امریکا میں مردم شماری ہو رہی ہے۔ ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ مردم شماری کے فارم جلد ازجلد پُر کر کے واپس کر دیں۔ مگر امریکی مستقبل کے بارے میں درست اندازہ لگانے کے لیے مردم شماری کے نتائج کا انتظار ضروری نہیں۔ سبھی کو نظر آ رہا ہے کہ امریکا میں آبادی میں اضافے کا رجحان چل رہا ہے۔ ۲۰۵۰ء تک امریکا میں مزید ۱۰ کروڑ نفوس کا اضافہ ہو چکا ہو گا اور آبادی ۴۰ کروڑ تک پہنچ چکی ہو گی۔ روس، جرمنی، جاپان، چین، اٹلی، سنگاپور، جنوبی کوریا اور پورے مشرقی یورپ کے مقابلے میں امریکا میں آبادی میں اضافے کی شرح ۵۰ فیصدبلند ہے۔ تمام روایتی حریفوں کے ہاں آبادی میں اضافے کی شرح تھم چکی ہے اور اب تو آبادی میں کمی کا رجحان عام ہے۔ روس جب سوویت یونین کا حصہ تھا تب اس کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اب یہ سلسلہ رُک چکا ہے۔ روس کی آبادی میں ۳۰ فیصد کمی واقع ہو چکی ہے اور ۲۰۵۰ء تک اس کی آبادی امریکا کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم ہو گی۔ روسی وزیراعظم ولادیمیر پوٹن نے بھی آبادی میں تیزی سے واقع ہوتی ہوئی کمی کو قوم کی موت سے تعبیر کیا ہے۔
امریکا اور مشرقی ایشیا کے درمیان بھی آبادی کا فرق نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ چند عشروں کے دوران مشرقی ایشیا کے ممالک میں ورک فورس تیزی سے مستحکم ہوئی جس کی بدولت ان ممالک نے تیزی سے ترقی کی اور ایشین ٹائیگر کہلائے۔ ان ممالک کی غیر معمولی ترقی نے دوسرے خطوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ مگر آئندہ ۴ عشروں کے دوران ان ممالک کی ایک تہائی یا اس سے زیادہ آبادی ۶۵ سال سے زائد عمر کی ہو چکی ہو گی۔ دوسری جانب امریکا میں ۲۰۵۰ء تک ۶۵ سال کی عمر والے افراد آبادی کا ۲۰ فیصد ہوں گے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق ۲۰۵۰ء تک چین کی ایک تہائی آبادی ۶۵ سال سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہو گی۔ غیر معیاری سوشل سیکوریٹی سسٹم کے باعث چین میں عمر رسیدہ افراد گزر بسر کے لیے بچتوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے اور دوسری طرف فی کس آمدنی میں بھی کمی واقع ہو گی۔ غریب ممالک میں آبادی میں اضافے کی رفتار کا کم ہو جانا قلیل المیعاد فائدہ ضرور پہنچائے گا۔ اس صورت میں ماحول کو لاحق خطرات میں بھی کمی واقع ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ معیشت اور ماحول کے لیے نیک شگون نہیں۔ معاشرتی سطح پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
۲۰۰۰ء اور ۲۰۵۰ء کے درمیان امریکا میں ۱۵ سے ۶۴ سال تک کی عمر کے افراد مجموعی آبادی کا ۴۲ فیصد ہوں گے۔ چین میں اس گروپ کی آبادی ۱۰ فیصد گھٹے گی۔ یورپ میں ۲۵ فیصد اور جاپان میں ۴۴ فیصد کمی واقع ہو گی۔
امریکا میں بنیادی مسئلہ تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی کو پالنے کا نہیں بلکہ تیزی سے پنپتی ہوئی ورک فورس کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کا ہو گا۔ ماہرین کی نظریں اس بات پر جمی ہیں کہ نجی شعبہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔ اس وقت امریکا میں بیروزگار افراد کی تعداد ایک کروڑ ۵۰ لاکھ ہے۔
امریکی معیشت کو متحرک اور روبۂ عروج رکھنے میں تارکینِ وطن اہم کردار ادا کریں گے۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۵ء کے دوران امریکا میں تمام وینچر والی پبلک کمپنیاں ۲۵ تارکینِ وطن نے قائم کیں۔ یہ آجرانہ جذبہ بہت اہم ہے کیونکہ امریکا میں بیشتر ملازمتیں اب بڑے اداروں سے نکل کر چھوٹے، انفرادی نوعیت کے اداروں میں مرتکز ہو رہی ہیں۔ امریکی معیشت کا ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ملازمت پر اپنے کام کو ترجیح دی جائے۔ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۰ء کے دوران امریکا بھر میں ذاتی کاروبار کرنے والوں کی تعداد میں ۱۰۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب وہ ورک فورس کا ۱۶ فیصد ہیں۔
اگر امریکا ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے تو اُسے ہائی ٹیک انڈسٹری کے ساتھ ساتھ بنیادی نوعیت کی صنعتوں مثلاً تعمیرات، زراعت، مینوفیکچرنگ، توانائی وغیرہ کے فروغ پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ اس صورت میں بلیو کالر ورک فورس کی توسیع ممکن ہو سکے گی۔ بنیادی صنعتوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھپانے اور انہیں تربیت دینے سے قومی معیشت پر وہ لوگ بوجھ نہیں بن سکیں گے جن کے
پاس کوئی ڈگری نہیں ہے۔ اس صورت میں سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی بھی رکے گی اور برآمدات کو فروغ دینے میں معاون شعبوں کو مستحکم کرنا ممکن ہو گا۔ ایسی صورت میں نئی برآمدات کی راہ ہموار ہو گی۔
آجروں میں پائے جانے والے ولولے اور معاون سرکاری پالیسیوں کی بدولت امریکی معیشت کو مزید چار عشروں کے لیے مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فوری اور بھرپور اقدامات ناگزیر ہیں۔ تاخیر یا نااہلی کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
(جوئل کوٹکن چیپ مین یونیورسٹی میں ڈسٹنگوشڈ پریزیڈینشل فیلو اور ’’دی نیکسٹ ہنڈریڈ ملین: امریکا ان ۲۰۰۵ء‘‘ کے مصنف ہیں)
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘)
Leave a Reply