سانحۂ مشرقی پاکستان کے پہلو بہ پہلو اُس خطے میں جو عظیم انسانی المیہ رونما ہوا، معروف دانشور، مصنف اور ماہرِ ابلاغیات جناب قطب الدین عزیز نے اُس کی جھلکیاں اپنی کتاب “Blood and Tears” میں درج کی ہیں۔یہ کتاب نایاب ہے۔تاہم اِسے اردو کے قالب میں ڈھال کر، قسط وار آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ اِس سلسلے میں قارئین کے مشوروں اور مزید معلومات کا خیرمقدم کیا جائے گا۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے میں عوامی لیگ نے ریاست کے خلاف بغاوت کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ ہی سابق مشرقی پاکستان میں لوٹ مار، تشدد اور قتل و غارت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا۔ اُنہی دنوں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے ہدایت کی کہ میرے خبر رساں ادارے سے (سابق) مشرقی پاکستان میں باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کوئی خبر جاری نہیں ہونی چاہیے۔ یہی ہدایت ملک کے دیگر خبر رساں اداروں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کو دی گئی۔
جب میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خبریں روکنا غیر اخلاقی ہوگا، تو مجھے بتایا گیا کہ ایسی خبروں کی اشاعت سے مغربی پاکستان میں بسے ہوئے بنگالیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ ان کے خلاف عوام کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور یوں ملک کے دونوں حصوں کے درمیان خراب تعلقات مزید خراب ہوں گے۔ مزید یہ کہ ایسا کرنے سے عوامی لیگ کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے امکان کو بھی دھچکا لگے گا۔ یہ استدلال تھوڑی سی منطق اور انسانی ہمدردی کا پہلو لیے ہوئے تھا۔ خبر رساں اداروں اور اخبارات و جرائد نے وفاقی حکومت کی جانب سے دی جانے والی ہدایت پر مکمل عمل کرتے ہوئے عوامی لیگ کے ہاتھوں مشرقی پاکستان میں بہاریوں سمیت تمام غیر بنگالی پاکستانیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی خبریں دبادیں۔
عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں نے بغاوت شروع ہونے کے بعد ابتدائی دنوں ہی میں مشرقی پاکستان کے ٹیلی کمیونی کیشن نیٹ ورک پر تصرف حاصل کرلیا تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ جو مظالم وہ غیر بنگالیوں پر ڈھا رہے تھے، اس کے بارے میں میڈیا میں کوئی بات نہ آئے اور ملک سے باہر بھیجے جانے والے ٹیلی گرامز میں بھی ایسی کوئی بات نہ ہو۔ مغربی پاکستان والوں کو عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں اُن لوگوں کی زبانی کچھ معلوم ہو پاتا تھا جو کسی نہ کسی طرح مشرقی پاکستان سے بچ نکلنے اور طیاروں یا بحری جہازوں کے ذریعے مغربی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو پاتے تھے۔ مغربی پاکستان کے اخبارات غیر بنگالیوں پر توڑے جانے والے ستم کے پہاڑ کو خبروں میں جگہ دینے کی ہمت پھر بھی نہیں کر پاتے تھے۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے مظالم سے بچ کر پانچ ہزار پاکستانی بحری جہاز کے ذریعے چاٹگام سے کراچی پہنچے۔ انہوں نے مظالم کی جو کہانیاں سنائیں، ان کا ایک لفظ بھی مغربی پاکستان کے پریس میں شائع نہیں ہوا۔ ایک اخبار نے ’’ہمت‘‘ دکھاتے ہوئے یہ ’’خبر‘‘ دی تھی کہ مشرقی پاکستان میں حالات معمول پر ہیں۔ گویا پانچ ہزار افراد معمول کی صورت حال سے گھبراکر وہاں سے نکل بھاگے تھے!
مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران ہزاروں غیر بنگالی ڈھاکا ایئر پورٹ پر فوج کی نگرانی میں پڑے رہے تاکہ اپنی اپنی باری آنے پر مغربی پاکستان منتقل ہوسکیں۔ مشرقی پاکستان سے آنے والوں کے ساتھ تابوتوں میں عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے جانے والے فوجیوں اور عام غیر بنگالی پاکستانیوں کی لاشیں بھی کراچی ایئر پورٹ پہنچتی تھیں مگر اس حوالے سے مقامی یا بین الاقوامی پریس میں کوئی خبر شائع نہیں ہوتی تھی۔ ڈھاکا ایئر پورٹ پر فوج کے پہرے میں طیارے پر سوار ہونے کے لیے باری کا انتظار کرنے والوں کے بارے میں بھی کوئی خبر کہیں شائع نہیں ہو پاتی تھی۔ کراچی ایئر پورٹ پر لاشیں وصول کرنے والوں کی آہ و بُکا کی خبر اخبارات میں اِس لیے شائع نہیں ہو پاتی تھی کہ وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ایسی خبروں پر سختی سے پابندی عائد کر رکھی تھی۔
اسلام آباد میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے بنگالی سیکرٹری نے دھمکی دی تھی کہ جو اخبارات مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کی خبروں کی اشاعت پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کریں گے، اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کونسل مسلم لیگ کے رہنما زیڈ ایچ لاری قومی اسمبلی میں عوامی لیگ سے اتحاد کا ارادہ رکھتے تھے۔ میرے کہنے پر انہوں نے خاصے نرم الفاظ میں ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن پر زور دیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
میرے خبر رساں ادارے کے کئی نمائندے مشرقی پاکستانی کے مختلف حصوں میں موجود تھے مگر اس کے باوجود تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمیں مکمل اندازہ نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان میں کتنے بڑے پیمانے پر خرابی پائی جاتی ہے۔ ہمارے اندازوں سے کہیں بڑھ کر غیر بنگالیوں کو قتل کیا جارہا تھا اور ان کی املاک لوٹی جارہی تھیں۔ ڈھاکا اور چاٹگام دو ایسے مقامات تھے جہاں سے کسی نہ کسی طرح جان بچاکر کراچی پہنچنے والے عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں کے انسانیت سوز مظالم کی داستانیں سناتے تھے۔ مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ عوامی لیگ کے عسکریت پسند اور ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز میں ان کے ہم خیال پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کو جس سفّاکی سے موت کے گھاٹ اتار رہے تھے اور جتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کر رہے تھے، اُس کی خبریں ہم تک نہیں پہنچ پارہی تھیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ مشرقی پاکستان میں غیر مقامی افراد پر کیسی قیامت ٹوٹی ہے۔
مشرقی پاکستان کے سنگین ہوتے ہوئے بحران کے بارے میں میرا ایک مراسلہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۷۱ء کو امریکی اخبار کرسچین سائنس مانیٹر میں شائع ہوا ور پھر وہاں سے لے کر ملواکی جرنل نے بھی شائع کیا۔ میں نے اس مراسلے میں لکھا: ’’ڈھاکا سے ملنے والی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ عوامی لیگ کی کال پر ہونے والی ہڑتال کے دوران بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور آتشزنی ہوئی ہے۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی املاک کو بڑے پیمانے پر لوٹا اور تلف کیا جارہا ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ٹیلی مواصلاتی رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے اور کراچی اور ڈھاکا کے درمیان فضائی رابطہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے‘‘۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں کا جو قتل عام کیا اور ان کی املاک کو لوٹنے یا تلف کرنے کے جو واقعات رونما ہوئے، اُن کی تھوڑی بہت رپورٹنگ اپریل ۱۹۷۱ء میں چند بھارتی اور مغربی اخبارات میں ہوئی۔ ۶؍اپریل ۱۹۷۱ء کو ’’دی ٹائمز آف لندن‘‘ نے لکھا: ’’ہندوستان کی تقسیم کے وقت مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں پناہ لینے والے ہزاروں غیر بنگالیوں کو بنگالیوں نے موت کے گھاٹ اتارا ہے‘‘۔
