اپوزیشن) کو ایک بار انتخابات میں کامیابی مل گئی تو وہ کسی بھی حالت میں اقتدار سے دستبردار نہیں ہوگی۔ سعودی عرب میں بہت سوں کا خیال ہے کہ اگر اسامہ بن لادن سے ہمدردی رکھنے والے اسلامی عسکریت پسندوں کو اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا تو وہ خاصے سفاک اور غیر لچکدار انداز سے حکومت کریں گے۔

مصر میں اخوان المسلمون کو کئی عشروں سے کچلا جارہا ہے۔ اس تنظیم کے پیرو کاروں اور ہمدردی رکھنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ اسے کچلنا سراسر نا انصافی پر مبنی تھا اور ہے۔ اس میں دانش مندی بھی کچھ نہیں۔ اخوان کے ہزاروں کارکن جیل میں ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اخوان کے مرکزی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے حکمرانی کو پسند کرتے ہیں۔ وہ تشدد کو ترک کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں اگر انہیں مسترد کردیا گیا تو وہ عوام کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کریں گے۔ حسنی مبارک چاہیں تو اخوان کے رہنماؤں کی سنجیدگی کو مقامی سطح پر آزما سکتے ہیں۔ انہیں لوکل کونسلیں چلانے کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ انہیں حکومت میں مختلف سطحوں پر اور بالخصوص وزارتوں میں آزمایا جائے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے کے سابق سربراہ محمد البرادعی آئندہ سال مصر میں صدارتی انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ ان کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہیں کی جانی چاہیے۔ سعودی عرب میں فی الحال جمہوری روایات کی گنجائش تو نہیں تاہم شاہ عبداللہ کو شاہی خاندان کی اندرونی ریشہ دوانیوں کے خاتمے کے لیے چند ایک اصلاحات ضرور نافذ کرنی چاہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ اقتدار کے لیے اہل سمجھے جانے والے شہزادوں کی تعداد میں کمی کی جائے۔ سعودی عرب کی بنیاد ڈالنے والے شاہ سعود کی اولاد میں سے بھی بہت سوں کو اقتدار کی دوڑ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

جمہوریت پہل مرحلے میں تمام مسائل کا حل نہیں۔ سعودی عرب کو جمہوریت سے کہیں بڑھ کر اعلیٰ تعلیم، قانون کی مکمل حکمرانی، شاہی خاندان تک محدود نہ رکھی جانے والی معیشت، اہل اور مستعد سول سروس، آزاد میڈیا، خواتین کے حقوق اور دیگر متعلقہ امور میں آگے بڑھنا ہوگا۔ سعودی عرب کو متحرک سول سوسائٹی اور بھرپور توانا اداروں کی ضرورت ہے۔ تمام ریاستی اداروں کو معاشرے کے مجموعی مفاد کے لیے کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے قوانین اور ان پر عملدرآمد کے طریق کار پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کے آئندہ حکمران کو سب سے پہلے اس معاملے ہی پر توجہ دینی ہوگی۔ عرب دنیا میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی جمہوریت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنائے بغیر جمہوریت بھی ممکن نہیں۔ عرب دنیا میں اس وقت جو نظام ہائے حکومت مروج ہیں ان سے انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جاسکی ہے نہ جمہوریت کا فروغ۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*