سترہویں صدی عیسوی میں عثمانی ترکوں اور ایران کی صفوی حکومت کے درمیان ایک عرصے تک تنائو کی کیفیت رہی۔سن سولہ سو دو عیسوی میں عین اس وقت جب کہ عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے صفوی افواج نے حملہ کرکے تبریز، شروان اور بغداد کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ ان دونوں حکومتوں کے درمیان لڑائیوں کا اس قدر نقصان ہوا کہ ایک مغربی مؤرخ کو کہنا پڑا ’’یورپیوں کی شکست اور ترکوں کی فتح کے درمیان صفوی حائل ہیں‘‘۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ نہ ایران پر صفویوں کی حکومت رہی نہ بغداد پر عثمانیوں کا کنٹرول اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب بعض ایرانی علماء نے عثمانی خلافت کے خاتمے کی باضابطہ مخالفت کرتے ہوئے اسے برقرار رکھے جانے کی حمایت کی۔بیسویں صدی کے ایران میں صفویوں کی جگہ پہلوی اور ترکی میں عثمانیوں کی جگہ مغرب سے مرعوب کمال اتاترک نے لے لی۔ پہلوی خاندان اور اتاترک کی سرکردگی میں فعال ان حکومتوں نے ایران اور ترکی کا رشتہ اسلام اور اسلامی روایات سے کمزور کر کے معاشرے میں مغربی اقدار کے فروغ کی ہرممکن کوشش کی اوراس مقصد کے حصول کے لیے تشدد سمیت ہر ہتھکنڈے کو استعمال کیا۔ ایران میں ایک عظیم جدوجہد کے نتیجے میں امام خمینی کی زیر قیادت ۱۹۷۹ء میں اسلامی انقلاب آیا توخطے میں موجود امریکی چوکیدار رضا شاہ پہلوی سے جان چھوٹی اور ایرانی قوم کو ایک بار پھر اپنے معاشرے کی اسلامی قدروں کے مطابق تعمیر کا موقع ملا۔ امام خمینی کی پالیسی کی بنیاد ہی مسلم ممالک سے تعلقات کا فروغ تھا۔انہوں نے پہلے ہی دن سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت کی جو آج تک جاری ہے۔دوسری جانب ترکی میں بھی اسلام پسند عوام اور مغرب نواز حکمران طبقے کے درمیان ایک عرصے تک کشمکش رہی۔ ترکی کی فوج نے پانچ حکومتوں کو برطرف کیا اور پچاس کی دہائی میں وزیراعظم عدنان مندریس کو پھانسی لگائی۔ ۱۹۹۷ء میں رفاہ پارٹی کے نجم الدین اربکا ن کی حکومت کو اس لیے برطرف کردیا گیا کہ ان کی خارجہ پالیسی کا جھکائو امریکا اور یورپی ممالک کے بجائے اسلامی ممالک کی جانب تھا۔ انہوں نے ترقی پذیر مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ ڈی نائن بھی تشکیل دیا۔انہی کے دورِ حکومت میں ایران کے ساتھ ہونے والے ایک بڑے اقتصادی معاہدے پر امریکا ناراض تھا۔ لہٰذا رفارہ پارٹی کی نہ صرف حکومت برطرف کی گئی بلکہ اس کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں رفاہ پارٹی سے علیحدہ ہو کر استنبول کے سابق میئر رجب طیب اردوگان نے اپنے قریبی ساتھی اور سابق رکنِ پارلیمنٹ عبداللہ گل کے ہمراہ اے کے پارٹی (جسٹس پارٹی) کی بنیاد ڈالی اور نومبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔اے کے پارٹی نہایت کامیابی کے ساتھ آٹھ سال کا عرصہ اقتدار میں گزار چکی ہے اور ترکی بلاشبہ داخلی اور اقتصادی استحکام حاصل کرنے کے بعد اب بیرونی محاذوں پر مسلم امہ کے موقف کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔گزشتہ دنوں ایرانی صدر احمدی نژاد اقتصادی تعاون کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے ترکی پہنچے تو مغربی ذرائع ابلاغ نے اسے دونوں ممالک کے بہتر ہوتے تعلقات ہی کی ایک کڑی قرار دیا۔ ویسے بھی ترکی ایک ایسے وقت میں ایران کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام کے سبب سخت عالمی دبائو کا سامنا ہے۔ اس کی ایک مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب گزشتہ سال جون میں ترکی نے جو کہ نیٹو کا رکن بھی ہے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ایران پر عائد پابندیوں کے خلاف ووٹ دیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ ترکی اور برازیل کی جانب سے ایران کے ساتھ یورینیم کے تبادلے سے متعلق ہونے والے معاہدے کو موقع دیا جائے۔ یقینا ترکی کے اس اقدام پر عالمی طاقتوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ ادھر ایران بھی جسے مغرب کی جانب سے بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی پر کاربند نظر آتا ہے۔ منو چہر متقی کی جگہ لینے والے ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالح کا گزشتہ دنوں سامنے آنے والا یہ بیان بھی قابل ذکر ہے جس کے مطابق ایران کی سرفہرست ترجیح علاقائی طاقتوں ترکی اور سعودی عرب سے تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی ایک طاقتور ملک ہے جو ایران کے ساتھ نظریاتی اور ثقافتی ہم آہنگی رکھتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران کی فلسطینی تحریکِ آزادی کی اعلانیہ حمایت کے سبب اسرائیل اور ایران کے تعلقات ہمیشہ ہی کشیدہ رہے ہیں، جب کہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات سفارتی سطح پر نہایت مضبوط رہے ہیں۔ اے کے پارٹی کی جانب سے ترکی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اب تعلقات میں کشیدگی کا عنصر نمایاں ہے۔پہلے تو ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر ترک وزیراعظم اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان مسئلہ فلسطین پر شدید جھڑپ ہوئی اور پھر فریڈم فلوٹیلا میں شامل ترک جہاز ماوی مارمرا پر اسرائیلی جارحیت کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ترکی اس اسرائیلی جارحیت کے بعد نہ صرف اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلاچکا ہے بلکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کرنے کے صہیونی و صلیبی مطالبے کو ماننے سے بھی انکاری ہے۔بعض مبصرین اسرائیل کے خلاف حماس کی حمایت کو ترکی اورایران کے اتحاد کی صورت میں بھی دیکھتے ہیں۔ ایران اور ترکی کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی نے اگست میں ایران کا نام ان ممالک کی فہرست سے خارج کردیا، جن سے اس کی سلامتی کو ممکنہ طور پر خطرہ ہوسکتا ہے۔اسی طرح گزشتہ سال ستمبر میں ترک وزیراعظم نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کے حجم کو دس ارب ڈالر سے بڑھا کر دوہزار تیرہ سے پندرہ تک کے درمیان ۳۰ ارب ڈالر تک لے جایا جائے گا۔ ایران ترکی کے ساتھ توانائی کے معاہدوں میں بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے اور ستمبر میں اس نے ایک ترک کمپنی کے ساتھ ایک اعشارئیہ تین ارب ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت کمپنی روزانہ ۶۰ ملین کیوبک میٹر گیس برآمد کرنے کی پائپ لائن تین سال کے عرصے میں تعمیر کرے گی۔ ترکی پہلے ہی روزانہ ۱۵ سے ۱۸ ملین کیوبک میٹر گیس تبریز براستہ انقرہ پائپ لائن سے حاصل کررہا ہے۔ ایران ترکی تعلقات کی ایک اور مثال اس وقت بھی دیکھنے میںآئی جب گزشہ ماہ ترک وزیراعظم رجب طیب اردوگان نے استنبول میں آیت اللہ علی خامنہ ای کے خارجہ پالیسی سے متعلق مشیر علی اکبر ولایتی کے ہمراہ عاشورہ کی تقریب میں شرکت کی۔بین الاقوامی مبصرین وزیراعظم اردوگان کی ترکی میں ۲۰ فیصدی شیعہ اقلیت کی مذہبی تقریب میں شرکت کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں باالخصوص اس تناظر میں کہ ایران ایک شیعہ اکثریت والی آبادی کا ملک ہے۔ اس سے پہلے ترک وزیراعظم ایرانی صدرمحمود احمدی نژاد کو اپنا بہت اچھا دوست قرار دے چکے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے موقع پر ترکی اور ایران نے پاکستانی بھائیوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کی اور ترک وزیراعظم تو بذاتِ خود متاثرہ علاقوں میں گئے۔کیا ایرانی وزیر خارجہ کا سعودی عرب اور ترکی سے تعلقات کو مزید فروغ دینے کا بیان اور پاکستان کے ان تینوں ممالک سے قریبی تعلقات کسی حقیقی اتحاد کی شکل اختیار کرسکیں گے؟ اس سوال کا جواب مسلم قیادت کی بصیرت میں پنہاں ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply