اسرائیلی سرحدوںمیں تبدیلی کی خواہش

اسرائیل کے وزیر خارجہ اَیوِگ دَور لِی بَرمَین اس وقت ملک کے مقبول ترین سیاست دان ہیں۔ انہوں نے ملک کی سرحدوں میں تبدیلی کی خواہش ظاہر کی ہے کہ تاکہ ملک کی عرب آبادی میں سے نصف سے گلوخلاصی ممکن ہو۔ زیر نظر انٹرویو سے اندازہ ہوگا کہ لی بَرمَین کیا سوچ رہے ہیں۔


ڈین ایفرون: آپ ’’زمین کے بدلے امن‘‘ کے فلسفے پر زیادہ یقین نہیں رکھتے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: ہم نے ۱۹۹۳ء میں اوسلو مذاکرات کے ذریعے امن عمل شروع کیا تھا۔ اور اب تک تعطل برقرار ہے ہم اس کی زَد میں ہیں۔ زمین کے بدلے امن کا نظریہ درست نہیں۔ بہتر ہے کہ علاقوں اور آبادیوں کا تبادلہ کیا جائے۔

ڈین ایفرون: کیا آپ کے تصورات کو وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حمایت بھی حاصل ہے؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: پورے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اسرائیل میں دائیں بازو کی تمام جماعتیں ایسا ہی سوچ رہی ہیں۔

ڈین ایفرون: آپ اسرائیلی سرحدوں کا از سر نو تعین کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے عرب باشندے آبادی کا حصہ نہیں رہیں گے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: نصف کی حد تک۔

ڈین ایفرون: رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل کے ۹۰ فیصد عرب باشندے ایسا کوئی انتظام نہیں چاہتے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: اسرائیل میں عرب باشندوں کا تناسب ۲۰ فیصد ہے۔ ان میں ۹۰ فیصد اگر اسرائیل سے الگ ہونا نہیں بھی چاہتے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اسرائیل کے ۸۰ فیصد یہودیوں کی اکثریت تو اس کے لیے تیار ہے۔

ڈین ایفرون: اگر اسرائیلی عرب قصبے ام الفہم کا کوئی باشندہ اسرائیل کو چھوڑ کر فلسطین کا حصہ نہیں بننا چاہتا تو کیا اسے ملک کی اکثریت کے فیصلے کے سامنے جھکنا پڑے گا؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: وہ اگر چاہے تو اسرائیل میں اپنی پراپرٹی رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کا شہری بھی بن سکتا ہے۔ اور جب چاہے اسرائیل واپس بھی آسکتا ہے۔

ڈین ایفرون: بیشتر عرب باشندے اب تک اسرائیل کے وفادار شہری ثابت ہوئے ہیں۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: روزانہ ہمیں خبریں ملتی ہیں کہ اسرائیلی عرب باشندے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی عرب سیاست دان، میونسپل سربراہ اور دانشور کھل کر کہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو یہودی یا صہیونی ریاست کی حیثیت سے کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

ڈین ایفرون: لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اسرائیل کے عرب باشندوں کو ملک سے نکالا گیا یا ان سے خصوصی طور پر وفاداری کا حلف لیا گیا تو ان میں ملک کے خلاف جذبات بھڑک اٹھیں گے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: ہم در اصل یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ جمہوری کلچر کا بھرپور لطف اٹھا رہے ہیں اور فوائد بٹور رہے ہیں تو حق بھی ادا کریں اور معاشرے میں اچھی طرح ضم ہوں، اس کا حصہ بنیں۔ لوگ ہماری روایات اور اقدار کو قبول کرنے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ یہ ۱۹۳۰ء کے عشرے والی صورت حال ہے۔ سب جانتے تھے کہ ہٹلر کیا ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے مگر سب خاموش تھے اور جو کچھ وہ کرنا چاہتا تھا، اسے کرنے دیا گیا۔

ڈین ایفرون: آپ کس کا موازنہ ہٹلر سے کر رہے ہیں؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: میرا اشارہ (ایران کے صدر) محمود احمدی نژاد کی طرف ہے۔ ایران ہی حقیقی خطرہ ہے۔

