کیا ہم خبردار ہیں کہ بھارتی نژاد امریکی وائٹ ہاؤس اور دوسرے حساس محکموں میں اعلیٰ مناصب تک جاپہنچے ہیں۔
امریکی صدر بائیڈن کی انتظامیہ میں ۲۰ بھارتی نژاد امریکی ۷۳ سال کی جدوجہد کے بعد وائٹ ہاؤس میں مرکزی مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہم جو ۱۹۴۷ء سے ہی واشنگٹن کی چلم بھرتے آرہے ہیں۔ ہمارا حقہ سوکھا ہی رہ گیا ہے۔
ایک ہمارے سمندر پار پاکستانی ہیں جو ہر ملک میں اپنی سیاسی جماعتوں کی ذیلی شاخیں بنا کر، فرقوں کی مسجدیں کھڑی کرکے اپنے وطن کی لڑائیاں وہاں بھی لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی شناخت کی بجائے پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچ، کشمیری، مہاجر پہچان جاری رکھتے ہیں۔
شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ جہاں رہتے ہیں وہاں کی سیاسی سماجی زندگی میں مقام بنانے کی بجائے اپنی ملکی سیاسی جنگوں میں الجھے رہتے ہیں۔
ابھی تو ایک بھارتی نژاد نائب صدر بنی ہے، کوئی عجب نہیں کہ ایک دو انتخابات کے بعد کوئی بھارتی نژاد امریکا کا صدر بھی بن جائے۔ میرا خیال نہیں ہے کہ پاکستان میں کوئی تحقیقی ادارہ یا کوئی یونیورسٹی امریکا میں بھارتیوں کے اس عروج کے اسباب اور بالآخر پاکستان پر اس کی افتاد کے حوالے سے کوئی تحقیق کررہی ہے یا نہیں۔
میں اپنے طور پر اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔ یہ صرف حالیہ انتخابات میں بھارتیوں کی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ نصف صدی کا قصّہ ہے۔ باقاعدہ منظّم حکمت عملی کا نتیجہ۔
اپنے دیش سے محبت اور اس کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جس ملک میں بھی ہیں۔ اس کے وسائل سے، اس کی یونیورسٹیوں سے تربیت کا حصول، اپنی ذات کے لیے نہیں۔ اپنے ہم وطنوں کی زندگی آسان بنانے کے لیے۔
یہ ۲۰ بھارتی جوبائیڈن کی ٹیم کا حصّہ ہیں۔ ان میں سے ۱۳خواتین بتائی جا رہی ہیں۔ نیرا ٹنڈن (ڈائریکٹر وائٹ ہاؤس آفس)۔ ڈاکٹر ورک مرتھی (یو ایس سرجن جنرل)۔ ونیتا گپتا (ایسوسی ایٹ اٹارنی جنرل)۔ عذرا ضیا (انڈر سیکرٹری اسٹیٹ سویلین سیکورٹی ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس)۔ مالا اڈیگا (خاتون اوّل کے لیے پالیسی ڈائریکٹر)۔ سابرینہ سنگھ (ڈپٹی پریس سیکرٹری)۔ عائشہ شاہ (پارٹنر شپ منیجر، وائٹ ہاؤس ڈیجیٹل اسٹرٹیجی)۔ سمیرا فاضلی (ڈپٹی ڈائریکٹر یو ایس نیشنل اکنامکس کونسل)۔ بھرت راما مورتی (وائٹ ہاؤس نیشنل اکنامک کونسل)۔ گوتم راگھون (ڈپٹی ڈائریکٹر پریزیڈنشل پرسنل)۔ ونے ریڈی (ڈائریکٹر اسپیچ رائٹنگ)۔ ویرانت پٹیل (اسسٹنٹ پریس سیکرٹری)۔ ترن چھابرا (سینئر ڈائریکٹر نیشنل سیکورٹی)۔ سمونا گوہا (سینئر ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا)۔ شانتی کارلاٹیل (کوآرڈینیٹر ڈیموکریسی و ہیومن رائٹس)۔ سونیا اگر وال (سینئر ایڈوائزر کلائمیٹ پالیسی)۔ ودور شرما (پالیسی ایڈوائزر برائے ٹیسٹنگ کووڈ 19 رسپانس ٹیم)۔ بیتا گپتا (ایسوسی ایٹ کونسل)۔ ریما شاہ (ڈپٹی ایسوسی ایٹ کونسل)۔
یہ تو اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ ہیں۔ ان کا اپنا اسٹاف بھی ہوگا۔ دوسرے کلیدی مناصب پر نہ جانے بھارتی نژاد امریکی کہاں کہاں متمکن ہوں گے۔ وہ ان اعلیٰ مقامات سے اپنے آبا و اجداد کے ملک کے لیے یقینا خدمات کا سوچیں گے۔
امریکا بھارت میں قربت کی کوششیں تو سوویت یونین کے انہدام سے شروع ہوگئی تھیں۔ اس سے بھی بھارت کی شاطر ڈپلومیسی کا اندازا کیا جاسکتا ہے۔ بانیانِ پاکستان اور ان کے جانشیں تو امریکا بہادر کے ہوکر رہ گئے تھے۔ لیکن بھارت شطرنج کی چالیں چلتا رہا۔ سوویت بلاک میں پیش پیش تھا۔ پورے مالی صنعتی سیاسی فائدے اٹھارہا تھا۔ غیر جانبدار تحریک کے ہر اول دستے میں بھی شامل تھا اور کشمیر پر غاصبانہ قبضہ بھی کیے ہوئے تھا۔
