جن کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، ٹی وی اسٹوڈیو کی آرام دہ کرسی میں دھنسے ہوئے وہ ریٹائرڈ جنرل سیکورٹی کی صورتحال کا تجزیہ کرنے کے نام پر ملک کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جس میں پاکستان کے خلاف فرضی جنگ سے متعلق جنون کو پروان چڑھانا اب لت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ونگ کمانڈر ابھینندن وردھمان کو رہا کرکے امن کو ایک اور موقع دیا ہے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کسی نہ کسی سطح پر کوئی اور مہم جوئی کرنے کے موڈ میں ہیں۔ سوال انتخاب کا ہے۔
ایک طرف نریندر مودی کی ٹیم ہے، جو معاملات کو کہیں سے کہیں لے جانے کے لیے بے تاب ہے اور دوسری طرف ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے نام نہاد دفاعی تجزیہ کار ہیں، جو ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات کو حد سے بڑھا چڑھاکر بیان کرنے کی صورت میں جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ معاملہ کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ٹی وی اینکر بھی جنگی جنون کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر اُنہیں یہ اندازہ نہیں کہ فوج کیا کرسکتی ہے، کس حد تک جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارتی فوج جدید ترین اسلحے سے بہت حد تک محروم ہے۔ ’’بروکنگز انڈیا‘‘ نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ میڈیا پر موجود ’’اسٹریٹجک کمیونٹی‘‘ فوج کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کر بول رہی ہے۔ بہت کچھ ہے جو محض جذبات کی رو میں بہتے ہوئے کہا جارہا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے حوالے سے سخت انتباہ جاری کیا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کر اور خالص غیر حقیقت پسندانہ انداز سے بہت کچھ کہا جارہا ہے تو ایسی باتیں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا انتباہ کیا۔ بروکنگز انڈیا نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اِن لوگوں (ٹی وی اینکر اور دفاعی امور کے نام نہاد تجزیہ کاروں) کو کچھ اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس لیڈر کا ساتھ دے رہے ہیں۔ معروف برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے نریندر مودی کو ایک ایسا لیڈر قرار دیا ہے، جو قیامت سے کھیل رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف فضائی حملے کی صورت میں نریندر مودی نے جو مہم جوئی کی ہے وہ اس بات کو بھرپور انداز سے واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
بالاکوٹ پر فضائی حملے کے بعد بھارت بھر میں شادیانے بجائے گئے۔ میڈیا نے اِسے بہت بڑی فتح قرار دیا۔ تجزیہ کاروں نے تو بولنے کی حد ہی کردی۔ اُن کے خیال میں یہ ’’سرجیکل اسٹرائیکس‘‘ پاکستان کو سبق سکھانے اور اوقات میں رکھنے کے حوالے سے کافی ہیں۔ مگر اگلے ہی دن سب کچھ بدل گیا۔ پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی حدود میں فوجی تنصیبات سے کچھ دور بم گراکر یہ پیغام دیا کہ یہ بم تنصیبات پر بھی گرائے جاسکتے تھے۔ ساتھ ہی دو طیارے بھی گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرلیا۔ اس تبدیلی نے پورا منظر نامہ ہی تبدیل کردیا۔ بھارتی میڈیا اور اس پر نمودار ہوکر قومی سلامتی سے متعلق تجزیوں میں اپنے خواب بیان کرنے والوں کے لیے یہ بہت بڑا تازیانہ تھا مگر وہ بے پَر کی اڑانے سے پھر بھی باز نہ آئے۔
۱۹۶۱ء میں آئزن ہاور نے اِس خطرناک حقیقت پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا کہ مذموم مقاصد کے حامل لوگ بہت زیادہ طاقت حاصل کرچکے ہیں۔ اُنہوں نے اہم ریاستی امور پر اثر انداز ہونے والوں کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ یہ معاملہ واشنگٹن جیسے دارالحکومت کا تھا جہاں تمام معاملات بہت زیادہ کنٹرول میں رہا کرتے ہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ نئی دہلی جیسی ڈھیلی ڈھالی جگہ کیا معاملہ ہوگا۔ نئی دہلی کے پالیسی سازوں کے دل و دماغ اِس وقت اُن لوگوں کے کنٹرول میں ہیں، جو ملک کی بنیادی زمینی حقیقتوں کا واقعی ادراک کیے بغیر بے سوچے سمجھے بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔
بھارت میں چند برسوں کے دوران یہ تصور، بظاہر کسی جواز کے بغیر، پیدا ہی نہیں کیا گیا بلکہ پروان بھی چڑھایا گیا ہے کہ امریکا کی مدد سے بھارت خطے میں بھرپور بالا دستی پاکر سپر پاور کا درجہ اختیار کرلے گا اور یہ سب کچھ اس لیے ضروری ہے کہ امریکی قیادت اب کسی بھی قیمت پر چین کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ اصل مسئلہ چین کو ہرانے کا نہیں بلکہ محض contain کرنے کا ہے، جہاں جہاں ہے وہ وہیں رہے، آگے نہ بڑھے۔
