میں کیسے بھول جاؤں!
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، […]
میں ۱۴ جنوری کو ڈھاکا پہنچا اور فضا کو سونگھتا رہا۔ پہلی بار یہاں آیا تھا، اس لیے دل میں ہزار شوق اور ولولے تھے، […]
پروفیسر غلام اعظم نے بنگلا دیش کے ایک قید خانے میں آخری ہچکی لی اور اُس سفر پر روانہ ہو گئے، جس پر ایک دن ہر اُس شخص کو جانا ہے، جو اِس دنیا میں آیا ہے۔ بنگلا دیش کی اس وزیراعظم کو بھی کہ جس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اس نام نہاد عدالت کے نام نہاد ججوں کو بھی جنہوں نے اس مردِ ضعیف کو ۹۰ سال قید کا حکم یہ کہہ کر سنایا تھا کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ پھانسی کی سزا نہیں دے رہے، رحم کھا رہے ہیں۔
مشرقی پاکستان کو بھارتی جارحیت کے نتیجے میں بنگلہ دیش بنایا گیا تھا۔ پاکستانی فوج کے ساتھ جو پاکستانی اپنے وطن کی حفاظت کے لیے سینہ سپر تھے، اُن میں۲۳سالہ نوجوان عبدالقادر بھی تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن، ڈھاکا یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہر ملک کے ہر شہری پر لازم ہے کہ اپنی سرزمین پر دشمن کے ناپاک قدم برداشت نہ کرے
Copyright © 2024 | WordPress Theme by MH Themes