گزشتہ ڈھائی ماہ سے عرب دنیا میں ہو رہی سیاسی ہلچل، شورش اور انقلابی لہر سے شدید متاثر ممالک میں بحرین ایک اہم ترین ملک ہے۔ تیونس اور مصر کے برخلاف بحرین میں جاری بحران کے عوامل خالص سیاسی ہیں۔ چونکہ بحرین جسے دو سمندروں کی سلطنت بھی کہا جاتا ہے ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی جملہ آبادی بمشکل ۱۲ لاکھ ۳۴ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں سے بھی آدھی آبادی غیر ملکی ورکروں اور ان کے خاندانوں کی ہے۔ یہ ملک خلیج فارس کے مغربی ساحل پر واقع ہے جس پر الخلیفہ خاندان کی حکمرانی ہے۔ مملکت بحرین جملہ ۳۳ جزائر پر مشتمل ہے سب سے بڑا جزیرہ خود بحرین صرف ۵۵ کلومیٹر طویل اور ۱۸ کلومیٹر چوڑا ہے۔ اس کے مغرب میں سعودی عرب ہے اور یہ ۲۵ کلومیٹر طویل شاہ فہد پل (Cause Way) کے ذریعہ بحرین سے جڑا ہوا ہے۔ جبکہ بحرین کے جنوب میں قطر ہے۔ ۱۹۳۲ء میں تیل کی دریافت کے بعد سے بحرین تیل اور موتیوں کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ اس کی فی کس آمدنی ۴۰۰،۴۰ امریکی ڈالر ہے۔ اس کی یومیہ تیل کی پیداوار ۵۶۰،۴۸ بلین بیرل ہے۔ اس کے ترقی یافتہ مواصلاتی نظام کی وجہ سے یہاں کئی ایک غیر ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر ہیں۔ بحرین، امریکا کے پانچویں بحری بیڑہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ تین دہائی قبل قائم خلیجی تعاون کونسل (GCC) کا بحرین ایک اہم ملک ہے۔ عرب سرزمین سے الگ خلیج فارس میں اس کے محل وقوع کی وجہ سے یہ ایک عرصہ تک غیر آباد ہی رہا ہے۔ ۱۶۹۹ء میں یہاں پہلے پہل بنی عتبیٰ قبیلہ آباد ہوا اور ۱۷۸۳ء سے اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے الخلیفہ خاندان کی حکمرانی ہے۔ ۱۸۶۱ء سے ۱۹۷۱ء تک یہ برطانیہ کی ولایت (Protectorate) میں رہا۔ اور اگست ۱۹۷۱ء میں یہ برطانیہ سے آزاد ہوا۔
بحرین میں اس سے قبل بھی ۱۹۹۴ء میں بنیادی حقوق اورآزادیوں کے لیے عوامی شورش شروع ہوئی تھی جو تقریباً چھ سال تک وقفہ وقفہ سے سر اٹھاتی رہی۔ جس کے نتیجے میں شاہ حمد بن عیسیٰ نے فروری ۲۰۰۱ء میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعہ قومی ایکشن چارٹر کو منظور کروا لیا جو کہ بحرین کا نافذ العمل دستور اور نظامِ حکومت اور شہریوں کے حقوق و آزادیوں کا اعلان نامہ ہے۔ موجودہ عوامی شورش کا آغاز بھی ۱۴؍فروری سے ہوا جو کہ قومی ایکشن چارٹر کی دسویں سالگرہ کا دن تھا۔ صدر مقام مناما شہر میں احتجاجیوں نے مزید حقوق اور آزادیوں کے علاوہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کرتے ہوئے جلوس نکالے اور احتجاج کیے۔ چونکہ بحرین کی مقامی آبادی میں ۶۰ فیصد آبادی شیعہ ہے اس لیے اسے فوراً ہی مخالف سنی احتجاج اور فرقہ وارانہ رنگ دے کر میڈیا اور بحرین سے باہر کام کر رہی طاقتوں نے حکومت مخالف تحریک میں بدل دیا۔ ۱۸؍ فروری کو موتی چوک مناما میں احتجاجیوں پر کی گئی پولیس فائرنگ میں پانچ شہری ہلاک ہوگئے جس کے نتیجے میں عوامی احتجاج دن بہ دن پرتشدد شکل اختیار کرتا گیا۔ بحرین میں ابتر ہوتے حالات کو دیکھ کر سعودی عرب نے بحرین کو ۳۰ ٹینکس روانہ کیے تھے۔ حالات کے بتدریج معمول پر نہ آنے کے نتیجے میں سعودی عرب نے ۱۴؍ مارچ کو اپنی ایک ہزار افواج کو اسلحہ کے ساتھ بحرین بھیج دیا۔ اس طرح متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی ۵۰۰ افواج کے دستہ کو بحرین روانہ کر دیا۔ بحرین چونکہ چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کا رکن ہے اور اس کونسل کے چارٹر اور ان چھ ممالک کے تحفظ کے لیے بنائی گئی Peninsula Shield فورس معاہدہ کے تحت ایک اجتماعی سلامتی کا نظام قائم ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بحرین میں سلامتی کے حالات پیدا کرنے میں مدد دینے کے لیے اپنی افواج کو بھیجنا پڑا ہے۔ ۱۶؍ مارچ کی صبح ہوتے ہی فساد سے نمٹنے والی پولیس فورس احتجاجیوں پر فوجی طرز پر ٹوٹ پڑی اور موتی چوک میں چار ہفتوں سے قیام پذیر احتجاجیوں کو منتشر کر دیا اس پولیس کارروائی کے لیے ٹینک اور گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے۔ اس کارروائی کے نتیجہ میں چھ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے، جس میں کارروائی میں شامل تین پولیس والے بھی شامل ہیں۔ پولیس کے لیے ایسی کارروائی اس لیے بھی ضروری ہو گئی تھی چونکہ ۱۵؍ مارچ کو ہی شاہ حمد بن عیسیٰ نے تین ماہ کے لیے ایمرجنسی کو لاگو کرتے ہوئے پورے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ جس سے ریلیوں، مارچ اور احتجاج، یا بیٹھے رہو غیر قانونی ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس پولیس کارروائی کا ایک خراب پہلو یہ سامنے آیا کہ پولیس نے ۲۵۰ سے زیادہ زخمیوں کو دواخانہ منتقل کرنے میں مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ دواخانہ منتقل کیے جانے والے زخمیوں کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں او علاج کے لیے شریک ہو رہے قریبی دواخانہ سلمانیہ (Salmaniya) پر پولیس نے قبضہ کر لیا اور میڈیکل اسٹاف کو گرفتار کر لیا۔ اس واقعہ پر بحرین کے وزیر صحت ناظرین صادق البحرنہ نے چہارشنبہ کے دن ہی استعفیٰ دے دیا۔ اس واقعہ کے عالمی ردعمل کے طور پر ایران نے اپنے سفیر کو بحرین سے نہ صرف واپس طلب کر لیا بلکہ اس کی شکایت اقوام متحدہ سے بھی کردی۔ دوسری طرف سعودی افواج کی بحرین میں مداخلت کے خلاف عراق کے شہر کربلا میں عوامی مظاہرے ہوئے اورحکومت عراق نے بھی سعودی افواج کی بحرین میں موجودگی اور تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔ عراق کے مذہبی رہنما آیت اللہ علی سستانی نے بھی بحرین کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’’غیر مسلح شہریوں کے خلاف تشدد سے گریز کرے‘‘۔ ۱۶؍ مارچ کی کارروائی کے بعد سے پورے ملک بحرین میں کرفیو نافذ ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق کرفیو و امتناع کے باوجود چند ایک مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
۱۷؍ مارچ کی علی الصبح حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے چھ اپوزیشن قائدین کو گرفتار کر لیا، جن میں سے ایک سنی ابراہیم شریفی بھی ہیں جو الوعد سیاسی سماج کے سربراہ ہیں۔ یہ سیکولر اور اشتراکی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن بحرین میں جاری احتجاج کے روح رواں حسن مشیما ہیں جو شیعہ حق تحریک چلاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں سے یہ پرامن طریقوں سے اقتدار کی تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا مقصد سنی شاہی حکمرانی کو اکھاڑ پھینکنا ہے جو بحرین میں ۲۳۰ سال سے حکومت کر رہی ہے اور اس کی جگہ پر شیعہ اکثریت کی جمہوری حکمرانی کو قائم کرنا ہے۔ حسن مشیما ۲۶ فروری کو ہی برطانیہ سے لوٹ آئے ہیں جو وہاں پر خود ساختہ جلاوطنی زندگی گزار رہے تھے۔ حکومت نے ان کے خلاف لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات کو واپس لیتے ہوئے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے انہیں وطن لوٹ آنے کی دعوت دی تھی۔ حکومت نے ۲۲؍ فروری کو تقریباً ۲۵ سرگرم احتجاجی شیعہ قائدین کو بھی رہا کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کے لیے آگے آنے کی دعوت دی تھی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲۶ مارچ ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply