عقیدہ اور زندگی

فانی انسان کی زندگی محدود ہے اور زمین پر اس کے دن گِنے چُنے ہیں۔ یہ ہولناک کائنات جس کے اندر انسان رہتا ہے‘ اِس کے مقابلے میں وہ ایک ذرۂ بے مقدار ہے جس کا کوئی ٹھکانا ہے نہ قدر و قیمت۔ ازل سے ابد تک کا ہولناک زمانہ ایک طرف رکھو اور ایک فانی انسان کی زندگی کو دوسری طرف‘ تو یہ اُس کے مقابلے میں محض بجلی کی ایک چمک یا آنکھ کی جھپک نظر آئے گی۔

لیکن یہ فانی انسان‘ یہ ذرۂ پریشان‘ یہ گِری پَڑی بے مقدار چیز ایسی طاقت کی مالک بھی ہے جس سے وہ ایک ہی لحظہ میں ازل و ابد کی قوت سے جاملے‘ طول و عرض میں پھیل کر اس عظیم کائنات کے برابر ہو جائے‘ زمانے کی گہرائیوں اور وقت کی سلوٹوں میں ناقابلِ شکست رشتوں کے ذریعہ سے مربوط ہو جائے اور اپنے آپ کو وقت کی عظیم اور مہیب قوتوں میں شمار کرنے لگے۔ یقینا وہ بڑے بڑے کام کر سکتا ہے‘ عظیم حادثے برپا کرنے کی طاقت رکھتا ہے‘ ہرچیز پر اثر ڈالنے اور اس سے متاثر ہونے کی اہلیت کا مالک ہے۔ وہ زمانۂ ماضی میں موجود کو محسوس کر سکتا ہے‘ حال میں ٹھہرائو کو پاسکتا اور مستقبل میں بقا حاصل کر سکتا ہے۔ وہ وجود کی اُس سب سے بڑی قوت سے طاقت حاصل کر سکتا ہے جس کا سرچشمہ خشک نہیں ہو سکتا‘ نہ اسے ضعف و بے چارگی لاحق ہوتی ہے۔ یہ طاقت حاصل کر لینے کے بعد وہ زندگی‘ اس کے حوادث اور دیگر اشیا کا مقابلہ مساوی قوت سے کر سکتا ہے بلکہ ان سے قوی تر انداز میں۔ سو جب وہ ازل و ابدی قوت کا سہارا لے لے اور اپنے اور اس قوت کے مابین تعلقات کو درست کر لے تو نہ وہ گری پڑی چیز رہتا ہے نہ پہلے جیسا عاجز انسان!

یہ قوت فراہم کرنا دینی عقیدے کا کام ہے۔ انسانی ضمیر اور زندگی میں اس کا اثر وہی ہوتا ہے جو ہم نے بیان کیا۔ انسانی جان میں عقیدے کی قوت کا یہی راز ہے اور عقیدے کی وجہ سے جان کی قوت کا یہی بھید ہے۔ زمین پر عقیدے نے جو معجزات دکھائے ہیں اور برابر دکھائے چلا جارہا ہے‘ ان کی حقیقت کی تہہ میں خود عقیدہ ہی کارفرما ہے۔ عقیدے کے معجزات زندگی کا دھارا اور حالات کا رخ بدل دیتے ہیں۔ وہ فرد اور جماعت کو محدود فانی زندگی کی قربانی پر آمادہ کرتے ہیں تاکہ ایک غیرفانی اور عظیم زندگی حاصل ہو۔ وہ ایک عاجز و کمزور انسان کو سلطنت‘ مال و دولت‘ لوہے اور آگ کی قوتوں کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایک مردِ مومن کی روح میں عقیدے کی جو مضبوط اور بے پناہ قوت پوشیدہ ہوتی ہے‘ اس کے سامنے ظلم و استبداد کی ہر قوت شکست کھا جاتی ہے۔ ان قوتوں کو شکست دینے والا محض ایک محدود‘ فانی انسان نہیں ہوتا‘ بلکہ یہ کام اس ہولناک عظیم قوت کا ہوتا ہے جس کی روح اس میں کارفرما ہوتی ہے۔ قوت کا یہ زندہ و پائندہ سرچشمہ سوکھنے اور عاجز و ضعیف ہونے والا نہیں۔

دینی عقیدے کے سوا کوئی اور عقیدہ فانی مخلوق کو ازلی و ابدی قوت کے ساتھ ملانے کی طاقت نہیں رکھتا‘ نہ وہ کمزور انسان کو یہ مدد اور سہارا بخش سکتا ہے کہ اس کی نگاہ میں شان و شوکت‘ مال و دولت‘ حکومت و سلطنت اور آگ اور لوہے کی قوتیں ہیچ ہو جائیں‘ وہ محرومی اور اذیت پر صبر کر لے‘ ڈٹ جانے اور مقابلہ کرنے کی قوت پا لے۔ یہ صرف دینی عقیدہ ہی ہے جو اسے موت پر آمادہ کر دیتا ہے۔۔۔ ایسی موت جس کے اندر سے حیات کا چشمہ پھوٹتا ہے۔۔۔ یہ عقیدہ اسے فنا پر آمادہ کرتا ہے۔۔۔ اس فنا کے بعد دائمی بقا حاصل ہوتی ہے۔۔۔ یہ اسے قربانی کے لیے تیار کرتا ہے۔۔۔ جس کے نتیجے میں اسے اﷲ کی نصرت ملتی ہے! یہی وجہ ہے کہ افراد اور جماعتوں کی زندگی میں دینی عقیدے کی قوتِ قاہرہ مسلّم ہے اور یہی سبب ہے کہ ہم اپنی اجتماعی‘ قومی اور بین الاقوامی مشکلات کا حل صرف اپنے دینی عقیدے میں تلاش کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہی اس حل کا واحد سرچشمہ ہے۔

(بحوالہ ’’امنِ عالم اور اسلام‘‘۔ سید قطب شہیدؒ)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*