بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اب خوب اندازہ ہوچلا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران بالاکوٹ حملے کو کسی بھی طور کیش نہیں کرایا جاسکتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ دو طیاروں کے گرائے جانے اور ونگ کمانڈر ابھینندن کی گرفتاری و رہائی سے معاملات یکسر پلٹ گئے ہیں۔ ایسے میں بالا کوٹ حملے کا ڈھول پیٹ کر ووٹ بینک کو مضبوط رکھ پانا کسی بھی اعتبار سے ممکن نہیں۔
بالا کوٹ پر فضائی حملے کی خبر جیسے ہی پاکستانی نیوز چینلوں پر جاری ہوئی، بھارت میں مبصرین نے کہنا شروع کردیا کہ اس کا براہِ راست فائدہ بی جے پی کو عام انتخابات میں پہنچے گا۔ بی جے پی انتخابات کے لیے ایودھیا کے معاملے کو بھی لے کر بیٹھی تھی۔ ایسے میں پاکستان کو سبق سکھانے اور سزا دینے کا ڈھول بھی خوب پیٹا جارہا تھا۔ دہشت گردوں کی معاونت کے الزام کی بنیاد پر پاکستانی حدود میں مختلف مقامات کو نشانہ بنانے کے حوالے سے بڑھک ماری جارہی تھی۔ بی جے پی کی بھرپور کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو پاکستان کے خلاف لے جاکر انتخابی فوائد بٹورے جائیں۔ مگر بالا کوٹ حملے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بی جے پی قیادت کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ انتخابی مہم میں بالا کوٹ کا ذکر برائے نام بھی نہیں کیا جارہا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے صورتِ حال کی نزاکت بھانپتے ہوئے ’’میں بھی چوکیدار ہوں‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ سوشل میڈیا مہم چلانے پر اکتفا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ بھارت بھر میں عام انتخابات کے حوالے سے سب سے اہم معاملہ ذات پات اور طبقے کا ہے۔
بی جے پی کے بیک روم بوائز کو اندازہ ہوگیا ہے کہ ان کی قیادت نے اندازے کی غلطی کی ہے اور فوری تصحیح لازم ہے۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی کی انتخابی مہم میں اب ان ترقیاتی منصوبوں کا ڈھول پیٹا جارہا ہے، جو نریندر مودی کے دور میں شروع کیے گئے ہیں۔ انتخابی مہم کے حوالے سے جاری کیے جانے والے اشتہارات میں پاکستان سے انتقام کا ذکر ہے، نہ بالاکوٹ حملے کا۔ بالا کوٹ حملے کا معاملہ بی جے پی کے لیے ہزیمت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ لوگ اب بھی پوچھ رہے ہیں کہ کتنے آدمی تھے! حکومت اور فوج دونوں اب تک یہ نہیں بتا پائے ہیں کہ بالاکوٹ حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوئے۔ پانچ بڑے بم برسانے کا دعویٰ تو کیا جارہا ہے تاہم پورے وثوق سے یہ نہیں بتایا جارہا کہ ان بموں سے دشمن کو نقصان کتنا پہنچا۔
بی جے پی کے بعض ’’دانشوروں‘‘ نے مشورہ دیا تھا کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی تصویر بھی انتخابی پوسٹروں میں شامل کی جائے کیونکہ وہ لڑتے ہوئے گرفتار ہوا، یعنی قوم کا ہیرو ہے۔ بی جے پی نے ابھینندن کو قومی ہیرو بنانے کی کوشش ضرور کی مگر پھر بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ ایسا کرنا کسی طور مناسب نہ ہوگا کیونکہ خود فضائیہ بھی ایسا کرنے سے گریز کر رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بی جے پی کے انتخابی پوسٹروں اور پینا فلیکسز سے ابھینندن کی تصویر غائب ہوچکی ہے۔ کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ ییڈ یورپّا، گجرات کے بھرت پنڈیا اور بی جے پی کے دیگر لیڈر شور مچا رہے تھے کہ بالا کوٹ حملے کو قومی کارنامے کے طور پر بروئے کار لایا جائے یعنی اس حملے کے ذریعے ووٹ بٹورے جائیں۔ اس رائے کے مخالفین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ اب بھی کہیں کہیں بالاکوٹ حملے اور پاکستانی ایف سولہ طیارے کے گرائے جانے سے متعلق دعوے کرتے رہتے ہیں مگر مجموعی طور پر بی جے پی کا لہجہ تبدیل ہوچکا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت بالا کوٹ حملے کے حوالے سے کوئی بھی دعویٰ نہیں کر رہی۔ ایسے میں بی جے پی کے پاس بھی کچھ زیادہ گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت کو اندازہ ہوگیا کہ کارگل کی جنگ کے بعد والی غلطی نہیں دہرانی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں کارگل جنگ کے بعد اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی دوبارہ اقتدار میں آئی، مگر لوک سبھا میں وہ بھرپور برتری حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔
کانگریس نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی تھوڑی سی کوشش کی ہے مگر اب اُسے بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ بالاکوٹ حملے اور اس کے بعد کی صورتِ حال پر بی جے پی کو لتاڑنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اب وہ بھی بنیادی مسائل کی بات کر رہی ہے۔
بھارت کے ووٹر احمق نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ووٹر چاہتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مہنگائی کا گراف نیچے لایا جائے اور ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کو کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے۔ بی جے پی نے بالا کوٹ حملے اور اس کے بعد کی صورتِ حال کو انتخابی مہم میں ایشو بناکر فوائد بٹورنے سے اجتناب کی پالیسی اختیار کی ہے۔
یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فوج ملک کے دفاع کے لیے ہوتی ہے جسے سیاسی مقصد کے لیے کسی بھی طور استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے۔ بی جے پی نے یہ بات تیزی سے سمجھ لی۔ اچھی بات ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“BJP’s backroom warriors are realising they can’t bank on Balakot and are changing gears”. (“theprint.in”. March 10, 2019)
Leave a Reply