عاصمہ جہانگیر کا ’نیوز ویک‘ کو انٹرویو

ان دنوں پرویز مشرف پر بہت سخت وقت آیا ہواہے۔ ان پر روز بروز بڑھتی ہوئی تنقید، اس حوالے سے کہ وہ ملک کے قبائلی علاقوں میں اسلامی جنگجوئوں پر قابوں پانے میں ناکام رہے ہیں، کے ساتھ ساتھ اب صدر کو خود ان کے اپنے عدالتی نظام کے اندر بغاوت کا سامنا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے سیکڑوں وکلاء نے احتجاج کا علم بلند کیا ہوا ہے اور ہڑتال پر چلے گئے ہیں اس بات پر کہ صدر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ان کے اختیارات کے مبینہ ناجائز استعمال کیے جانے کی بنا پر معطل کر دیا ہے۔ الزامات اقربا پروری، تعیشات کا حد سے زیادہ شوق اور ہوائی جہاز کے استعمال پر مشتمل ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے علاوہ ججوں نے نیز ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استعفیٰ دے دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عدلیہ کے مستقبل اور صدر کی اقتدار پر گرفت کے حوالے سے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ نیوز ویک کے نمائندہ Ron Moreau نے عاصمہ جہانگیر سے گفتگو کی ہے جو پاکستان سپریم کورٹ کے اہم وکلاء میں شمار ہوتی ہیں اور یہ پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ گفتگو کا متن درج ذیل ہے۔


مورو: چودھری کو معطل کرنے میں مشرف کا کیا محرک تھا۔

عاصمہ جہانگیر: غیرمحفوظ ڈکٹیٹر کو ہر جگہ بھوت نظر آتے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ مشرف جب ۱۹۹۹ء میں ایک پُرامن فوجی بغاوت کے ذریعہ برسرِ اقتدار آئے تھے تو اس وقت انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں کو مجبور کیا تھا کہ وہ ان سے وفاداری کا حلف اٹھائیں۔ وہ غیرمحفوظ ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ایک تابعٔ فرمان عدلیہ چاہتے ہیں بلکہ وہ ایک ایسی عدلیہ کے خواہاں ہیں جو ان کی مکمل طور سے غلام ہو۔ لیکن ۲۰۰۷ء میں اس کی دستیابی بہت ہی مشکل ہے آزاد میڈیا اور آزاد بار کے پیش نظر۔

مورو: مشرف کا کہنا ہے کہ وہ تو ایک قانونی عمل کا اتباع کر رہے ہیں چودھری کی معطلی ایک معیاری ردعمل ہے ان الزامات کا جو چیف جسٹس کے خلاف سامنے آئے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر: صدر نے ایک بار پھر جھوٹ بولنے اور ہر ایک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ان کا اقدام شاذ و نادر اور سادہ نہیں ہے جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔

واضح طور سے پہلے سے طے شدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چودھری کو گھر میں نظر بند رکھنا حکمت عملی کی غلطی تھی۔ اگرچہ دو روز تک حکمت عملی کی یہ غلطی باقی رہی۔

مورو: چودھری نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ سیکڑوں نام نہاد اسلامی انتہا پسندوں کے معاملات کی تحقیقات شروع کرے جنہیں گرفتار کیا گیا ہے یا جو لاپتا ہیں۔ کیا مشرف کے فیصلے کے پیچھے یہ عامل ہے؟

عاصمہ جہانگیر: مشرف صاحب ایک ماہر دروغ گو ہیں۔ لیکن اب وہ اپنا مقام کھو رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ’’میں لاپتا افراد کے حوالے سے بھی بہت تشویش میں مبتلا ہوں لیکن میں کیا کر سکتا ہوں؟ وہ لوگ جہادی ہیں‘‘ وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جو لاپتا افراد ہیں وہ اسلامی انتہا پسند ہیں جو کہ حقیقت نہیں ہے۔

میں کہو ںگی کہ ۱۴۱ لاپتا افراد کی فہرست جو ہم نے سپریم کورٹ کو فراہم کی ہے ان میں ۶۰ سے ۷۰ فی صد افراد سندھی ور بلوچی قوم پرست ہیں جو کہ سیکولر ہیں۔ ان میں سے بعض قوم پرست تو وہ ہیں جو ملک میں بہت مشہور و معروف ہیں۔ ان میں شعرا اور مصنفین ہیں اور ان کی تخلیقات سیکولر ہیں۔ ان کا جہادیا القاعدہ یا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مشرف یا تو بے خبری میں رہ رہے ہیں یا انہیں گمراہ کیا گیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ محض جھوٹ بول رہے ہیں۔

