ڈھاکا میں قیامت
عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکا کو یکم مارچ سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک اپنی سفاک گرفت میں رکھا۔ لوٹ مار، آتش زنی اور قتل و غارت سے عبارت اس تاریک دور میں کم و بیش پانچ ہزار غیر بنگالی پاکستانیوں کو عوامی لیگ کے غنڈوں اور ان کے حامیوں نے نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا۔ اس قتل و غارت سے قبل کئی ماہ تک عوامی لیگ کی قیادت نے وفاقی حکومت سے براہِ راست تصادم کی راہ پر گامزن ہونے کی روش اپنائی تھی۔ مغربی پاکستان کے باشندوں، بہاریوں اور دیگر غیر بنگالیوں کے خلاف عوامی لیگ کے انتہا پسند کارکنوں نے اپنے حامیوں کے دلوں میں شدید نفرت بھردی تھی۔ انہوں نے شدید نسل پرستی اور ابہام پر مبنی بنگالی قوم پرستی کی راہ ہموار کی۔ پاکستان سے علیحدگی ان کا مقصد تھا مگر ملفوف۔
یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو صدر جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کے ۳ مارچ کو ہونے والے آئین ساز سیشن کے التوا کا اعلان کیا۔ اس کے چند ہی گھنٹوں بعد عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے وفاقی حکومت کے خلاف واضح بغاوت کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت (ڈھاکا) میں عام ہڑتال کا اعلان کیا تاکہ معاملات کو درہم برہم کرکے منتخب حکومت کی اتھارٹی سلب کی جاسکے۔
شیخ مجیب الرحمن نے جیسے ہی گرین سگنل دیا، عوامی لیگ کے کارکنوں نے شہر بھر میں لوٹ مار، آتش زنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ ڈھاکا کے نواح میں صنعتی قصبے نارائن گنج سے عوامی لیگ کے غنڈوں نے رائفل کلب کا اسلحہ لوٹ لیا۔ انہوں نے ڈھاکا یونیورسٹی کے دو بلاکس، اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال، کو دہشت گردی کے راج کے اہم مراکز میں تبدیل کرلیا۔
عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے ۲ مارچ کو ڈھاکا کے وسطی علاقوں بیت المکرم مسجد اور نیو مارکیٹ میں اسلحے کی دکانیں لوٹ لیں۔ یہ اسلحہ ٹرکوں میں لاد کر یونیورسٹی کیمپس لے جایا گیا، جہاں عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ کے کارکنوں نے جی بھر کے مشق کی۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے جو لاقانونیت اور دہشت پھیلائی، اس نے صوبائی انتظامیہ کو ڈھاکا کنٹونمنٹ میں تعینات فوجی دستوں کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور کردیا۔
عوامی لیگ کے غنڈوں نے عوام کو صبح سے شام تک کے کرفیو کی خلاف ورزی پر اکسایا۔ جب صدر گھاٹ کے علاقے میں ایک فوجی یونٹ پر حملہ کیا گیا تو چھ افراد ہلاک ہوئے۔ ایک فوجی دستے نے عوامی لیگ کے غنڈوں اور حامیوں کے حملے سے ٹیلی ویژن کی عمارت کو بچایا۔
عوامی لیگ نے ۳ مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں ہڑتال کی کال دی جس سے ڈھاکا میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے ڈھاکا میں نواب پور، اسلام پور اور پٹوا کھلی بازار کے علاقوں میں غیر بنگالیوں کے خلاف لوٹ مار، آتشزنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ شہر کے پوش علاقے جناح ایونیو میں غیر بنگالیوں کی متعدد دکانیں اور دفاتر لوٹ لیے گئے۔ ڈھاکا کے ایک نواحی علاقے میں غیر بنگالیوں کی ایک کچی آبادی میں پچاس جھگیوں کو آگ لگادی گئی، جس میں متعدد افراد راکھ کا ڈھیر ہوگئے۔