ڈین ایفرون: مگر کوئی بھی ایران کی ناز برداری نہیں کر رہا۔ اس کے خلاف پابندیاں بھی نافذ کی جاتی رہی ہیں۔ کوئی بھی اس کے خلاف کچھ کہنے سے گریز نہیں کر رہا۔ ملٹری ایکشن کی بات بھی ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ ایران ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: کیا کیا جائے، صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ یورپ نے ہٹلر کے خطرے کو محسوس بھی کیا مگر خاموش رہا اور چیکو سلو واکیہ کو قربان کردیا۔ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول یا تیاری سے روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔

ڈین ایفرون: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایران کسی نہ کسی طرح ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے والا ہے اور ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: بالکل، اس میں کوئی شک نہیں۔

ڈین ایفرون: آپ اس کمیٹی کے سربراہ بھی بنائے گئے جس کا کام یہ دیکھنا تھا کہ ایران اگر ایٹمی ہتھیار حاصل کرلے تو کیا ہوگا۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: جی ہاں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایران اگر ایٹمی ہتھیار حاصل کرے گا تو اس کا اگلا قدم خلیجی ریاستوں پر قبضہ کرنے سے کم کچھ بھی نہ ہوگا۔

ڈین ایفرون: اور اس کے بعد؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: ظاہر ہے سعودی عرب کا نمبر آئے گا۔ سعودی خاندان کو اقتدار سے محروم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

ڈین ایفرون: اس منظر نامے میں اسرائیل کہاں ہے؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: ہٹلر نے بھی یہی کیا تھا۔ پہلے چیکو سلو واکیہ، اس کے بعد پولینڈ۔ اور پھر یہودیوں نے بھاری قیمت ادا کی۔

ڈین ایفرون: مگر ایران کو تو عقل پسند ریاست قرار دیا جاتا ہے۔ ایرانی قیادت کام کرنا چاہتی ہے۔ وہ بقا کے لیے سرگرم ہیں۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: پانچ سال کے عرصے میں جن جن لوگوں نے محمود احمدی نژاد سے ملاقات کی ہے، ان سے میں ملا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ احمدی نژاد کی شخصیت طلسماتی ہے تاہم وہ جنونی ہیں۔ وہ اسلامی انقلاب کو برآمد ہی نہیں کرنا چاہتے بلکہ تمام عیسائیوں، یہودیوں اور حد تو یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو شیعہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ احمدی نژاد اور (ایران کے سپریم لیڈر) آیت اللہ علی خامنہ ای کے لیے یہ کوئی مذاق نہیں، کوئی کھیل نہیں۔

ڈین ایفرون: آپ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں سے کسی امن معاہدے میں کئی عشرے لگیں گے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔

ڈین ایفرون: فریق ثانی یہ کہتا ہے کہ فیصلوں پر زیادہ سختی سے عمل کے لیے ٹائم آؤٹ لیا جارہا ہے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: ایسا نہیں ہے۔ فلسطینی بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن نہیں۔ جھگڑا مسلم اور یہودی یا فلسطینی اور اسرائیلی کا نہیں بلکہ اعتدال پسند اور انتہا پسند کا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم سلام فیاض اور صدر ابو میزان کے لیے اصل خطرہ ہم نہیں، حماس ہے۔

ڈین ایفرون: لوگ آپ کو اسرائیلی تناظر میں انقلابی یا انقلاب پسند ہی سمجھتے ہیں۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: میں مرکزی دھارا ہوں یا مرکزی دھارے میں ہوں۔ آج ہم اسرائیل میں تیسری سب سے بڑی پارٹی ہیں۔

ڈین ایفرون: اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطینیوں سے ایک سال کے اندر امن معاہدہ ہوسکتا ہے۔

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: سبھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ بات کس قدر غیر حقیقت پسندانہ ہے۔

ڈین ایفرون: کہا جارہا ہے کہ فلسطینی اب سلامتی کونسل میں جاکر آزادی کا مطالبہ کرنے والے ہیں۔ ایسی صورت میں امریکا کیا کرے گا؟ کیا وہ فلسطین کی آزادی کی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرے گا؟

اَیوِگ دَور لی بَرمَین: اگر فلسطینیوں نے سلامتی کونسل میں جاکر آزادی کا مطالبہ کیا تواس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ انہوں نے اب تک جو بھی بات چیت کی ہے اس سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ ایسی صورت میں معاملات صرف خرابی کی طرف جائیں گے، کوئی بہتر صورت حال یقینا سامنے نہیں آئے گی۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک پاکستان‘‘۔ ۳ جنوری ۲۰۱۱ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*