۴؍اپریل ۱۹۷۱ء کو نئی دہلی کے اخبار ’’دی اسٹیٹسمین‘‘ نے لکھا: ’’مشرقی بنگلا دیش میں پھنسے ہوئے لاکھوں غیر بنگالیوں نے ہمیشہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی کا دباؤ محسوس کیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ بنگالی اکثریت ان سے بھرپور انتقام لے گی‘‘۔
زیر نظر کتاب میں سابق مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد کے بیانات کی بنیاد پر جو کچھ تحریر کیا گیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں اور غنڈوں نے بحران شروع ہوتے ہی مغربی پاکستانیوں، بہاریوں، دیگر غیر بنگالیوں اور پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والے بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنا شروع کردیا تھا۔ ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء تک بنگلا دیش میں ۳۵ غیر ملکی اخبار نویس تھے مگر ان کے اخبارات اور جرائد نے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں پر ڈھائی جانے والی قیامت کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا۔ غیر ملکی نامہ نگاروں کے اس ہجوم میں موجود امریکی صحافی ۱۹۷۰ء کے سمندری طوفان کی رپورٹنگ کے بعد عوامی تحریک کی پبلک ریلیشننگ سے اس حد تک متاثر تھے کہ ان کے ذہن میں یہ تصور تک نہیں ابھرتا تھا کہ عوامی لیگ کے کارکن کسی غیر بنگالی کو قتل کرسکتے یا اس کی املاک کو لوٹ سکتے ہیں۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے میں جب شیخ مجیب الرحمن نے ملک سے علیٰحدگی کی باضابطہ تحریک شروع کی، تب ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے میگزین سیکشن کی رائٹر پیگی ڈرڈن اور ان کے شوہر پر عوامی لیگ کے غنڈوں نے ڈھاکا کے وسط میں لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا۔ پیگی کے شوہر بھی رپورٹر تھے۔ مگر دونوں نے مارچ اور اپریل کے کسی بھی شمارے میں اس حملے کا ذکر تک کرنا گوارا نہ کیا۔ ہاں، ۲ مئی کو ایک آرٹیکل میں انہوں نے مغربی پاکستان کی جانب سے بنگالیوں سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا رونا رویا اور عوامی لیگ کے خلاف آپریشن کی تنقیص کی اور ساتھ ہی اپنے اور اپنے شوہر پر ہونے والے حملے کا بھی تذکرہ کیا۔ چند بہاریوں نے، جن کے رشتہ دار ڈھاکا اور دیگر مقامات پر قتل کردیے گئے تھے، ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں مقیم غیر ملکی نامہ نگاروں سے ملاقات کی کوشش کی تاکہ انہیں عوامی لیگ کے غنڈوں کے مظالم کے بارے میں بتاسکیں مگر وہاں تک رسائی ناممکن بنادی گئی۔ ہوٹل تک پہنچنے والے تمام راستوں پر عوامی لیگ کے مسلح کارکن قابض تھے۔ ٹیلی فون سے رابطہ بھی بہت مشکل کام تھا اور اس میں بھی جان کو جوکھم تھا کیونکہ ٹیلی مواصلات کی تمام تنصیبات پر عوامی لیگ کا قبضہ تھا اور فون ٹیپ بھی کیے جاتے تھے۔ ڈھاکا میں مارچ ۱۹۷۱ء میں تعینات ایک برطانوی اخبار نویس نے مجھے بتایا کہ اس نے ڈھاکا سے نئی دہلی میں مقیم اپنے اخبار کے نامہ نگار سے طویل دورانیے کی کال پر گفتگو کی مگر جیسے ہی اس نے ڈھاکا اور دیگر شہروں میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کا ذکر کیا، بنگالی ٹیلی فون آپریٹر نے لائن کاٹ دی۔
پاکستان کی حکومت نے ۲۵ مارچ کو عوامی لیگ کے کارکنوں اور دیگر باغیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا اور اگلے ہی دن ۳۵ صفِ اول کے مغربی صحافیوں کو ڈھاکا سے نکال دیا۔ ان میں امریکا کے چند چوٹی کے صحافی بھی شامل تھے۔ ان کے دل میں پاکستانی فوج کے خلاف پرخاش پیدا ہوئی اور پھر انہوں نے کبھی مغربی پاکستان کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ ان صحافیوں نے اپنے اخبارات کو جاری کی جانے والی رپورٹس میں فوجی آپریشن کے خلاف جی بھر کے لکھا۔ فوج پر سنگین مظالم ڈھانے کا الزام عائد کیا اور مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں لاکھوں غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کے بہیمانہ قتل عام کے بارے میں کچھ بھی سچ نہیں لکھا۔