عوامی لیگ کی ہائی کمان کے حکم پر ڈھاکا میں ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن نے پاکستان کا قومی ترانہ بجانے کے بجائے بنگالی قومی ترانہ بجانا شروع کردیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے ڈھاکا میں پورے مشرقی پاکستان پر محیط سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا، جو بغاوت کے کھلے اعلان کے سوا کچھ نہ تھا۔ یوں عوامی لیگ نے صرف تین دنوں میں پورے مشرقی پاکستان میں دہشت کا بازار گرم کردیا، جس کا بنیادی مقصد وفاقی حکومت کا اقتدار ختم کرنا، غیر بنگالیوں کو بے دست و پا کرنا اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا تھا۔ عوامی لیگ کی ہائی کمان کے حکم پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان مواصلات اور فضائی رابطے کا نظام سلب کرلیا گیا۔ ۶ مارچ کو ڈھاکا جیل توڑ دی گئی اور اس میں سے نکل بھاگنے والے مجرموں نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور اسٹوڈنٹ ونگ کے ارکان کے ساتھ مل کر ڈھاکا کی سڑکوں پر دہشت کا راج قائم کیا۔ عوامی لیگ کے غنڈوں اور ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹ لیگ کے کارکنوں نے ڈھاکا کی گورنمنٹ سائنس لیبارٹری اور پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے دھماکا خیز کیمیکلز لوٹ لیا تاکہ بم بنائے جاسکیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے سلیم اللہ مسلم ہال کے بغاوت پر تُلے ہوئے طلبہ نے برٹش کونسل کے دفتر کو جلانے کی کوشش کی تاہم فوجی دستے بر وقت پہنچ گئے اور انہیں منتشر کردیا۔ عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں اور طلبہ ونگ کے کارکنوں نے اسلحے کے زور پر غیر بنگالیوں کی جیپیں، کاریں اور چھوٹی بسیں چھین لیں۔ ڈھاکا کے اندر حساس مقامات پر اور شہر سے باہر ایئر پورٹ کے نزدیک عوامی لیگ کے غنڈوں نے چیک پوسٹیں قائم کرکے آنے جانے والوں کو پریشان کرنا شروع کردیا۔ پناہ کی تلاش میں نکلنے والے غیر بنگالیوں سے نقدی، زیورات، گھڑیاں، ریڈیو اور دیگر قیمتی سامان چھیننے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے ۷ مارچ کو رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں وفاقی حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اسٹیج پر مجوزہ بنگلہ دیش کا پرچم بھی لہرایا گیا جس میں گہرے سبز بیکگراؤنڈ میں ایک سُرخ دائرہ رکھا گیا تھا۔ جذبات سے لبریز ہجوم نے جے بنگلہ (بنگال زندہ باد) اور بنگلہ دیش شادھین (آزاد بنگال) کے نعرے لگائے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں کی شہ پاکر ہجوم نے پاکستان، پاکستان کے صدر، مشرقی پاکستان کے نئے گورنر جنرل ٹکا خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے لوگوں نے ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا بنگلہ قوم پرستی کا مظہر ایک گیت ’’سونار بنگلہ‘‘ بھی گایا۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کے خلاف ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران عوامی لیگ نے متوازی حکومت بھی قائم کی۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے باشندوں سے کہا کہ وہ وفاقی حکومت کو ٹیکس ادا کرنا بند کردیں اور سڑکیں بلاک کریں تاکہ فوج کی نقل و حرکت میں رکاوٹ پیدا ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ فوج ریل روڈ اور فضائی رابطوں سے مستفید نہ ہوسکے۔ عوامی لیگ نے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں، ٹیلی مواصلات کے نظام، بینکاری نظام اور رقوم کی منتقلی کے نظام کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے لیبر یونینوں، دیہات اور شہری علاقوں میں انقلابی ایکشن گروپ تشکیل دینے کی ہدایت کی تاکہ وفاقی حکومت کی اتھارٹی مکمل طور پر ختم کی جاسکے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ عوامی لیگ انتہائی نسل پرستانہ بنگالی قوم پرستی کو ہوا دے کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ ریاست بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھی۔
لندن کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے کینتھ کلارک نے ۹ مارچ ۱۹۷۱ء کو اپنے ڈسپیچ میں لکھا۔ ’’اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ ۷ مارچ کو پورا ڈھاکا شدید لاقانونیت کی زد میں رہا اور شیخ مجیب الرحمن نے ملک سے الگ ہونے کا اعلان تقریباً کر ہی دیا‘‘۔
۱۱ سے ۱۵ مارچ تک عوامی لیگ نے ڈھاکا میں اپنی متوازی انتظامیہ کو مزید مستحکم کیا۔ ۱۵ مارچ کو صدر جنرل یحییٰ خان شیخ مجیب الرحمن سے آئینی مذاکرات کے لیے ڈھاکا پہنچے۔ کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے غیر بنگالیوں کو لوٹنے کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہا، بلکہ اُس میں شدت آگئی۔
عوامی لیگ کے غنڈوں نے ڈھاکا ریلوے اسٹیشن پر غیر بنگالی مسافروں کو چیکنگ کے بہانے پریشان کرنا شروع کردیا۔ ڈھاکا میں ککریل کے مقام پر ایک سرکاری دفتر کو آگ لگادی گئی۔ جن سرکاری دفاتر میں چند باضمیر ملازمین اب بھی کام کر رہے تھے انہیں شدید خوفزدہ کرنے کے لیے کیمیائی اجزا سے بنائے ہوئے بوتل بم پھینک کر آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ عوامی لیگ کے قائم کردہ انقلابی ایکشن گروپ کے مسلح غنڈوں نے مالدار غیر بنگالیوں سے خطیر رقوم اینٹھنا شروع کردیں۔
۱۶ سے ۲۳ مارچ تک جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان آئینی مذاکرات چلتے رہے اور دوسری طرف ڈھاکا میں عوامی لیگ کی متوازی انتظامیہ کو مستحکم کیا جاتا رہا۔ عوامی لیگ کے کارکنوں کو مختلف مراکز پر اسلحہ چلانے کی تربیت دی جاتی رہی۔ غیر بنگالیوں کے مکانات پر چھاپوں میں تیزی آگئی۔ ڈھاکا کے ایک علاقے میں چند مسلح عسکریت پسندوں نے ایک فوجی جیپ پر حملہ کرکے چھ فوجیوں کو اغوا کرلیا۔ شہر میں پولیس کے اسلحہ ڈپو سے بندوقیں لوٹ لی گئیں۔ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے ڈھاکا کنٹونمنٹ میں فوجیوں کو غذائی اجناس فراہم کرنے پر بھی پابندی عائد کردی۔
عوامی لیگ کی ہائی کمان نے یوم پاکستان (۲۳ مارچ) کو یوم مزاحمت کے طور پر منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ ڈھاکا کی تمام سرکاری اور نجی عمارتوں پر عوامی لیگ کے غنڈوں نے پاکستان کے قومی پرچم کے بجائے مجوزہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا۔ شیخ مجیب الرحمن نے اپنے گھر پر مارچ پاسٹ کرنے والوں سے سلامی لی۔ ان کے گھر پر بھی مجوزہ بنگلہ دیش کا پرچم ہی لہرایا گیا۔ عوامی لیگ نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے شہر بھر کے ان علاقوں میں خاص طور پر مارچ کیا اور نعرے لگائے جہاں غیر بنگالیوں کی زیادہ تعداد آباد تھی۔