آج کی دنیا میں میڈیا والے وہی کچھ کہتے ہیں، جس کے لیے انہیں فنڈنگ کی جاتی ہے۔ اگر اسلحہ ساز ادارے موزوں طریقے سے فنڈنگ کریں تو ایسا ماحول پیدا کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل ہوتی ہے، جس میں ہر طرف صرف جنگ اور تباہی کی بات کی جارہی ہو۔
بھارت کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ حکومتی صفوں سے باہر دفاعی امور سے متعلق ’’خفیہ اسٹیبلشمنٹ‘‘ تیزی سے تقویت پاتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہوسکتا ہے اس کا کسی کو درست اندازہ نہیں۔ جمہوریت اور امن دونوں ہی کو داؤ پر لگادیا گیا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ کئی ممالک میں ایسے تھنک ٹینک کام کر رہے ہیں، جو دراصل مغرب کے بڑے اسلحہ ساز اداروں کے پروردہ ہیں۔ ان تھنک ٹینکس کو بڑے پیمانے پر فنڈ ملتے ہیں۔ اس فنڈنگ کی بنیاد پر وہ پورے کے پورے معاشرے کو جنگ پسندی کی طرف دھکیلتے ہیں۔ بھارت جیسے معاشروں میں یہ معاملہ اور بھی خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے جہاں تحقیق کے نام پر محنت کرنے والے اب ایجنڈوں پر کام کر رہے ہیں۔ کل تک جو ریسرچ اسکالر تھے وہ اب بہت حد تک لابسٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے یہ معاملہ واشنگٹن کے حوالے سے بیان کیا تھا جہاں بیشتر معاملات اچھے خاصے کنٹرول میں ہوا کرتے ہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ نئی دہلی میں کسی بھی بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کرنا کس حد تک آسان ہوگا۔
بھارت جیسے معاشروں میں حکومت، کارپوریشنز اور دانشوروں پر مشتمل ایک ایسا اتحاد قائم ہوچکا ہے، جو قومی مفادات کو بھی داؤ پر لگا رہا ہے۔ اس حوالے سے آئزن ہاور کا بیان کردہ خدشہ بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں یہ سب کچھ مزید پریشان کن ہے۔ ایک ایسا ماحول پروان چڑھایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں پورا ملک شدید خوف اور مایوسی کے پنجے میں ہے اور نفرت خوب پروان چڑھ رہی ہے۔
۱۹۸۴ء میں امریکا کے بہترین سفارتکار جارج ایف کینن نے کہا تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے مفروضے کو اس قوم کے اعصاب اور حواس پر ایسا سوار کردیا گیا ہے کہ اب یہ لت کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ پورے معاشرے میں یہ لت ایسی پروان چڑھی کہ بعد میں اس سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھی امریکی معاشرہ جنگی جنون کے نشانے ہی پر رہا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا اور دفاعی امور کے نام نہاد تجزیہ کار مذموم مقاصد کے حامل سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ملک کو کس نوعیت کی دلدل میں دھکیل سکتے ہیں۔
بھارت میں بھی تو یہی ہو رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف جنگ کے مفروضے کو ایک ایسی لت کی شکل دے دی گئی ہے، جس میں پوری قوم مبتلا ہے۔ جموں و کشمیر خالص اندرونی معاملہ ہے مگر میڈیا کی مدد سے پاکستان کو بیچ میں لاکر اِسے بیرونی مسئلے کی شکل دے دی گئی ہے۔ نئی دہلی کے پالیسی ساز کشمیریوں کے حقیقی مسائل دانش مندی سے حل کرنے کے بجائے طاقت کے ذریعے اُنہیں کچلنے کی راہ پر گامزن ہیں۔
اجے شکل مین اسٹریم میڈیا کے اُن چند مصنفین میں سے ہیں، جنہوں نے پہلے پہل اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک میں بڑے پیمانے پر مسلم مخالف ایجنڈا بروئے کار لاتے ہوئے اُنہیں غیر محب وطن قرار دینے پر کمر کس لی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جو انتہائی مکار ہے اور کشمیریوں کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جب کشمیری اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے، غدار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے انہیں مزید الجھایا جاتا ہے۔ سیاسی مسئلے کو عسکری طریقے سے حل کرنے کے حوالے سے کی جانے والی سیاست میں میڈیا بھی برابر کا مجرم ہے۔ بھارت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ ماہ پاکستان سے منہ کی کھائی ہے۔ ایسے میں آئزن ہاور کے اس مشورے پر عمل کیا جائے کہ ’’اختلافات کو اسلحے سے نہیں بلکہ ذہانت اور شائستگی سے دور کیا جانا چاہیے‘‘۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت کو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اسی صورت دونوں ممالک میں سول سوسائٹی کی بقا کی راہ ہموار ہوگی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Armchair Generals Are Marching India Into Trouble”. (“bloomberg.com”. March 7, 2019)
Leave a Reply