ستمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند رجحانات اور تحریک سے متعلق کتاب ’’دی گریٹ ٹریجڈی‘‘ (عظیم المیہ) کے عنوان سے لکھی جس میں اُنہوں نے مشرقی پاکستانی کے بحران کی اصل وجوہ، مآخذ، عوامی لیگ کی قیادت کے علیحدگی پسند رجحانات، آئینی مذاکرات میں شیخ مجیب الرحمن کے غیر لچکدار رویّے اور متحدہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل گرینڈ الائنس تشکیل دینے سے متعلق پیپلز پارٹی کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔ اپنی جماعت کے آئینی کردار کی توضیح سے متعلق ذوالفقار علی بھٹو کا موقف بالکل درست اور خاصا قوی تھا۔ ’’دی گریٹ ٹریجڈی‘‘ کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں حیثیت دی جانی چاہیے تھی مگر ہماری بدقسمتی کہ ایسا نہ ہوسکا۔
نومبر ۱۹۷۱ء میں اقوام متحدہ سے وطن واپسی کے بعد میں نے حکمراں جرنیلوں میں سے ایک سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ نے جس بڑے پیمانے پر غیر بنگالیوں کی قتل و غارت کی ہے، اس کے بارے میں حقائق پر مشتمل کتاب جلد از جلد شائع کی جانی چاہیے۔ مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ عوامی لیگ نے کیا تھا، اس کے بارے میں عینی شاہدین کے بیانات پر مشتمل چند ایک ٹھوس شواہد بھی اکٹھے کیے جاچکے تھے مگر تب تک ہمارے جرنیل بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان پر حملے کے حوالے سے متفکر تھے اور فل اسکیل جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
میں نے ۱۹۷۲ء کے اوائل میں سابق مشرقی پاکستان سے بچ کر آنے والے چند غیر بنگالی خاندانوں سے ملاقات کی جنہوں نے کراچی پہنچ کر اورنگی ٹاؤن کی جھگیوں میں پناہ لی تھی۔ اُنہوں نے غیر بنگالیوں پر عوامی لیگ کے غنڈوں کے انسانیت سوز مظالم کی جو داستانیں سُنائیں، وہ دِل و دِماغ کو شدید صدمے سے دوچار کرنے والی تھیں۔ جو کچھ اُنہوں نے بیان کیا، اُس سے اندازہ ہوا کہ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء میں سب سے پہلے عوامی لیگ کے کارکنوں، ایسٹ پاکستان رائفلز اور ایسٹ بنگال رجمنٹ کے باغیوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ اس کے بعد اقتدار کی ہوس میں گلے تک ڈوبے ہوئے بے لگام سیاسی کارکنوں نے غیر بنگالیوں کو تہِ تیغ کرنا شروع کردیا۔ یہ سب کچھ اقتدار کے لیے عوامی لیگ کی ہوس کا شاخسانہ تھا۔ میں عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں کتاب لکھنا چاہتا تھا مگر مجھے سابق مشرقی پاکستان کے تمام شہروں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے غیر بنگالیوں کے بیانات سُننے یا جاننے کا موقع نہیں ملا۔
اِس دوران میں نے اپنی کتاب ’’مشن ٹو واشنگٹن‘‘ پر کام شروع کردیا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کی شکست و ریخت کے لیے امریکا میں بھارت کی لابنگ کو بے نقاب کرنا تھا۔ میں نے اپنی معلومات کی روشنی میں یہ کتاب لکھی جس میں بتایا گیا کہ بھارت نے کس طور امریکی رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف کیا اور پھر ۱۹۷۱ء کی جنگ کی تیاریوں کے دوران پاکستانی فوج کے لیے امریکی دفاعی سپلائیز روک دی گئیں۔ یہ کتاب جنوری ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی۔
برطانیہ کے معروف صحافی اور مصنف پروفیسر رش بروک ولیمز کی کتاب ’’دی ایسٹ پاکستان ٹریجڈی‘‘ ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی جس میں سابق مشرقی پاکستان کے بحران کے سیاسی پہلو کا بہت عمدگی اور تفصیل سے تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان کا کیس خاصے زور دار انداز سے پیش کیا گیا تھا۔
میجر جنرل فضل مقیم کی کتاب ’’لیڈر شپ اِن کرائسز‘‘ بھی ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی جس میں سابق مشرقی پاکستان کے بحران کے سیاسی اور عسکری پہلو کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا، بنگالی علیحدگی پسندوں کے لیے بھارتی امداد اور ۱۹۷۱ء میں بھارت سے تباہ کن جنگ کا بھی تجزیہ کیا گیا۔
مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد سے بھارت کی پروپیگنڈا مشینری جس قوت سے پاکستان کے خلاف کتابیں اور رپورٹیں شائع کرتی رہی تھی، اس کے جواب میں پاکستان کا ردعمل خاصا سُست اور نیم دِلانہ تھا۔ ۱۹۷۳ء کے موسم گرما اور موسم خزاں میں جب میں نے امریکا، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ کے کئی ممالک کے دورے کیے، تب وہاں غیر ملکی مطبوعات فروخت کرنے والے بیشتر بک اسٹورز میں پاکستان اور بالخصوص پاکستانی فوج کے بارے میں اہانت آمیز کتابیں دیکھیں۔ ان میں سے دو کتابوں نے مجھے مشتعل کردیا۔ ایک تو بھارت کے میجر جنرل ڈی کے پالٹ کی لکھی ہوئی ’’دی لائٹننگ کیمپین‘‘ تھی جس میں پاکستانی فوج کو مغلظات بکنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تھا۔ دوسری کتاب اولگا اولسن کی ’’ڈوکٹور‘‘ تھی جس میں بنگالیوں پر پاکستانی فوج کے مبینہ مظالم کی روداد بیان کرنے کے معاملے میں غیر معمولی مبالغے سے کام لیا گیا تھا۔ میں نے بنگلہ دیش سے متعلق دستاویزات کے اُس ذخیرے پر بھی نظر ڈالی جو بھارت نے امریکا میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ ان دستاویزات میں بھارت کو امن کے فرشتے کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا جو سابق مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے مبینہ مظالم کے سامنے منہ بند کیے کھڑا تھا۔ علیحدگی پسند باغیوں کے ہاتھوں بہاریوں اور دیگر غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے بارے میں ایک بھی کتاب میں نے مغربی بک اسٹورز میں نہیں دیکھی۔
۱۹۷۳ء کے خزاں تک امریکا اور مغربی یورپ میں یہ تاثر عام تھا کہ بہاریوں نے مارچ ۱۹۷۱ء میں بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مبینہ مظالم میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا، اس لیے دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستانی فوج کی شکست اور ہتھیار ڈالنے کے بعد بنگالیوں کا غیر بنگالیوں اور بالخصوص بہاریوں پر ظلم ڈھانا فطری اور قرین انصاف تھا۔
مشرق وسطیٰ میں بیشتر صحافی اور سیاست دان گو کہ پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں مگر جب میں وہاں گیا تو مجھ سے کئی افراد نے پوچھا کہ کیا انہوں نے سابق مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے کریک ڈاؤن کے بارے میں جو کچھ سنا ہے، وہ درست ہے؟ کیا سفاکی واقعی پاکستان کی نفسیاتی ساخت کا حصہ ہے؟ میں اُن شکوک کا اظہار دیکھ کر حیران رہ گیا، جن کی آبیاری بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے ہمارے دینی بھائیوں تک کے ذہنوں میں کردی ہے۔
ستمبر ۱۹۷۳ء میں پاکستان میں مقیم بنگالیوں اور بنگلہ دیش میں مقیم غیر بنگالیوں کا تبادلہ اور بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا۔ یہ سب کچھ نیو دہلی معاہدے کے تحت ہو رہا تھا۔ مشرقی پاکستان سے آنے والے غیر بنگالی پاکستانیوں کی دوبارہ آباد کاری سے متعلق سرکاری کمیٹی کا چیئرمین ہونے کے ناتے میں نے اورنگی ٹاؤن میں قائم عارضی بستیوں میں سیکڑوں غیر بنگالیوں سے ملاقات کی اور ان کی زبانی جو کچھ سننے کو ملا، اُس کی بنیاد پر میں نے اندازہ لگایا کہ عوامی لیگ اور اس کے عسکری بازو مکتی باہنی کے غنڈوں نے مارچ اور اپریل ۱۹۷۳ء میں کم و بیش پانچ لاکھ غیر بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان لوگوں نے مارچ ۱۹۷۱ء اور پھر دسمبر ۱۹۷۱ء میں بھارتی فوج کے حملے کے بعد ڈھائے جانے والے مظالم کی جو داستانیں سنائیں، وہ رونگٹے کھڑے کرنے والی تھیں۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری نے اِن روح فرسا کہانیوں کو دبا دیا تھا۔ میں نے تب ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے ہاتھوں غیر بنگالیوں اور دیگر محب وطن پاکستانیوں پر جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے ہیں، ان کی تفصیل دنیا کے سامنے آنی ہی چاہیے۔ یہ کتاب اِسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔
