اہم نکات
٭ ماضی کے تلخ تجربات کے برعکس جدید مطلق العنانیت آزاد معاشرے کو دبوچنے، جمہوری معاشروں میں لبرل ازم کے منافی نظریات متعارف کرانے اور لوگوں کو حقوق سے محروم رکھنے کے جدید ترین طریقوں پر عمل کے ذریعے زیادہ کامیاب رہی ہے۔
٭ میڈیا کنٹرول، پروپیگنڈا، سول سوسائٹی کے محدود کرنے اور سیاسی تکثیریت کی نفی کرنے کے حوالے سے جدید ترین طریقے اپناکر فی زمانہ مطلق العنانیت کو پروان چڑھانے میں دلادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
٭ غیر شفاف انتخابات اور اکثریت کی مرضی سب پر مقدم رکھنے کے تصور پر مبنی نظام اب تک ایک پارٹی کی حکمرانی والے جمہوری معاشروں کے غیر لبرل قائدین میں تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ہر حال میں عوام کی رائے کو باقی تمام امور پر مقدم رکھنے کے دعویدار سیاستدان جب اقتدار میں آتے ہیں تو میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر جمہوری اداروں کو کچلتے چلے جاتے ہیں۔
٭ مطلق العنان حکمرانوں نے خالص جمہوری معاشروں میں لابسٹ اور مشیروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کا راستہ بھی اپنایا ہوا ہے۔ اس معاملے میں روس، قازقستان، آذربائیجان، ترکی، ایتھوپیا اور مشرق وسطیٰ کے تقریباً تمام ہی ممالک لابسٹ فرمز اور مشیروں کی مدد سے مغرب کے جمہوری معاشروں میں اپنا امیج درست کرنے اور خود کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
اکیسویں صدی میں مطلق العنان حکومتیں ایک بار پھر ابھر رہی ہیں۔ معاشی خرابی اور عوام کی طرف سے بھرپور مزاحمت کے باوجود مطلق العنان حکمران ایک تلخ حقیقت کی طرح ہمارے سامنے ہیں۔ آج کے مطلق العنان آمر بہت ذہین ہیں۔ وہ اپوزیشن کو ختم کرنے کے بجائے صرف کچلتے رہتے ہیں تاکہ وہ مجموعی طور پر غیر موثر رہے۔ میڈیا پر کنٹرول اور پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے وہ اپنی مرضی کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ قانون کی بالا دستی کا تصور عملاً دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے حوالے سے باتیں اتنی کی جاتی ہیں کہ یقین آنے لگتا ہے کہ ہر طرف قانون پر عمل کیا جارہا ہے۔ آج کے مطلق العنان حکمران ایک حد تک خوشحالی برقرار رکھتے ہیں۔ اپنی حکمرانی کو قانونی ثابت کرنے کے لیے چند ضروری اقدامات کرتے ہیں اور معاشرے میں انتشار کو زیادہ پھیلنے سے روکنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں۔
جدید مطلق العنان حکومتیں ان تمام اداروں کو دبوچ کر رکھتی ہیں، جن کا تعلق عوام کی مرضی سے ہے۔ جو ادارے عوام کے موڈ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، اُنہیں زیادہ سے زیادہ بے جان بنانے اور اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ سوال صرف مقننہ اور منتظمہ کو کنٹرول کرنے کا نہیں بلکہ میڈیا، عدلیہ، سول سوسائٹی، معیشت کے اہم ترین اداروں اور سیکورٹی فورسز کو بھی زیر دام لانے کا ہے۔ اگر کوئی لیڈر ان تمام اداروں پر مکمل متصرف نہ بھی ہو تو غیر معمولی اثرات کا حامل ہونے کی بنیاد پر شفاف انتخابات اور ان کے نتیجے میں کسی بھی مثبت تبدیلی کو یکسر ناممکن بنا سکتا ہے۔
سوویت انداز کی اشتراکیت کے برعکس آج کی مطلق العنان حکومتیں نہ تو کسی بھی معاملے میں غیر معمولی جبر سے کام لیتی ہیں اور نہ ہی وہ مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ امید افزا باتیں کرکے سبز باغ دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ آج کے مطلق العنان حکمران عوام کی پوری زندگی پر بھرپور تصرف نہیں چاہتے۔ وہ عوام کے معمولات کو کنٹرول کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ میڈیا پر بظاہر بہت کچھ آزاد و غیر جانبدار دکھائی دیتا ہے۔ عوام کو بھرپور تفریح فراہم کرنے پر زور ہے۔ سول سوسائٹی جب تک کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے لیے کوشاں نہ ہو تب تک اسے کام کرنے کی بھرپور آزادی عطا کی جاتی ہے۔ کوئی بھی شخص ملک بھر میں اور بیرون ملک بھی آسانی سے سفر کرسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نجی کاروباری اداروں کو (کرپشن کے ساتھ ہی سہی) پنپنے کی اچھی خاصی آزادی بخشی جاتی ہے۔