مورو: لیکن چودھری نے حکومت کو یہ فرمان جاری کیا کہ وہ لاپتا افراد کو سامنے لائے۔ کیا انہوں نے نہیں کیا؟

عاصمہ جہانگیر: جہاں تک لاپتا افراد کا تعلق ہے چودھری نے ایک بھی فیصلہ اس مسئلے پر نہیں دیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی درخواست کو ڈیڑھ ماہ تک معرض التوا میں ڈالے رہے۔ لیکن چونکہ ہم لوگوں کا شمار مشہور و معروف وکلاء میں ہوتا ہے چنانچہ کسی بھی حج کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ہمیں چکر دے۔ اسے اس کی سماعت کرنی ہو گی۔ لیکن وہ بہت دھیمی رفتار سے چلے، انہوں نے (اِقدام کرنے کے لیے) حکومت کو ایک نوٹس دیا لیکن انہوں نے حقیقتاً کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا جب انہوں نے کہا ہو کہ ان لوگوں کو جنہوں نے لاپتا افراد کو اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے، انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ جو کچھ وہ کر رہے تھے، وہ بس یہ تھا کہ حکومت سے کہہ رہے تھے کہ ’’وہ کچھ افراد کا پتا لگائے‘‘۔ کیسے کوئی عدالت اُن لوگوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر سکتی ہے جو لاپتا ہو گئے ہوں؟

مورو: کیا مشرف اس وجہ سے تو پریشان نہیں تھے کہ چودھری اس کے بیک وقت دو کردار یعنی صدر اور آرمی چیف کے کردار کے خلاف امسال کے آخر میں کوئی فیصلہ نہ دے دیں؟

عاصمہ جہانگیر: آیا صدر باوردی یا بے وردی برقرار رہ سکتے ہیں یا نہیں، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی جج بشمول چودھری اس طرح کے فیصلے کی جرأت رکھتا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ ان ججوں کے پاس اتنی معقولیت اور جرأت ہے۔

مورو: پولیس درشتی سے پیش آئی جب چودھری گزشتہ ہفتہ اپنی سماعت کو گئے۔

عاصمہ جہانگیر: آپ نے ٹیلی ویژن پر دیکھا کہ چیف جسٹس کو ان کے بال پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے۔ یہ منظر تمام ہی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر دکھایا گیا۔ یہ حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی ہے۔ لوگوں کو جس بات پر سب سے زیادہ حیرانی ہوئی، وہ یہ کہ جب چیف جسٹس کے ساتھ اتنا گھنائونا برتائو کیا جاسکتا ہے اور اس قدر بے شرمانہ انداز میں ان کی توہین کی جاسکتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہم تمام لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگلی باری ہماری ہے۔

مورو: کیا ہو گا اگر سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس کو تمام الزامات سے بری کر دیتی ہے اور انہیں پھر سے بحال کر دیتی ہے؟

عاصمہ جہانگیر: اگر سپریم جوڈیشل کونسل چودھری کو بحال کر دیتی ہے تو میں نہیں سمجھتی ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو آزادانہ طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ وکلاء ان کے کاز کی حمایت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی چیف جسٹس جو وکلاء کے کاندھوں پر سوار ہو کر واپس آیا ہو۔ بینچ میں بیٹھنے کے لائق ہو سکے گا اور کیا وہ اس حقیقت پر غور نہیں کرے گا کہ اس کی بحالی وکلاء کی مرہونِ منت ہے؟

مورو: آپ اس کا خاتمہ کس طرح دیکھتی ہیں؟

عاصمہ جہانگیر: شاید ان کا (حکومت کا) خیال ہے جس قدر وہ قانونی عمل کو طول دیتے ہیں، اُسی قدر تحریک کے ماند پڑجانے کا امکان ہے۔ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ صورتِ حال ٹھنڈی پڑ جائے گی کیونکہ وکلاء مہینوں ہڑتال پر نہیں رہ سکتے اور نہ اپنے احتجاجی مظاہروں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن حکومت پھر کوئی دوسری غلطی کرے گی۔ یہ حکومت اصلاح سے ماورا ہے۔

(بشکریہ: ہفت روزہ’’نیوز ویک‘‘۔ شمارہ: ۲ اپریل ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*