بنگلا دیش میں جماعتِ اسلامی کا مستقبل

بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات کے فیصلے جاری ہیں۔ مزید رہنماؤں کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ شدید مشکلات اور تنازعات سے گھری ہوئی ملکی عدالت ’’انٹر نیشنل وار کرائمز ٹریبونل‘‘ نے جماعتِ اسلامی کے مزید دو سرکردہ رہنماؤں کو ۱۹۷۱ء میں سابق مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کی تحریک کے دوران نام نہاد جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائیں سنائی ہیں۔ پانچ کو پہلے ہی جیل بھیجا جاچکا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ پھانسی کے لیے تیار رہیں۔ بہت سے دوسرے رہنماؤں کے مقدمات بھی فیصل ہونے کی منزل میں ہیں۔ جماعتِ اسلامی پر اب تک پابندی عائد نہیں کی گئی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جماعت کی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں۔

استغاثہ کے وکلا نے دعویٰ کیا ہے کہ طویل مدت تک جماعتِ اسلامی کی قیادت کرنے والے پروفیسر غلام اعظم نے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت ڈھاکا اور دیگر شہروں میں دانشوروں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے اسٹوڈنگ ونگ پر بھی پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک چلانے والوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ نام نہاد انٹر نیشنل وار کرائمز ٹریبونل نے ۱۵؍ جولائی کو ۹۰ سال سے زائد کے پروفیسر غلام اعظم کو جنگی جرائم اور قتلِ عام کا مرتکب قرار دے کر ۹۰ سال قید کی سزا سنادی۔ کہا جارہا ہے کہ ان کی عمر اور بیماری کو دیکھتے ہوئے موت کی سزا پر نظرِ ثانی کی گئی۔ پروفیسر غلام اعظم کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے اور بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ ریاست قائم کرنے کی مخالفت کی تھی۔

محض دو دن بعد ٹریبونل نے جماعتِ اسلامی کے ایک اور مرکزی رہنما علی احسن محمد مجاہد کو نام نہاد جنگی جرائم کی پاداش میں سزا سناتے ہوئے کہا کہ وہ پھانسی کے لیے تیار رہیں۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۶ء تک سماجی بہبود کے وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے علی احسن محمد مجاہد پر الزام ہے کہ انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کے دوران ہندوؤں کے قتلِ عام میں مرکزی کردار ادا کیا۔

جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں پر الزامات میں کچھ بھی نیا نہیں۔ اور اس سے قبل جماعتِ اسلامی کے خلاف ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کو بھی کسی اعتبار سے نیا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں، مقدمات کی سماعت کو موخر کیا جاسکتا تھا کیونکہ اس سے قبل جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو سنائی جانے والی سزاؤں کے باعث ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ چل پڑا تھا۔ کئی مقامات پر درجنوں افراد مارے گئے۔ چند ماہ کے دوران پولیس نے جماعت اسلامی کے مظاہروں میں شریک ہونے والوں پر فائرنگ کرکے (محتاط سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) ۱۰۰ سے زائد افراد کو ہلاک کیا ہے۔ حال ہی میں سنائی جانے والی سزاؤں پر زیادہ شدید ردِ عمل اس لیے دکھائی نہیں دیا کہ رمضان کے دوران بنگلہ دیشی مسلمان بھی کوئی بڑی احتجاجی تحریک چلانے سے گریز کرتے ہیں۔ چھ ماہ بعد بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ تب سیاسی اعتبار سے زیادہ ہلچل ہوسکتی ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے (جو جماعتِ اسلامی کی حلیف رہی ہے) عوامی لیگ کی قیادت اور بالخصوص وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی تیاری کر رکھی ہے۔ بی این پی نے حال ہی میں مقامی سطح کے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ چند شہروں میں اس کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ عام انتخابات میں بھی اس کی بھرپور کامیابی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگی جرائم کا ٹریبونل دراصل اپوزیشن کو اس کے ساتھی (جماعتِ اسلامی) کے ساتھ غیر موثر بنانے کی سازش ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے آئین میں ترمیم کرکے نگراں حکومت کا باب ختم کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام انتخابات موجودہ حکومت ہی کی نگرانی میں ہوں گے اور ایسے میں دھاندلی کا امکان زیادہ ہے۔ حالات کی روش یہ بتا رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ چھ ماہ کی طرح آئندہ چھ ماہ بھی بدامنی ہی رہے گی۔ انتخابات تک اپوزیشن اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کرے گی اور دوسری طرف حکومت اپنا سِکّہ چلانے کے لیے سرگرداں رہے گی۔

(“Bangladeshi Politics: Jamaat Tomorrow”… “The Economist”. July 20, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*