میں نے اس کتاب میں چشم دید گواہوں کے جو ۱۷۰؍ بیانات شامل کیے ہیں، وہ دراصل پانچ ہزار ستم رسیدہ گھرانوں کی داستان الم سے چُنے گئے ہیں۔ خاصی تحقیق کے بعد میں نے یہ رائے قائم کی کہ سابق مشرقی پاکستان میں ۵۵ شہر اور قصبے ایسے تھے، جن میں غیر بنگالی آبادیوں کو روح فرسا مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہ شہر اور قصبے تھے جن میں مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران غیر بنگالیوں کی ہلاکتیں اور ان کی املاک کی لوٹ مار غیر معمولی رہی۔ میں نے جن غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق بیانات اور شہادتیں جمع کرنے کا کام جنوری ۱۹۷۴ء میں شروع کیا، وہ بارہ ہفتوں میں مکمل ہوا۔ مظالم کا نشانہ بننے اور غیر بنگالیوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کے بیانات اور شہادتیں ریکارڈ کرنے کا کام چار رپورٹرز کی ٹیم کو سونپا گیا، جنہوں نے غیر معمولی جفا کشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کام پوری ایمانداری سے انجام دیا۔ بہت سے انٹرویو خاصے طویل ہوگئے تھے کیونکہ لوگ اپنے دکھوں کا بیان کرتے کرتے آنسوؤں میں ڈوب جاتے تھے اور ان کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔ میں نے فروری ۱۹۷۴ء میں اخبارات کے ذریعے اپیل کی تھی، جو جو غیر بنگالی کسی نہ کسی طور پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، وہ مظالم سے متعلق اپنی شہادتیں ریکارڈ کرائیں۔ سیکڑوں افراد نے اس کام میں دلچسپی لی اور میں ان کا شکر گزار ہوں۔
عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے مظالم کا نشانہ بننے والوں کے انٹرویو اور بیانات ایک باضابطہ پروفارما پر ریکارڈ کیے گئے تھے اور ان کے دستخط بھی لیے گئے تھے۔ کسی بھی عینی شاہد کے بیان کو ریکارڈ کرتے وقت میں نے کئی باتوں کا خاص خیال رکھا۔ مثلاً یہ کہ اس کا پس منظر کیا ہے، وہ حقائق کو کس حد تک بیان کرسکتا ہے اور اس کی بات کس حد تک صداقت پر مبنی ہے۔ میں نے اس دور کے ریکارڈ، دستاویزات اور اخبارات کی کلپنگز کے ڈھیر کو کھنگال کر بھی بہت کچھ جاننے کی کوشش کی۔ زیر نظر کتاب میں میرا زور اس بات پر رہا ہے کہ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں اور بالخصوص بہاریوں پر جو مظالم ڈھائے، ان کی تفصیل سامنے آئے۔ تاہم عوامی لیگ اور مکتی باہنی نے دسمبر ۱۹۷۱ء کے تیسرے ہفتے میں بھارتی فوج کے حملے اور مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کے قبضے کے بعد جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے، ان کا بھی کچھ ذکر یہاں آگیا ہے۔ ویسے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بیان کرنے کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔
مُجھے اِس بات کا دُکھ رہے گا کہ میں نے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق جو بیانات ریکارڈ کیے، وہ سب کے سب اس کتاب کا حصہ نہیں بن سکے۔ جن والدین کے سامنے اولاد کو، جن خواتین کے سامنے اُن کے شوہروں کو قتل کردیا گیا، جن لڑکیوں کو اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور جو لوگ باغیوں کے قائم کردہ سلاٹر ہاؤس سے کسی نہ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، اُن کے بیانات کو میں نے اس کتاب میں ترجیحاً شامل کیا ہے۔ مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ مظالم کتنے گھناؤنے تھے اور کس درجے کی سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا۔ میں نے اُن عینی شاہدین کو ترجیح دی جن کا بنگلہ دیش میں کوئی عزیز باقی نہ رہا تھا۔