کروڑوں سادہ لوح امریکیوں اور یورپی باشندوں کے لیے پریس میں چھپا ہوا ہر لفظ آسمانی صحیفے کی مانند ہوتا ہے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے آپریشن سے متعلق لکھے جانے والے ہر لفظ کو حقیقت پر مبنی تسلیم کرلیا۔
مشرقی پاکستان سے مغربی صحافیوں کے نکال دیے جانے اور مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن سے متعلق کراچی سے بھیجی جانے والی رپورٹس کو درست تسلیم کرنے سے گریز نے لاکھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم سے دنیا کو بے خبر رکھا۔ ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا، اس کا عشر عشیر بھی دنیا کے چیدہ اخبارات اور جرائد میں شائع نہ ہوسکا۔ یوں دور حاضر کا ایک غیر معمولی قتل عام عالمی پریس میں نمودار ہونے سے رہ گیا۔
اپریل ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتے میں وفاقی وزارتِ اطلاعات نے اخباری نمائندوں کے ایک گروپ کو مشرقی پاکستان کے شورش زدہ علاقوں کے دورے پر بھیجا۔ مجھے بھی مدعو کیا گیا مگر میں ان دنوں سندھ حکومت کی سوشل ویلفیئر ایویلیوایشن کمیٹی کا چیئرمین تھا اور رپورٹ کی تیاری میں مصروف تھا۔ مجھے ہر صورت رپورٹ ۱۲؍اپریل ۱۹۷۱ء تک جمع کرانی تھی۔ یہی سبب تھا کہ میں نے مشرقی پاکستان کے دورے پر جانے سے معذرت کرلی۔
وفاقی وزارتِ اطلاعات کے تحت مشرقی پاکستان جانے والے صحافیوں میں کراچی کے انگریز اخبار ’’مارننگ نیوز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور لندن کے ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کے نمائندے انتھونی مسکیرنہیس بھی شامل تھے۔ ۲ مئی ۱۹۷۱ء کو ’’سنڈے ٹائمز‘‘ نے، گو تھوڑی سی تاخیر سے، مسکیرنہیس کا مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے عوامی لیگ کی بغاوت اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی غیر معمولی تباہی کا ذکر کیا تھا۔ اس مضمون نے بہر حال ان ایک لاکھ غیر بنگالیوں کا ذکر تو کیا جو عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترے تھے۔ مگر ایک ماہ بعد مسکیرنہیس نے اپنے اِس مضمون کو غیر موثر کرنے والی چیزیں لکھیں۔ ۱۳؍جون ۱۹۷۱ء کے شمارے میں ’’سنڈے ٹائمز‘‘ نے مسکیرنہیس کا ایک مضمون ’’پناہ گزین کیوں فرار ہوئے؟‘‘ شائع کیا۔ یہ مضمون بھارت کی وساطت سے امریکا اور کینیڈا کے مختلف اخبارات میں شائع کیا گیا۔ مضمون میں مسکیرنہیس نے پاکستانی فوج کے آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ہندوؤں کی ہلاکت کا ذکر کیا تھا۔ ہندوؤں کی ہلاکت کے ذکر کو مستند بنانے کے لیے مسکیرنہیس نے غیر بنگالی مسلمانوں کے قتل عام کا بھی ذکر کیا۔ ’’۱۹۴۷ء میں بھارت کی سرزمین چھوڑ کر مشرقی پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں غیر بنگالی خاندان بنگالی قوم پرستی کی لہر میں بڑی بے رحمی سے قتل کردیے گئے۔ عورتوں کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں۔ بچوں پر بھی قیامت گزری۔ وہ بچے ’’خوش نصیب‘‘ تھے جو والدین کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ چاٹگام، کھلنا اور جیسور جیسے بڑے قصبوں میں بیس ہزار سے زائد غیر بنگالیوں کی لاشیں ملی ہیں۔ مجھے مشرقی پاکستان کے مختلف حصوں میں بتایا گیا کہ قتل ہونے والے غیر بنگالیوں کی تعداد ایک لاکھ تک ہوسکتی ہے کہ کیونکہ ہزاروں ایسے تھے جو یوں مٹا دیے گئے جیسے اُن کا کوئی وجود تھا ہی نہیں‘‘۔