زیر نظر مطالعے میں اس امر کا جائزہ لیا گیا ہے کہ آج کی مطلق العنان حکومتیں کس طور پر اپنا دفاع کرتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ استحکام کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ مختلف خطوں کے مطلق العنان حکمران ایک دوسرے کے تجربات کی نقالی میں مصروف رہتے ہیں تاکہ اقتدار کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جاسکے۔
آیے چند نمایاں امور پر ایک نظر ڈالیں۔
٭ جدید مطلق العنان حکمرانی کو فروغ دینے میں روس نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ انتخابات روس میں بھی ہوتے ہیں مگر معاملات کو انتہائی نفاست اور خوبصورتی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن کی قیادت میں روس اب تک بھرپور مطلق العنانیت کی راہ پر گامزن ہے، اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ خطے میں جمہوریت کے پنپنے کی جہاں بھی گنجائش دکھائی دی ہے یا بدعنوان حکمرانوں کو ہٹاکر عوام نے منتخب نمائندوں کو اقتدار سونپے جانے کی راہ ہموار کی ہے، روس نے اُسے محدود کرنے سے دبوچنے تک ہر کوشش کی ہے۔
٭ جدید مطلق العنان ممالک میں اپنے سیاسی مقصد کے تحت تاریخ کو دوبارہ لکھوانے کی روایت بھی تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی روس قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ ولادیمیر پیوٹن نے خاصی چابک دستی سے نصابی کتب پر اپنا تصرف قائم کیا ہے اور اب جوزف اسٹالن کے تاریخی کردار کا نئے سرے سے جائزہ لیا جارہا ہے۔
٭ یہ حقیقت بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ عوام کی بھرپور تائید اور مدد سے مطلق العنان حکمران جب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں تو عوام ہی کے حقوق غصب کرنے کا نیا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ وہ بہت منظم طریقے سے ہر اس ادارے کو کمزور بناتے چلے جاتے ہیں، جو مفادِ عامہ کی بات کرنے کی کوشش کر رہا ہو یا ایسا کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی کو حقیقی سیاسی تبدیلیوں کے لیے کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اس کے نتیجے میں اپوزیشن کے لیے ڈھنگ سے کام کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے اور وہ عوام کے مفاد کو ذہن نشین رکھنے کے باوجود کوئی بڑی مثبت تبدیلی لانے میں بہت حد تک ناکام رہتی ہے۔
٭ ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ یورپ میں بھی مطلق العنان حکومتوں کو گلے لگانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست اور سرمایہ کاری کے خلاف سرگرم بائیں بازو کی جماعتیں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کو پسند کرتی ہیں اور ان کے اہداف کو اپنے اہداف کے مماثل قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔ ہنگری اور چند دوسرے ممالک میں ابھرنے والی ان غیر لبرل حکومتوں کو بھی سراہا جارہا ہے جو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے تسلیم شدہ جمہوری اقدار کو قبول کرنے سے صاف انکار کر رہی ہیں۔ اگر ان حکومتوں سے براہِ راست اشتراک عمل نہ کیا جائے تب بھی انہیں قبول کرلینا ہی اس بات کے لیے کافی ہوتا ہے کہ یہ جمہوری معاشرے میں دراڑ ڈال دیں، اختلافات کو ہوا دیں۔
٭ مطلق العنان حکومتیں اب عالمی سطح پر بھی اپنا کردار زیادہ قوت کے ساتھ ادا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ ڈھیلا ڈھالا ہی سہی، کسی نہ کسی سطح پر اتحاد قائم کرکے یہ حکومتیں اقوام متحدہ، یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم اور امریکی ریاستوں کی تنظیم جیسے اداروں میں اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شام جیسے جنگ زدہ ممالک میں یہ اپنی مرضی کی حکومت کو بچانے کے لیے بھی زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں آرہی ہیں۔
