کیا خودکش حملے مذہبی جنون کی پیداوار ہیں؟

امریکیوں کی اکثریت اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ دہشت گردی ان کے گھروں تک آ پہنچی ہے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں توازن نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت سے ہزاروں ارب ڈالر ضائع ہوئے ہیں اور ہوم لینڈ سیکوریٹی کے نام پر بھی سیکڑوں ارب ڈالر ٹھکانے لگائے گئے ہیں۔ قومی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر لوگوں سے ان کی آزادی تک چھین لی گئی ہے۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے جہادی عناصر کو ایسے عفریت کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ہے جو شہری آزادی اور جمہوریت کا مخالف ہے۔ اس تاثر کو پروان چڑھایا گیا ہے کہ امریکا نے غیر معمولی جدوجہد اور سماجی انقلاب کے ذریعے جو کچھ حاصل کیا ہے جہادی عناصر اسے ملیا میٹ کرنے کے درپے ہیں۔ امریکیوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ جہادی جمہوریت کو جڑ سے مٹانے کے خواہش مند ہیں کیونکہ وہ عوام کی حکمرانی کے قائل نہیں۔

امریکی حکومت اور میڈیا نے انفرادی سطح پر دہشت گردی کے اسباب جاننے اور عوام کو بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جب بھی انفرادی دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونما ہوا ہے امریکی انتظامیہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکی تہذیب اور آزادیوں کو خطرہ ہے۔ یہ محض ایک دھوکا ہے جس سے خارجہ پالیسی میں مزید خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اور داخلی سلامتی کے لیے خطرات بڑھے ہیں۔

امریکا میں تین کیس ایسے ہوئے ہیں جن سے درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جہادیوں کے بارے میں بش انتظامیہ نے صرف غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ ستمبر میں افغان تارکِ وطن نجیب اللہ زائری کو گرفتار کیا گیا۔ اس پر نیویارک کے زیرِ زمین ریلوے نظام کو تباہ کرنے کی سازش رچانے کا الزام تھا۔ نجیب اللہ زائری کا کہنا تھا کہ وہ اس قیامت کی طرف دنیا کی توجہ دلانا چاہتا تھا جو افغان قوم پر ڈھائی گئی ہے۔ نومبر میں امریکی شہر فورٹ ہڈ میں فوج کے ماہر نفسیات میجر ندال ملک حسن نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ۱۲ فوجیوں اور ایک شہری کو ہلاک کر دیا۔ میجر ندال نے دو سال قبل اپنے فوجی ساتھیوں کو ایک پریزنٹیشن دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسلامی ممالک پر امریکی فوج کے حملوں کو اسلام پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکا سے مسلمانوں کی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میجر ندال نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلم ممالک میں عوام کو نشانہ بنانے کے باعث امریکی فوج میں شامل مسلمانوں کے لیے خدمات انجام دینا اخلاقی طور پر مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد کرسمس کے موقع پر نائیجریا کے عمر فاروق عبدالمطلب نے ڈیٹرائٹ جانے والی امریکی پرواز کو گھریلو ساختہ بم سے تباہ کرنے کی کوشش کی۔ عمر فاروق عبدالمطلب کا کہنا تھا کہ ہر جگہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں خرابیاں پیدا کر کے اسرائیل کی بے جا حمایت کر رہا ہے اور گوانتاناموبے کے قیدیوں کو اب تک رِہا نہیں کیا گیا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ امریکی اس بات کو محسوس کریں کہ خود کش حملوں نے مذہبی جنونیت کے بطن سے جنم نہیں لیا۔ خود کش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر شکلوں کے معرضِ وجود میں آنے کے لیے امریکی استعمار کو ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ مسلم ممالک پر قابض امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو نکالنے کے لیے تشدد کا راستہ چنا گیا ہے۔ دہشت گردی کے امور کے امریکی ماہر اور ’’ڈائنگ ٹو ون۔ دی لاجک آف سوسائڈ ٹیررازم‘‘ کے مصنف رابرٹ پیپس کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو اپنی زمینوں سے نکال باہر کرنے کے لیے جہادی کسی بھی حد تک جانے پر مجبور ہیں۔ امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملہ اور قبضہ کر کے شدید مخالفت کو دعوت دی ہے۔

القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے اپنے بیانات سے امریکا کو مشتعل کرنا چاہا اور وہ مشتعل ہو گیا۔ امریکا نے مسلم ممالک پر حملے کیے، قبضہ کیا، ان کا سیاسی، اقتصادی اور عسکری نظام تباہ کیا۔ مزاحمت کرنے والوں کو بے دریغ قتل کیا۔ اور ڈرون حملوں میں بے گناہ شہریوں کو بھی بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسامہ بن لادن نے امریکا کو مشتعل کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ وہ کہتا تھا کہ امریکا صلیبی جنگ لڑ رہا ہے۔ امریکیوں نے اپنی پالیسیوں سے اسے درست ثابت کر دیا۔ امریکی پالیسیوں ہی کی بدولت القاعدہ جہادیوں کی بھرتی میں اب تک کامیاب رہی ہے۔ امریکیوں کے ہاتھوں مسلم ممالک میں پیدا کی جانے والی خرابیوں کے باعث اس سے نفرت کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں کسی مرحلے پر کمی واقع نہیں ہوئی۔

امریکی استعمار نے جہاد ازم کو فروغ دیا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر جنگ نے امریکیوں کی اکثریت کو خراب معاشی حالات سے دوچار کیا ہے۔ ان کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ شدید خوف کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بنیادی مقصد دہشت گردوں کو امریکی سرزمین سے دور رکھنا تھا مگر ایسا کرنے میں امریکی حکومت مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ امریکیوں کو آج بھی اندرونِ ملک دہشت گردی کے اسباب بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ فورٹ ہُڈ کیس یا نیویارک سب وے ریلوے کو تباہ کرنے کی سازش غور و فکر کو دعوت دیتی ہے۔ فورٹ ہُڈ کیس کے بعد پالیسیوں پر غور کرنے کے بجائے فوج میں انتہا پسندوں کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔ ڈیٹرائٹ جانے والی پرواز کو تباہ کرنے کی کوشش پر امریکی حکومت کو غور کرنا چاہیے تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیاں اس نوعیت کے واقعات کو جنم دے رہی ہیں، اس واقعے کے بعد پالیسیوں پر نظرثانی کے بجائے ایئرپورٹس پر جامہ تلاشی کے احکامات سخت تر کر دیے گئے اور اب فل ہائوس اسکیننگ تک بات آ گئی ہے۔

امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اب تک ہزاروں ارب ڈالر لُٹائے ہیں۔ داخلی سلامتی کے نام پر بھی سیکڑوں ارب ڈالر ٹھکانے لگائے جا چکے ہیں۔ امریکی شہریوں کی مشکلات میں صرف اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا کو اب افغانستان اور عراق سے فوج واپس بلانی چاہیے، دنیا بھر میں فوجی اڈے بند کرنے چاہیئں۔ جہادیوں کی تیاری روکنے کی یہی ایک صورت ہے۔

(بشکریہ: ’’گارجین‘‘لندن۔ یکم مئی ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*