جن صحافیوں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے پہلے پندرہواڑے میں مشرقی پاکستان کا دورہ کیا تھا، ان کی مرتب کی ہوئی رپورٹس میں ان سنگین مظالم کا تفصیلی ذکر نہ تھا جو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے غیر بنگالیوں پر ڈھائے۔ سبب اس کا یہ تھا کہ وفاقی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ ایسی رپورٹس شائع ہوں جن کے ردعمل میں مغربی پاکستان میں موجود بنگالیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔
میں نے جب اپریل کے وسط میں مشرقی پاکستان سے بھاگ کر کراچی پہنچنے والے ایک دوست کی زبانی عوامی لیگ کے انسانیت سوز مظالم کے بارے میں سنا تو شدید صدمے سے دوچار ہوا۔ میں بنگالیوں کو ان کے علم اور فنون لطیفہ سے غیر معمولی شغف کی بنیاد پر احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ میں نے جب چاٹگام میں ایم آر صدیقی جیسے عوامی لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں سنا تو یقین ہی نہ آیا۔ ایم آر صدیقی کو لوگوں نے ’’چاٹگام کا قصائی‘‘ کہہ کر پکارا۔ ایم آر صدیقی کے خُسر ابوالقاسم خان وفاقی وزیر رہ چکے تھے اور ان کی دانش اور شخصی اوصاف کی بنیاد پر میں انہیں اپنے قابلِ احترام دوستوں میں شمار کرتا تھا۔
اپریل کے تیسرے ہفتے میں وفاقی وزارتِ اطلاعات نے مجھ سے کہا کہ واشنگٹن جاکر پاکستانی سفارت خانے میں تعینات ہو جاؤں اور امریکی عوام کو بتاؤں کہ مشرقی پاکستان میں وفاقی حکومت کی مداخلت کیوں ضروری تھی۔ اس دوران بھارت کی پروپیگنڈا مشینری پوری طرح متحرک ہوچکی تھی۔ امریکا میں بھارتی لابی کو بھی بھرپور فنڈنگ کی جارہی تھی اور وہ عوامی لیگ کے ہاتھوں برپا ہونے والی وسیع تباہی اور بربادی کو پاکستانی فوج کے کھاتے میں ڈل رہی تھی۔ امریکیوں کو اس بات کا یقین دلانا بے حد مشکل کام تھا کہ مشرقی پاکستان میں مارچ ۱۹۷۱ء کے دوران جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں ہزاروں غیربنگالی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ میں نے کیپٹل ہل میں ایک دوست سینیٹر کو جب عوامی لیگ کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں اور یہ بتایا کہ مشرقی پاکستان میں ہزاروں غیر بنگالی موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں تو اس نے میری طرف بے یقینی سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی یہ سب درست ہے تو پریس نے مارچ میں یہ سب کچھ کیوں شائع نہیں کیا۔
اپریل ۱۹۷۱ء کے آخر میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ایک کتابچہ شائع کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے بہاری اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دیگر غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھات اتارا۔ جب یہ کتابچہ پڑھا تو بہت سے قانون سازوں اور دیگر سیاست دانوں نے لفظ ’’بہاری‘‘ کا مآخذ دریافت کیا اور ان کا نسلی تناظر جاننے میں دلچسپی لی۔
۶ مئی ۱۹۷۱ء کو نیو یارک ٹائمز، رائٹرز، ایسوسی ایٹڈ پریس (امریکا)، ٹائم، فنانشل ٹائمز (لندن) اور نیو چائنا نیوز ایجنسی (سنہوا) کے نمائندوں نے مشرقی پاکستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے بنگالی قوم پرستوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کا جائزہ لیا۔ ان نمائندوں نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ غیر بنگالیوں پر قیامت ڈھادی گئی ہے۔ عینی شاہدین سے معلوم ہونے والی باتوں کو بنیاد بناکر انہوں نے جامع رپورٹس مرتب کیں۔ پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ان رپورٹس کے اجزا کتابچوں کی شکل میں شائع کیے۔
