پروفیسر سید سجاد حسین
سابق وائس چانسلر راجشاہی یونیورسٹی و ڈھاکا یونیورسٹی
سقوطِ مشرقی پاکستان کے بارے میں جس قدر بھی غور کیجیے، ذہن اسی قدر الجھتا جاتا ہے۔ میں خانہ جنگی کے دوران رونما ہونے والے سفاک حالات کی بات نہیں کر رہا اور نہ یہاں فوجی حکمتِ عملی پر بحث مقصود ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کے ذہنوں سے پاکستان کی اہمیت کا تصور اس قدر تیزی سے کس طرح کھرچ کر پھینک دیا گیا۔ ہمارے لیے پاکستان ایک بنیادی ضرورت تھا، مگر حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ ہمیں اس بنیادی ضرورت کے احساس سے ہی غافل کردیا گیا۔ عوامی لیگ پورے مشرقی پاکستان پر اثرات نہیں رکھتی تھی۔ مگر ۱۹۷۱ء کے حالات نے اسے ایسی پوزیشن کا حامل بنادیا کہ کوئی اسے چیلنج کرنے والا [مزید پڑھیے]
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ایک سازش کے تحت بڑی ہوشیاری سے سرکاری زبان کا مسئلہ کھڑا کیا گیا۔ اردو کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ اس کا سرکاری زبان کی حیثیت سے نفاذثقافتی اور معاشی لحاظ سے بنگالی مسلمانوں کو محکوم بنادے گا۔ اُن کا استدلال تھا کہ ساری اہم سرکاری نوکریاں انہیں مل جائیں گی جن کی مادری زبان اردو ہے اور بنگالی مسلمان آہستہ آہستہ اہم عہدوں سے محروم ہو جائیں گے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے نوجوان طلبہ بڑی تیزی سے اس پروپیگنڈے کا شکار ہورہے تھے۔ ہم، جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ سارا تنازع ایک سازش کے تحت کھڑا کیا جارہا ہے، اس وقت ششدر رہ گئے جب مٹھی بھر (رپورٹ کے مطابق صرف چار) طلبہ نے مارچ [مزید پڑھیے]
اگر میں تحریکِ پاکستان کی تاریخ لکھنے بیٹھ ہی گیا ہوں تو پھر لازم ہے کہ میں ان مراحل کی بھی نشاندہی کروں جن سے گزر کر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ اس کام کے لیے ہمیں اس کی سیاست، معیشت اور معاشرتی ارتقا کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آئین کی تشکیل میں تاخیر اور اناڑی پن کا مظاہرہ، مکارانہ سیاست اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں پر عوام کے اعتماد کا فقدان اور ان کی نیتوں پر شبہ۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن کو سقوطِ پاکستان کی تاریخ رقم کرتے وقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تاہم میری کوشش تو اُس خرابی کو سمجھنے کی ہے جس نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کیا [مزید پڑھیے]
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے عندیہ دیا کہ وہ تاج برطانیہ کو مشورہ دینے جارہے ہیں کہ جتنی جلد ممکن ہو ہندوستان سے نکل جانا چاہیے۔ اس طرح انہوں نے فریقین پر واضح کردیا کہ وہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کہ آزادیٔ ہند اب ناگزیر ہو گئی ہے اور اس میں تاخیر ممکن نہیں۔ انہوں نے معاملات کو تیزی سے نمٹانا شروع کردیا۔ گو کہ اُن کے کام کرنے کی لگن اور توانائی متاثرکن تھی، مگران کی بے صبری خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی تھی۔ برطانیہ میں مسٹر ایٹلی کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ برطانیہ ہندوستان سے ۱۹۴۸ء تک نکل جائے گا۔ لیکن مائونٹ بیٹن نے حیرت انگیز طور پر ایک سال پہلے ہی بوریا بستر لپیٹنے [مزید پڑھیے]
ملک توڑنے کی سازش کا بیج ڈالنے سے ۱۹۷۱ء میں اِس فصل کے ’’بار آور‘‘ ہونے تک یکے بعد دیگر رونما ہونے والے تمام واقعات کی بنیاد بنگالی قوم پرستی تھی۔ دانشوروں اور طلبہ نے اس پرفریب ’’نظریے‘‘ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم ظاہر کرکے اس کے ساتھ مکمل وفاداری کا حلف اٹھایا۔ بعض نے اپنے آپ کو اس یقین کے ساتھ بنگالی قوم پرستی کے لیے وقف کردیا کہ اُن کی نسل کی بقاء اِسی میں ہے! پھر یہ بھی ہوا کہ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کو ’’نظریہ‘‘ بنا کر اپنا لیا گیا۔ اس ضمن میں منطقی تجزیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی جذبات کی سطح سے بلند ہوکر معاملات کا جائزہ لینے کے [مزید پڑھیے]