ڈھاکا کے جس صدارتی مینشن میں صدر جنرل یحییٰ خان مقیم تھے اس کے باہر عوامی لیگ کے کارکن مظاہرہ کرکے نعرے لگاتے اور صدر و فوج کو گالیاں دیتے رہے۔ عوامی لیگ کے جو غنڈے غیر بنگالی تاجروں کو اغوا کرکے تاوان میں خطیر رقوم اینٹھتے تھے اور غیر بنگالیوں سے چھینی ہوئی گاڑیوں میں سفر کرتے تھے، وہ شام کے وقت شیخ مجیب الرحمن کے گھر کے باہر جمع ہوکر مجوزہ بنگلہ دیش کے حق میں نعرے بازی کرتے تھے۔
۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے ڈھاکا میں چینی قونصلیٹ پر مجوزہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرانے کی کوشش کی مگر چینی حکام نے ایسا کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا، جس پر ان کا عوامی لیگ کے غنڈوں سے تصادم ہوا اور صورتِ حال کشیدہ ہوگئی۔ عوامی لیگ کے بہت سے مظاہروں کے شرکا نے قومی پرچم کو پھاڑ کر بے توقیر کیا اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی تصاویر پھاڑ کر پیروں تلے روند ڈالیں۔
عوامی لیگ نے ایک ہفتے تک ایسٹ پاکستان رائفلز اور نیم فوجی انصار فورس سے منحرف ہوکر آنے والوں کی مدد سے عسکری ونگ کو مضبوط کرنے پر توجہ دی۔ اس دوران بھارت نے بھی اسلحے کی فراہمی جاری رکھی اور اس کے سیکڑوں ایجنٹس عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی صفوں میں شامل ہوکر مشرقی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ ڈھاکا کی حدود اور نواح میں غیر بنگالیوں کی سیکڑوں جھونپڑیوں کو آگ لگادی گئی۔
ڈھاکا یونیورسٹی کیمپس کو عوامی لیگ کے غنڈوں نے دہشت کے مرکز کے طور پر استعمال کیا اور اس کی لیبارٹریز میں مختلف دھماکا خیز اشیا تیار کی جاتی رہیں۔ جگن ناتھ ہال کا ایک حصہ غیر بنگالی مغویوں کو ایذائیں دینے اور قتل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ڈھاکا سمیت مشرقی پاکستان کے تمام شہروں میں غیر بنگالیوں پر مظالم، آتشزنی کے واقعات اور قتل عام نے وفاقی حکومت اور ڈھاکا میں فوج کی مشرقی کمان کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا۔ عوامی لیگ کے کارکن اور اسٹوڈنٹ ونگ کے ارکان جو سائیکلو اسٹائل پرچے ڈھاکا اور دیگر شہروں میں تقسیم کیا کرتے تھے، بہت حد تک فوجی فرامین کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ ان ہینڈ بلز میں لوگوں کو مشرقی بنگال میں آزاد بنگلہ ریاست (بنگلہ دیش) کے قیام کی تحریک و ترغیب دی جاتی تھی اور انہیں اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے بھی اکسایا جاتا تھا۔
عوامی لیگ کے غنڈوں نے ڈھاکا میں پولیس ہیڈ کوارٹرز سے پندرہ ہزار لوڈیڈ بندوقیں لوٹ لیں۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکا کے بیشتر علاقوں میں رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑکیں بند کردی گئیں۔ شہر کے مختلف تعلیمی اداروں کی لیبارٹریز سے چرائے اور لوٹے ہوئے کیمیکلز اور پٹرولیم کی مدد سے بنائے جانے والے بم شہر کے مختلف علاقوں میں پھٹتے رہے۔
عوامی لیگ نے ۲۵ مارچ کی شب کو اپنی طاقت کے بھرپور مظاہرے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ اسی رات باضابطہ بغاوت کا اعلان بھی کیا جانا تھا۔ ایسے میں فوج کے چند یونٹس نے ڈھاکا کنٹونمنٹ سے نکل کر برق رفتاری سے چند پیشگی حملے کیے اور بغاوت کو کم از کم ڈھاکا کی حد تک تو کچل کر رکھ دیا۔ عوامی لیگ ایک طرف تو وفاقی حکومت سے بات چیت کر رہی تھی اور دوسری طرف اس نے اسلحہ لوٹ کر خود کو مضبوط کرنے کی روش بھی ترک نہیں کی تھی۔ فوج نے بنگالی باغیوں کے خلاف کارروائی کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ حقائق سے بے خبر نہیں تھی۔
○○○
Leave a Reply