میں نے اس کتاب میں اُن بنگالیوں کی اعلیٰ ظرفی اور عالی ہمتی کا بھی ذکر کیا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر غیر بنگالی پڑوسیوں اور دوستوں کو بچایا، اپنے گھر میں پناہ دی۔ میں نے بیانات، شہادتوں اور اخباری کلپنگز کے ایک بڑے ڈھیر کو اچھی طرح پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سابق مشرقی پاکستان کے اصل باشندوں یعنی بنگالیوں کی اکثریت کسی بھی حالت میں اُن مظالم کے ڈھائے جانے کے حق نہیں نہ تھی، جو غیر بنگالیوں پر عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے ڈھائے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ خاموش اکثریت ملک کی شکست و ریخت پر تُلی ہوئی اُس اقلیت کے سامنے بے بس تھی جو انتہائی سفاک، بے لگام اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے مالیاتی وسائل بھی رکھتی تھی۔
ساتھ ہی ساتھ میں، بھرپور سنجیدگی اور قوت سے یہ نکتہ بھی بیان کردینا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کے ضبطِ تحریر میں لانے کا بنیادی مقصد کسی بھی سطح پر یہ نہیں کہ بنگالی بولنے والوں کا نسلی بنیاد پر مواخذہ کیا جائے۔ اِس کتاب کی تیاری کے دوران کسی بھی مرحلے پر مجھے اِس خبط نے اپنے حصار میں نہیں لیا کہ میں اپنے سابق بنگالی ہم وطنوں کو مطعون کروں۔ پاکستان سے وفاداری کسی بھی شرط پر ترک نہ کرنے کی پاداش میں سیکڑوں، بلکہ ہزاروں بنگالی اب بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ جس طرح نازیوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے لیے پوری جرمن قوم کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، بالکل اُسی طرح عوامی لیگ کے عسکریت پسندوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کے لیے تمام بنگالیوں کو مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
ایک نسل کی حیثیت سے میں بنگالیوں کو غیر معمولی لیاقت کا حامل سمجھتا اور بلند درجے پر رکھتا ہوں۔ ۷۱۔۱۹۷۰ء کے موسم سرما کے دوران سابق مشرقی پاکستان میں آنے والے سمندری طوفان میں شدید تباہی سے دوچار ہونے والے افراد کے لیے میں نے حکومتِ سندھ کی قائم کردہ ریلیف کمیٹی کے سیکرٹری کی حیثیت سے نقدی اور اشیا کی شکل میں کم و بیش دس لاکھ روپے کی امداد کا اہتمام کیا تھا۔
وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے۔ اللہ سے امید ہے کہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ذہنی اور روحانی ہم آہنگی کے حوالے سے ایک کردے گا۔ میں بنگالی مسلمانوں کو جس حد تک جانتا ہوں، اُس کی روشنی میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ملک کے دو لخت ہوجانے کے باوجود عالمگیر اسلامی برادری کا حصہ رہیں گے۔ یہ کتاب ایک ایسے وقت میں شائع ہو رہی ہے، جب پاکستان میں بسے ہوئے بنگالیوں کو بنگلہ دیش کا آپشن اختیار کرنے پر اُن کے وطن بھیجا جارہا ہے اور اُن کے خلاف غیر معمولی ردعمل کا خطرہ بالکل ختم ہوچکا ہے۔
سابق مشرقی پاکستان سے آنے والے بہاری اور دیگر غیر بنگالی مسلمانوں کو دوبارہ آباد کرنا، اب ہماری اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اُنہوں نے مظالم اِس لیے سہے کہ اُن کے والدین یا اولادیں نظریۂ پاکستان کے حامل اور وفادار تھے اور اُن میں سے بہتوں نے پاکستان کے لیے اپنا خون دیا۔ ایک عظیم المیے سے دوچار ہونے کی بنیاد پر وہ ویسے بھی ہماری بھرپور ہمدردی اور مدد کے مستحق ہیں، تاکہ ان کی بکھری ہوئی زندگی ایک بار پھر جمع ہوسکے اور وہ بھرپور انداز سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ سابق مشرقی پاکستانی میں شدیدترین سفاکی سے دوچار ہونے والوں کی داستانیں اس کتاب میں رقم کرتے ہوئے میں بھی بہت دکھی ہوں۔ ان کی کہانی بہت درد ناک اور بہت حد تک غیر بیان شدہ ہے۔ بہت کچھ ہے جو پہلی بار منظر عام پر آ رہا ہے۔ اُن کے زخم ابھی پوری طرح بھرے نہیں ہیں۔ اُن کی یادوں میں بہت کچھ تازہ ہے۔ ’’بلڈ اینڈ ٹیئرز‘‘ مارچ اور اپریل ۱۹۷۱ء کے دوران بہنے والے خون کے دریا کی کہانی ہے، جب عوامی لیگ نے غیر بنگالیوں کے خلاف اپنے شدید اشتعال اور سفاک رویوں کا پَٹّہ کھولا تھا۔ یہ اُن آنسوؤں کی بھی کہانی ہے جو ہم بے قصور انسانوں کی موت اور بھارت کے ہاتھوں اپنا ایک بازو الگ کر دیے جانے پر مدتوں بہاتے رہیں گے۔
(۳۰ مئی ۱۹۷۴ء)
Leave a Reply