مغربی میڈیا کے نمائندوں کی رپورٹس کو بھارتی، امریکی اور بنگالی قوم پرست پروپیگنڈا بازوں نے جھٹلانے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ غیر بنگالیوں کی جو قبریں دکھائی گئیں، وہ دراصل بنگالیوں کی تھیں جو پاکستانی فوج کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے نئی دہلی میں غیر ملکی نامہ نگاروں کو مشرقی پاکستان میں املاک کی وسیع تباہی سے متعلق تصاویر پیش کیں اور دعویٰ کیا کہ یہ ساری تباہی پاکستانی فوج کے آپریشن کی لائی ہوئی ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ غیر بنگالیوں کی یہ املاک عوامی لیگ کے غنڈوں نے تباہ کی تھیں۔ بہت سی تصاویر خواتین کی تھیں اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ بنگالی عورتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان تصاویر کا بغور جائزہ لینے سے اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ غیر بنگالی خواتین تھیں جنہیں بے حرمتی کے بعد قتل کردیا گیا۔
بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے امریکا اور یورپ میں پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کی مہم شروع کی اور ایسی کتابیں اور کتابچے شائع کیے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالیوں اور ہندوؤں کو قتل کیا اور دو لاکھ سے زائد بنگالی لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ پروپیگنڈا ویسا ہی شدید اور بے بنیاد تھا جیسا نازی اور ہُن پروپیگنڈا تھا۔ بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے اس قدر جھوٹ بولا کہ سچ اُس کی گرد میں چھپ گیا اور مشرقی پاکستان میں مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والی قیامت کی تفصیل آج بھی ایک بھولی ہوئی کہانی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اگست ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی صورت حال پر ایک وائٹ پیپر شائع کیا جو بین الاقوامی سطح پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہا۔ یہ وائٹ پیپر خاصی تاخیر سے شائع ہوا تھا اور اس میں غیر بنگالیوں کے قتل عام کی تفصیل عمدگی سے پیش کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ اس وائٹ پیپر میں ایسے درجنوں مقامات کا ذکر نہ تھا جہاں غیر بنگالیوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
عوامی لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں بہاریوں کے بہیمانہ قتل عام کی اس پوسٹ مارٹم رپورٹ میں، حکومت عالمی برادری سے اپنی بات کہنے میں ناکام رہی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود یہ وائٹ پیپر بہت کارگر ثابت ہوا ہوتا اگر اسے اپریل ۱۹۷۱ء کے آخر میں شائع کردیا جاتا۔
نفسیاتی اسلحہ خانے میں وقت بہت بڑا ہتھیار ہے، بالخصوص اس وقت جب دشمن سچائی کو بال برابر بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے مغرب میں رائے عامہ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالی اکثریت کو پاکستانی فوج نے بے دردی سے نشانہ بنایا اور بے انتہا مظالم ڈھائے۔ مشرقی پاکستان سے بھارت کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کے معاملے کو بہت بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ بھارت نے درجنوں کتابیں شائع کیں جن میں پاکستانی فوج کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستانی پروپیگنڈا مشینری زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکی۔
وفاقی وزارتِ اطلاعات نے مشرقی پاکستان میں حالات معمول پر لانے سے متعلق ایک دستاویزی فلم تیاری کی جو مئی میں پاکستانی سفارت خانوں کو بھیجی گئی۔ یہ ایک اچھا اور بر وقت اقدام تھا، گو کہ دستاویزی فلم کو زیادہ لوگوں نے نہیں دیکھا۔ اگر فنڈز میسر ہوتے تو یہ دستاویزی فلم امریکا کے بڑے ٹی وی نیٹ ورکس پر بھی پیش کی جاسکتی تھی۔ اس دستاویزی فلم میں باغیوں کے ہاتھوں جلائے اور گرائے جانے والے مکانات دکھائے گئے تھے۔ غیر بنگالیوں کو قتل کرنے اور ایذائیں دینے کے لیے بنائے جانے والے عقوبت خانوں کا ذکر اس دستاویزی فلم میں خال خال تھا۔ عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں کی جس بہیمانہ انداز سے نسل کُشی کی اُسے اِس فلم میں کھل کر پیش نہیں کیا گیا۔
۔۔۔جاری ہے!
○○○
Leave a Reply