سیکولر شناخت بھی رکھتا تھا اور ہندوؤں کا تعصب بھی۔ جونہی سوویت یونین اپنے انجام کو پہنچا، تو ۱۹۹۰ء سے امریکا میں مقیم بھارتی نژاد تاجروں، سرکاری عہدیداروں و ڈاکٹروں نے امریکا کو بھارت کے قریب لانے کی باقاعدہ کوششیں شروع کردیں۔ بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے کہیں زیادہ اس میں بھارتی نژاد امریکیوں کا کمال تھا۔ کیا ایسی منظم کاوش کبھی سمندر پارپاکستانیوں نے کی۔
وہ تو باہر ملکوں میں بیٹھ کر اپنے ہی ملک پر تنقید میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارتی نژاد امریکا میں ۴۴۶۰۰۰۰، برطانیہ میں ۵۷۶۴۰۰۰، آسٹریلیا میں ۶۶۰۳۵۰، ملائشیا میں ۲۹۸۷۹۵۰، فرانس میں ۳۶۴۵۲۳؍ اور سعودی عرب میں ۲۵۹۴۹۴۷ کی تعداد میں موجود ہیں۔ سب بھارت کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ ۹جنوری کو بھارت کے دوسرے ملکوں میں مقیم بھارتیوں کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس روز ان بھارتیوں کی اپنے وطن کی ترقی میں خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔
۱۹۹۰ء سے امریکا بھارت باہمی تعاون، تجارت، صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت سمیت کئی شعبوں میں آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بھارتی نژاد اپنے ناچ گانے اور فلموں کے کلچر سے بھی امریکیوں کو رام کر رہے ہیں۔ ان کی ترسیلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا ہدف ہمیشہ کثیر القومی کمپنیوں کی سربراہی ہوتا ہے۔ وہاں بیٹھ کر یہ اپنے غریب ہم وطنوں کو ملازمتیں پیش کرتے ہیں۔ پردیس میں مقیم ہنود وہاں کے مقیم یہود کے ساتھ مل کر انجمنیں تشکیل دیتے ہیں۔ امریکا میں انڈین امریکن تیسرا بڑا ایشیائی امریکی گروپ ہے۔ پہلے نمبر پر چینی ہیں، دوسرے پر فلپائن۔ یہ تحقیق بھی کی گئی ہے کہ امریکا میں مقیم بھارتی نژاد میں ۴۰ فیصد بیچلر اور پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسرے ایشیائی مل کر ۲۱ سے ۳۰ فی صد تک پہنچتے ہیں۔
بھارتی نژادوں کا اثرورسوخ اس حد تک ہے کہ ایک سروے کے مطابق امریکیوں کی اکثریت بھارت کو چھٹا پسندیدہ ملک قرار دیتی ہے۔ ایک تعجب خیز حقیقت یہ ہے کہ آئی ٹی پروفیشنل کے ایچ بی ویزے ۸۰ فیصد بھارتی حاصل کرلیتے ہیں۔ بھارتی کلچر کے ساتھ ساتھ گزشتہ ۱۰سال میں بھارتیوں نے راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریات کا پرچار بھی کھل کر کیا ہے۔ بائیڈن کی انتخابی مہم میں آر ایس ایس سے وابستہ سونل شا اور امیت جانی پیش پیش تھے۔ ہر چند کہ انہیں انتظامیہ میں کوئی جگہ نہیں ملی ہے۔
ہمیں تو براڈ شیٹ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور پاناما کے کھلونے دے کر الجھایا جاتا ہے۔ ہم بڑے خلوص اور جوش و خروش سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان اور کشمیری بن کر جھگڑتے ہیں۔ یہی نسلی لسانی تفریق اور فاصلے امریکا، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا میں بھی برقرار رکھتے ہیں۔ مہاجروں کی الگ تنظیمیں ہیں۔ پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں اور کشمیریوں کی الگ۔ اگر کوئی پاکستانی نژاد کسی بڑے عہدے پر پہنچ بھی جاتا ہے تو وہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ میں پاکستانی نہیں امریکی یا برطانوی ہوں۔
میں نے یہ حقائق اعداد و شمار اس لیے یکجا کیے ہیں کہ اس سے امریکا کے آئندہ ۴ سال میں بھارت کے اثر و رسوخ کے پھیلاؤ اور نتیجہ خیزی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس میں اگرچہ پہلا ہدف چین ہوگا۔
ہم چین کے دوست ہیں۔اس لیے ہم بھی نشانے پر ہوں گے۔ بھارتی شکاری کتنے محکموں میں ہیں، کتنی مچانوں پر موجود ہیں۔ اے اہلِ پاکستان خبردار۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ ۳۱ جنوری ۲۰۲۱ء)
Leave a Reply