امریکا عوام کی زندگی میں ہفتۂ گذشتہ کوئی معمولی عرصہ نہیں تھا جو دہشت گردی اور جنگ کے خوف سے لرزاں اور ترساں تھے ان ریپبلکن حکمرانوں کے زیرِ قیادت رہتے ہوئے جنہوں نے باقی دنیا کو جمہوریت کا سبق پڑھانا اپنا مذہبی فریضہ تصور کر لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۱۲ کروڑ امریکیوں نے اس ہفتے ووٹ ڈالے۔ ۵ کروڑ ۸۰ لاکھ سے زائد لوگوں کا ووٹ بش دوم کو گیا جنہیں بین الاقوامی سطح پر ’صدرِ جنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باقی لوگوں نے جان کیری کو ووٹ دیا جنہوں نے امریکا کے لیے ’ایک نئے دورے کے آغاز‘ کا وعدہ کیا تھا۔ ایک بڑی تعداد جس میں ۸ کروڑ کے قریب قانونی ووٹرز شامل ہیں‘ کا وائٹ ہائوس کی جمہوریت کی تازہ ترین مشق سے اپنے آپ کو الگ رکھنا گویا صدائے احتجاج بلند کرنا ہے۔ یہ ایک دوسری علامت ہے اس بات کی کہ یہ ملک برسرِ جنگ ہوتے ہوئے اس وقت ایک چیلنج کے دور سے گزر رہا ہے۔ درحقیقت امریکا اس وقت دو جنگوں کی گرفت میں ہے۔ ایک عراق میں جاری ہے اور دوسری دہشت گردی کی خلاف ہے۔ کسی کو یہ سمجھنے کے لیے برین اسپیشلسٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس خود ساختہ سپر پاور کی دونوں محاذوں پر کیسی پیش رفت ہے۔ امریکا کی قیادت میں جب سے غاصب افواج نے ’’باغیوں اور غیرملکی جنگجوئوں کا صفایا‘‘ کے نام پر معصوم عورتوں اور بچوں کے قتلِ عام کا سلسلہ شروع کیا ہے‘ عراق بدامنی اور طوائف الملوکی کے دلدل میں جاگرا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر بش کی جنگ سے نہ صرف یہ کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے بلکہ اس نے امریکا اور اس کے نظامِ اقتدار (Value-System) کے لیے مزید دشمن پیدا کیے ہیں حتیٰ کہ اس فضا میں غیرسفید فاموں اور غیرامریکیوں کی زندگی کا بھی احترام باقی نہیں رہا ہے۔ بہرحال وائٹ ہائوس میں بش کو مزید چار سال تک برقرار رکھنے کے لیے ووٹ دینا قدرے حیران کن ضرور ہے لیکن کوئی عجوبہ اور انہونی بات نہیں ہے۔ بالآخر خوف امریکی معاشرے میں عوامی سطح تک سرایت کر چکا ہے اور اسامہ بن لادن نے بھی اپنا بھرپور حصہ ادا کیا ہے اس امر کو یقینی بنانے میں کہ ووٹ کو کس رخ پر جانا چاہیے۔ اب اگر ۱۲ کروڑ عوام جانتے تھے کہ سخت گیر موقف کے حامل جدید قدامت پرست ان کے ملک کو ایک غلط رخ پر دھکیل رہے ہیں اور یوں انہوں نے اپنے امیدوار صدر کے حق میں ووٹ نہیں دیا ہے تو اسے واشنگٹن میں بہت اہم خیال نہیں کیا گیا۔ جو بات اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ جیتا کون! فیصلہ واضح نہیں ہو سکا۔ آیا صدرِ جنگ نے انتخاب ثقافتی پلیٹ فارم‘ معاشی مسائل یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جیتا‘ یہ اب کوئی معیار نہیں رہا۔ بعض نے تو اپنے بیان میں اس ہد تک بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا کہ ’’یہ انتخاب زیادہ تر خدا‘ ہم جنس پرستی اور بندوق‘‘ کے نام پر لڑا گیا۔ ہم تجربہ سے یہ جانتے ہیں کہ بش اور کمپنی کے لیے ہر چیز دو نوعیتوں میں منقسم ہوتی ہـے دایاں اور بایاں‘ اچھا اور برا‘ سیاہ اور سفید‘ ہم اور وہ کم کم سطح پر تو یہ متروک اور ناکام Visions ان ۵۱ فیصد امریکیوں کے لیے بہت کشش اور تاثیر رکھتے تھے جنہوں نے بش کو مزید چار سال دیے۔ امریکا میں ۲ نومبر کے انتخاب کا نتیجہ دوسری باتوں کے علاوہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ ملک کس رخ پر آگے بڑھ رہا ہے اور دنیا اس متنازعہ رہنما کی دوسری اور آخری مدت سے کیا توقع کر سکتی ہے۔
مستقبل کی نسل بش کو گیارہ ستمبر کے لیے یاد رکھے گی‘ جس بہانے انہوں نے افغانستان اور عراق میں جارحیت کا حکم صادر فرمایا اور اس موت اور تباہی کے لیے انہیں یاد رکھا جائے گا جو انہوں نے وہاں نہتے اور معصوم شہریوں پر مسلط کیا جن کے ذہنوں میں کبھی اس طاقتور ترین ملک کے عوام کے رویے اور سلوک کے حوالے سے کچھ اچھی یادیں محفوظ تھیں۔ اس کا کوئی امکان اور گمان نہیں ہے کہ جدید قدامت پرست صدر کا نام ان لوگوں کے قریب بھی پھٹک سکے گا جو اقوام کے مابین استحکام اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو انسانیت کو خوشی سے ہمکنار کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ بات پسند آئے یا نہ آئے یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی عوام کی بڑی تعداد نے انتہائی خراب مثال قائم کی ہے‘ ان کے پاس اپنے دلائل ہیں اور ظاہر ہے کہ جنگ کے وقت ان کے ملک کے لیے کون سی سمت بہترین ہے۔ اس سے وہ بخوبی واقف ہیں۔ کیا یہ ’’تاریخی مینڈیٹ‘‘ جو سخت گیر حکمرانوں کو دیا گیا ہے واشنگٹن میں کسی نئے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو گا یا پھر یہ وہی پرانے لوگ ہوں گے۔ ماضی کے چار سال کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے امید سے معمور لوگ مایوس ہوں گے اور بش کی دوسری صدارت اگر بدترین ثابت نہ بھی ہوئی تو پہلی ہی جیسی خراب ثابت ضرور ہو گی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ایران ڈیلی‘‘۔ تہران)
Leave a Reply