دنیا بھر میں بے اولاد افراد کے لیے بیضہ، نطفہ اور اُن سے جڑی ہوئی دیگر اشیا کو تجارتی مال کی حیثیت دیے جانے سے تولید اور خونی تعلق سے متعلق ہمارے تصورات اور معیارات یکسر تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں۔ کل تک جس شعبے کو خالصتاً قدرت کا میدان تصور کیا جاتا تھا، وہ اب انتخاب کا معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ تولید سے متعلق اشیا کی تجارت اب کسی سرحد کو نہیں جانتی۔ عرفِ عام میں اِن اشیا کو بایومٹیریل کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بایو مٹیریل کی سب سے بڑی خریدار غیر شادی شدہ یا تنہا زندگی بسر کرنے والی خواتین ہیں۔ یہ خواتین کسی مرد کا براہِ راست احسان لیے بغیر ماں بننا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بایومٹیریل یعنی بیضہ یا نطفہ خرید کر اپنے رحم میں داخل کراتی ہیں اور ماں بن جاتی ہیں۔ اس رجحان سے ایک طرف تو خواتین کا روایتی کردار متاثر ہو رہا ہے اور دوسری طرف خاندانی زندگی کا شیرازہ بہت بُری طرح بکھر رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تولید سے متعلق ٹیکنالوجی سے مدد لینے کا رجحان محض اخلاقی خرابیوں کی نشاندہی کر رہا ہے یا پھر معاملہ یوں بھی ہے کہ معاشرے میں جن کا کردار اب تک بہت ٹھوس اور بالادست رہا ہے وہ خطرے میں ہیں؟
برازیل کے معاملات پر نظر دوڑایے تو حیرت انگیز حقائق سامنے آتے ہیں۔ سوال صرف تولید کا نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بے اولاد جوڑے یا تنہا زندگی بسر کرنے والی خواتین اولاد کی خاطر نطفہ حاصل کرتی ہیں۔ نیشنل ہیلتھ سرویلنس ایجنسی نے چند برس کے معاملات کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ افزودہ بیضہ اور نطفے کے معاملے میں کاکیشیا کے مردوں کو اولیت دی جارہی ہے۔ سوال صرف اُن کی گوری چمڑی کا نہیں، آنکھوں کا رنگ بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کاکیشیائی مردوں میں بھی سب سے زیادہ یعنی ۵۲ فیصد طلب اُن مردوں کے نطفے کی ہے جن کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے۔ ہری آنکھوں والے مردوں کے نطفے کی طلب محض ۱۳ فیصد ہے۔ ۲۴ فیصد طلب بھوری یا کتھئی آنکھوں والے مردوں کے نطفے کی ہے۔
یہ تمام حقائق ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ برازیل میں جلد کا عمومی رنگ خاصا گہرا ہے۔ سفید فام نسل کے لوگوں کو خاصی مرعوبیت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں کئی چیزیں گردش کر رہی ہیں۔ خواتین محض اولاد نہیں چاہتیں بلکہ سفید فام اولاد چاہتی ہیں، جو انتہائی خوبصورت بھی ہو۔ نسلی تفاخر چونکہ نفسی ساخت کا حصہ ہے اس لیے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ لوگوں کے ذہنوں میں بات کیل کی طرح ٹُھنکی ہوئی ہے کہ نسل اور رنگ ہی سب کچھ ہے۔ دنیا بھر میں آج بھی سفید فام نسل کے لیے بلا جواز اور یکسر غیر ضروری احترام پایا جاتا ہے۔ لوگ جلد کا رنگ دیکھتے ہیں۔ باقی سب کچھ بعد میں آتا ہے۔ میں برازیل کی ہوں اس لیے برازیلی معاشرے کی اس خامی یا کمزوری کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں کہ لوگ جلد کی گوری رنگت کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ جس کی جلد سفید ہو اُسے لوگ زندگی بھر مرعوبیت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اُسے ہر معاملے میں ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ تعلیم اور کیریئر دونوں معاملات میں بہتر امکانات سے ہم کنار ہوتا ہے۔
برازیل بھی ان معاشروں میں سے ہے، جن میں خوبصورتی کا معیار یہ ہے کہ انسان کی جلد کا رنگ سفید ہو، آنکھیں نیلی ہوں اور بال گہرے کالے یا پھر سنہرے۔ جہاں خوبصورتی کا معیار جلد کا سفید رنگ ہو وہاں باقی سب کچھ ایک طرف دھرا رہ جاتا ہے۔ یہ نو آبادیاتی دور کی پیدا کردہ سوچ ہے۔ سفید فام قوتوں نے امریکا میں یہ سوچ پیدا کی کہ غیر سفید نسلیں خوبصورت ہوتی ہیں نہ ذہین۔ ذہانت کو بھی نسل اور رنگ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ کروڑوں بچے اس سوچ کے ساتھ بڑے ہوئے کہ ان کی جلد کا رنگ سفید نہیں، اس لیے وہ نہ تو ذہین ہیں نہ خوبصورت۔ جب ذہن میں یہ بے بنیاد تصور راسخ ہوچکا ہو تو کسی بھی بہتری کی کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ برازیلی معاشرے میں سفید فام لوگ آج بھی غیر معمولی طور پر مستحکم ہیں۔ طاقت کے تمام مراکز پر ان کا تصرف ہے۔ وہ بہترین مادی وسائل سے ہمکنار ہیں۔ ایوان ہائے اقتدار تک ان کی دسترس ہے۔ کاروباری معاملات میں وہ آگے ہیں۔ ان کے مکانات شاندار ہیں۔ وہ قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔
برازیلی معاشرے میں سفید فام نسل کے لوگوں کو جو برتری حاصل ہے وہ یونہی حاصل نہیں ہوگئی۔ اس کے پیچھے عشروں کی محنت کارفرما ہے۔ عوام کو ایک طویل عمل کے ذریعے باور کرایا گیا ہے کہ وہ کمتر ہیں اور سفید فام نسل کے لوگ برتر ہیں۔ تعلیم، کاروبار اور اقتدار جیسے نمایاں ترین معاملات میں غیر سفید فام لوگوں کو یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ یہ تمام معاملات سفید فام لوگوں کے لیے ہیں یعنی ان پر سر زیادہ نہ کھپایا جائے۔ بالکل اِسی طور برازیلی معاشرے میں اکثریت کو یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ خوبصورتی، اقتدار اور اطوار کے معاملے میں سفید فام نسل کی برابری نہیں کی جاسکتی۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ فیشن آئے گا تو سفید فام لوگوں کی طرف سے اور شائستگی کا مظاہرہ کریں گے تو سفید فام نسل کے لوگ۔ سفید فام نسل کے لوگوں نے اشرافیہ کا درجہ حاصل کرتے ہوئے ایک ایسا ماحول تیار کیا ہے، جس میں غیر سفید فام نسل کے لوگ خود کو کمتر ہی سمجھتے رہتے ہیں۔ اور جو خود کو کمتر سمجھتے ہیں وہ مرعوبیت کے ساتھ جیتے ہیں، زندگی کو پورے اعتماد کے ساتھ اپنا نہیں سکتے اور غلامانہ ذہنیت کو اپنا مقدر سمجھ لیتے ہیں۔
برازیلی معاشرے کے لیے بہت کچھ انیسویں صدی کے خاتمے کے وقت رونما ہوا۔ غلامی کے باضابطہ خاتمے نے برازیلی معاشرے میں لاکھوں سیاہ فام باشندوں اور ان کے اہل خانہ کو شہریت کے حقوق عطا کیے۔ اب سفید فام لوگوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ معاشرہ سیاہ فام ہو جائے گا۔ ابتدائی اقدام کے طور پر ایشیا اور افریقا سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ یورپ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو لاکر برازیل میں آباد کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ معاشرے کو سفید فام بنایا جاسکے۔ برازیل میں ۳۷۵ برس میں ۲۱ لاکھ سیاہ فام غلام لائے گئے تھے۔ ۱۹۲۰ء اور ۱۹۴۰ء کے دوران محض ۳۰ سال کی مدت میں یورپ سے ۲۱ لاکھ محنت کشوں کو لاکر برازیل میں آباد کیا گیا۔ مقصود صرف یہ تھا کہ برازیل سیاہ فام معاشرہ نہ رہے، سفید نسل کے اختیاط سے صاف رنگت کی نسل پیدا ہو۔
آج کا برازیل افریقا سے باہر سب سے بڑا سیاہ فام معاشرہ ہے۔ مگر خیر، اسے سفید فام معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوششیں ترک نہیں کی گئیں۔ آج بھی بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ مختلف النسل لوگوں میں شادیاں ہوں تاکہ بہتر رنگت کی اولاد پیدا ہو۔ برازیل میں سیاہ فام یا ملی جلی رنگت کے بچوں کی کمی نہیں مگر اس خصوصیت کو ختم کرنے والے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ نیلی آنکھوں والے سفید فام نسل کے لوگوں کے نطفے اور افزودہ بیضے درآمد کرنے کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ خواتین کے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی ہے کہ انہیں سفید فام یا صاف رنگت کے بچے پیدا کرنے ہیں۔ خواتین بھی جانتی ہیں کہ بچہ صاف رنگت کا ہوگا تو اُس کے لیے بہتر زندگی بسر کرنے کے امکانات قوی تر ہوں گے۔ برازیلی معاشرے میں سفید فام نسلوں کے لوگوں کو آج بھی مرعوبیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ اُنہیں عقلی طور پر برتر سمجھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خواتین کے ذہنوں میں بھی یہ بات بس گئی ہے کہ اُنہیں صاف رنگت کی نسل پیدا کرنی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Brazil’s racialised sperm economy”. (“aljazeera.com”. May 5, 2018)
Leave a Reply