٭ مطلق العنان حکومتیں اپنے ہاں انٹر نیٹ اور دیگر جدید مواصلاتی خدمات کو محدود یا مسدود کرنے پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ چین میں غیر سرکاری تنظیموں کا کردار محدود کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ انٹر نیٹ پر سینسرشپ عائد کرنے سے متعلق چین کے تجربے سے روس اور دیگر مطلق العنان ریاستوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔
٭ ایک خطرناک حقیقت یہ ہے کہ لاطینی امریکا سے یوریشیا تک زندگی بھر کے قائد کا تصور ابھر رہا ہے۔ مطلق العنان حکمران چاہتے ہیں کہ مرتے دم تک حکومت کرتے رہیں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کے لیے آئین میں ترامیم کی جاتی ہیں، قوانین کو مسخ کیا جاتا ہے۔ عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ اگر کوئی طویل المیعاد بنیاد پر قیادت کرے گا تو پالیسیوں میں تسلسل ہوگا اور ملک زیادہ تیزی سے ترقی کرے گا اور خوشحالی سے ہم کنار ہوگا۔
٭ آج کی مطلق العنان حکومتیں کھلے معاشرے کو زیادہ کھلا نہ چھوڑنے اور شخصی آزادی کو دبانے کے لیے خاصے ڈھکے چھپے انداز سے کام کرتی ہیں تاکہ مخالفت کا دائرہ زیادہ سے زیادہ محدود رکھا جاسکے، تاہم چند برسوں کے دوران ان حکومتوں نے پرانے اطوار اپناتے ہوئے اقتدار پر اپنی گرفت زیادہ مستحکم رکھنے اور اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ چین میں سیاسی مخالفین یا منحرفین کو دبانے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ آذر بائیجان میں علیوف خاندان کی حکمرانی کو ہر اعتبار سے جامع اور مضبوط ترین مقام عطا کرنے کے لیے رہی سہی کسر پوری کردی گئی ہے یعنی خاتون اول کو اول نائب صدر مقرر کردیا گیا ہے۔
٭ مطلق العنان حکومتیں بدلتی ہوئی سیاسی اور معاشی حقیقتوں کے تناظر میں موزوں ترین اقدامات سے قاصر رہتی ہیں۔ وینیزوئیلا کے سابق حکمران وکٹر ہیوگو شاویز نے غلط سیاسی اور معاشی فیصلے کیے جن کے نتیجے میں ملک اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ جن مطلق العنان ممالک میں معیشتی مضبوطی کا انحصار توانائی کی برآمد پر تھا وہ اب شدید مشکلات سے دوچار ہیں کیونکہ عالمی سطح پر تیل اور گیس کے نرخ غیر معمولی حد تک گرچکے ہیں۔ ایسے میں ان کے لیے مالیاتی وسائل کی سطح برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ چین نے غیر معمولی شرح نمو کے ساتھ ایک طویل مدت تک ترقی کی مگر اب وہ سرمایہ کاری کے حوالے سے عدم توازن اور دیگر عوامل کے باعث بنیادی ڈھانچے کے ذیل میں پریشانیوں کا شکار ہے۔ ویسے ان حکومتوں پر جمہوریت کی پاسداری کے حوالے سے کچھ زیادہ دباؤ نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں وہ یا تو موجودہ بحرانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گی یا پھر متعلقہ ممالک مکمل تباہی سے دوچار ہوجائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اور روس نے جدید دور میں جمہوری معاشرے کے اہم ترین ہتھیاروں (میڈیا، انٹرنیٹ، سول سوسائٹی، این جی اوز) کو بہت حد تک غیر موثر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ان کی اس کامیابی سے کئی دوسرے ممالک کا بھی حوصلہ بڑھا ہے اور وہ مطلق العنانیت کی طرف گئے ہیں۔ آج کی مطلق العنان حکومتیں جمہوری اقدار اور دیگر متعلق تناظر کا بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ روس اور چین نے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کا عندیہ دے کر در حقیقت معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے پروپیگنڈا مشینری کا بھرپور سہارا لیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج کی مطلق العنان حکومتیں چونکہ نئے طریقوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی مرضی کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہیں، اس لیے انہیں ختم کرنا آسان نہیں۔ وہ ابھی مدتوں موجود رہیں گی اور جمہوری اقدار سے دور لے جاتے ہوئے اپنے اپنے معاشروں کو کنٹرول کرتی رہیں گی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Breaking down democracy”. (“freedomhouse.org”. June 2017)
Leave a Reply