بنگلا دیش ’نفرت کی سیاست‘ کے نرغے میں

بنگلا دیش میں دو سال قبل فوج نے نظام کو لپیٹنے کی ایک سازش ناکام بناتے ہوئے جیل سے دو اہم لیڈروں کو رہا کیا تب سے اب تک نفرت پر مبنی سیاست ہے کہ اپنا رنگ جمائے ہوئے ہے۔ ان میں ایک تو موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ہیں اور دوسری لیڈر خالدہ ضیاء ہیں۔ ان دونوں کے درمیان شدید رقابت نے ملک کے سیاسی نظام کو داؤ پر لگا دیا ہے۔

۱۳؍ نومبر کو خالدہ ضیاء کو ڈھاکا کنٹونمنٹ ایریا میں واقع ان کے مکان سے نکال دیا گیا۔ اس مکان میں وہ تیس سال سے سکونت اختیار کیے ہوئے تھیں۔ اس کارروائی پر بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے ہڑتال کی۔ اس موقع پر تشدد پھوٹ پڑا۔ بی این پی اور عوامی لیگ کے کارکنوں کے درمیان تصادم بھی ہوا۔ ملک کی تیسری سیاسی قوت ، فوج، نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا۔

عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ سال کی ناکام بغاوت میں مارے جانے والے ۵۷ فوجیوں کے اہل خانہ کو رہائشی سہولت دینے کے لیے خالدہ ضیاء کے مکان سے متصل پلاٹ مختص کیا ہے۔

خالدہ ضیاء کو ان کے مکان سے نکالنے کا بنیادی مقصد بی این پی کی کمر توڑنا تھا۔ شیخ حسینہ واجد کے لیے خالدہ ضیاء کے شوہر جنرل ضیاالرحمن مرحوم کی قائم کردہ بنگلا نیشنلسٹ پارٹی یکسر ناقابل قبول ہے۔ ضیاء الرحمٰن ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلا دیش بنانے کی تحریک کے ہیروز میں شمار ہوتے ہیں۔

فروری میں حکومت نے ڈھاکا کے ضیاء انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا نام تبدیل کرکے اسے ایک صوفی بزرگ سے موسوم کیا۔ جولائی میں سپریم کورٹ نے تمام فوجی حکومتوں کو کالعدم قرار دیا۔ اس فیصلے کو اب ۱۹۷۲ء کے آئین کا حصہ بنانے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ سابق حکومتوں کی کرپشن اور بے قاعدگی کا احتساب کیا جاسکے۔ جنرل ضیاء الرحمٰن ۱۹۷۵ء میں بنگلا دیش کے بانی سربراہ اور شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد بننے والی فوجی حکومت کے سربراہ تھے۔ اکتوبر میں خالدہ ضیاء کے چھوٹے بیٹے پر منی لانڈرنگ کیس بنایا گیا۔ خالدہ ضیاء پر ۴ اور شیخ حسینہ واجد پر ۱۳ مقدمات ختم کیے گئے ہیں۔

بی این پی کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔ ۳۰۰ رکنی پارلیمنٹ میں اس کی صرف ۳۰ نشستیں ہیں۔ اس کی ہم خیال جماعتیں بھی پریشانی سے دوچار ہیں۔ بی این پی کی سب سے بڑی اتحادی جماعت اسلامی ہے جس کے تمام رہنما ملک کے قیام کی جنگ کے دوران مظالم ڈھانے کے الزام میں جیل میں ہیں اور انہیں ممکنہ طور پر سزائے موت بھی سنائی جاسکتی ہے۔ سابق وزیر اعظم اور خالدہ ضیاء کے وکیل مودود احمد کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف مقدمے سے بی این پی کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بی این پی کو انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت درکار ہے۔

خالدہ ضیاء کو یقین ہے کہ لوگ مہنگائی، توانائی کے بحران اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے بیزار ہوکر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ خالدہ ضیا کا دور حکومت ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۶ء تک رہا جس میں مہنگائی زیادہ نہیں تھی۔ خالدہ ضیاء کو یقین ہے کہ ان کا سب سے بڑا بیٹا طارق رحمن عوام کی نظر میں بلند ہونے میں کامیاب ہو جائے گا۔ طارق رحمٰن برطانیہ میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کی ساکھ اچھی نہیں۔ بی این پی کی صفوں میں بھی اسے زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔

شیخ حسینہ واجد جو سیاسی انتقام لینا چاہتی ہیں اس میں انہیں بھارت کی بھی حمایت حاصل ہے۔ بھارتی حکومت خالدہ ضیاء کی حکومت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی رہی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ خالدہ ضیاء کے دور میں بنگلا دیش بھارتی امور میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے بر سر اقتدار آنے کو بھارت اپنی سیکورٹی کی ضمانت سمجھتا ہے۔ اسی ماہ طارق رحمٰن کے دست راست نے تفتیش کاروں کو بیان دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ڈھاکا میں پاکستانی سفارت خانے اور شمال مشرقی بھارت کے علیٰحدگی پسند گروپ یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے بھارت میں علیحدگی پسندوں کو دس ٹرک بھر کر ہتھیار فراہم کرنے کے لیے ایک کروڑ ڈالر دیئے۔

مغربی حکومتیں بھی نہیں چاہتیں کہ بی این پی بنگلا دیش میں برسر اقتدار آئے۔ مغرب نے ۲۰۰۷ء میں بنگلا دیش آرمی کی جانب سے بغاوت کی در پردہ حمایت کی۔ اس بغاوت کا بنیادی مقصد بی این پی کو اقتدار میں آنے سے روکنا تھا۔ فوج نے بی این پی کے حامی اسلامی گروپوں کے خلاف بھی کارروائی کی۔ عوامی لیگ نے اس کارروائی کو جاری رکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔

حکومت کی ریٹنگ اگرچہ گر رہی ہے مگر شیخ حسینہ کے گھرانے کی پوزیشن مستحکم ہے۔ بنگلا دیش کو بہتر حکمرانی کی ضرورت ہے۔ ایسے میں چالیس سال پرانی انفرادی نوعیت کی دشمنی میں الجھے رہنا کس حد تک درست ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

(بشکریہ: ہفت روزہ ’’دی اکنامسٹ‘‘ لندن۔ ۲۰؍ نومبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*