جو بہادری انسان کو موت کے مقابل کھڑا کرکے اس سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتی ہے وہ دنیا بھر میں کمیاب ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہی کیفیت ہے۔ ہمارے مزاج یا سرشت میں کچھ ایسا ہے جو ہمیں کسی بھی بحرانی کیفیت میں جان کی بازی لگانے سے روکتا ہے۔ ہم ہر حال میں اپنے وجود کو بچانا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے اپنے تمام اصولوں اور اوصاف کی قربانی دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی بحرانی کیفیت میں ہم بہت تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ہمیں اس سے دامن چھڑانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحیح کیا اور غلط کیا ہے، مگر اس کے باوجود ہم تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ [مزید پڑھیے]
نیو ٹوئنٹی بلاک میں ہمارے ساتھ ایک دوسرے ہونہار شخص، اخترالدین احمد بھی تھے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے بیرسٹر تھے اور ان کی شادی نواب سلیم اللہ کے بیٹے خواجہ نصراللہ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ عمر کی چوتھی دہائی میں تھے۔ ان کا آبائی تعلق ضلع بریسال سے تھا۔ جیل میں اخترالدین احمد خاصے مذہبی ہوگئے تھے۔ حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ وہ پہلے مذہب سے یکسر بیزار تھے اور جب مذہب کو اپنانے پر آئے تو ایسے متشدد ہوئے کہ ضعیف الاعتقادی کی ہر منزل سے گزر گئے اور مذہبی امور کے سمجھنے میں عقل کے استعمال کو یکسر حرام قرار دے بیٹھے۔ اخترالدین احمد عربی سے نابلد تھے اور قرآن کا کوئی ترجمہ وغیرہ بھی انہوں نے نہیں پڑھا [مزید پڑھیے]
جب مجھے سیون سیلز سے نیو ٹوئنٹی نام کے بلاک میں منتقل کیا گیا، تب مشرقی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی کئی نمایاں شخصیات سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں متحدہ پاکستان کے آخری گورنر برائے مشرقی پاکستان، ڈاکٹر عبدالمالک، ان کی کابینہ کے رکن اخترالدین، مشرقی پاکستان کونسل مسلم لیگ کے صدر خواجہ خیر الدین اور کونسل مسلم لیگ ہی کے سرکردہ رکن مولانا نورالزماں نمایاں تھے۔ ان میں سب سے کم عمر، اخترالدین تھے جو عمر کی چوتھی دہائی کے وسط میں تھے۔ میں انہیں یونیورسٹی میں ان کے زمانہ طالب علمی سے جانتا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں ایک خیر سگالی مشن لے کر میں برما گیا تھا اور اس چار رکنی مشن میں اخترالدین بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک [مزید پڑھیے]
معروف امریکی مصنف آسکر وائلڈ نے اپنی کتاب De Profundis میں لکھا ہے کہ جیل میں گزارے ہوئے وقت کا سب سے گندا پہلو یہ نہیں ہے کہ انسان کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جیل کی زندگی انسان کے جذبات کو ختم کرکے سنگ دلی کی راہ ہموار کردیتی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ میں نے بنگلہ زبان میں کیا تھا۔ اگر اصل کتاب میرے پاس ہوتی تو میں لفظ بہ لفظ حوالہ دینا پسند کرتا۔ میں نے جیل میں ہزاروں نوجوانوں کو دیکھا جو غداری کے الزام میں لائے گئے تھے۔ ان سے جو سلوک روا رکھا جارہا تھا، اس کی روشنی میں یہ پیش گوئی کرنا چنداں دشوار نہ تھا کہ وہ جیل سے باہر قدم [مزید پڑھیے]
پاکستان کے دولخت ہونے کی خوں چکاں داستان بنگلہ بولنے والے ایک عاشقِ پاکستان کی تحریر ’’شکستِ آرزو‘‘ (The Wastes of Time) کی صورت میں آپ ’’معارف فیچر‘‘ کے شماروں میں قسط وار پڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ باب کا بقیہ حصہ ملاحظہ فرمائیے۔ (ادارہ) ڈھاکا سینٹرل جیل میں ۱۹۶۶ قیدیوں کی گنجائش تھی۔ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے اور اسی دن مکتی باہنی والوں نے جیل پر دھاوا بولا اور جیلر سے کہا کہ تمام دروازے کھول دے اور قیدیوں کو رہا کردے۔ چند ایک مخبوط الحواس قیدیوں کے سوا تمام چور، لیٹرے اور قاتل جیل سے نکال لیے گئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈھاکا جیل میں قیدیوں کی تعداد صفر کے برابر ہوگئی۔ اب انہیں جیل میں ڈالنے کا سلسلہ [مزید پڑھیے]
پاکستان کے دولخت ہونے کی خوں چکاں داستان بنگلہ بولنے والے ایک عاشقِ پاکستان کی تحریر ’’شکستِ آرزو‘‘ (The Wastes of Time) کی صورت میں آپ ’’معارف فیچر‘‘ کے شماروں میں قسط وار پڑھ رہے ہیں۔ آج ایک اور باب ملاحظہ فرمائیے۔ (ادارہ) ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا ’’میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ موت نے اِتنوں کو وجود سے عدم کی طرف دھکیلا ہے!‘‘ ڈھاکا سینٹرل جیل کا اندرونی حصہ میرے تمام خدشات سے زیادہ خراب نکلا۔ بیت الخلاء بہت پرانی طرزِ تعمیر کا نمونہ تھے جن میں صفائی کا انتہائی ناقص انتظام تھا۔ اور میرے لیے جو بات سوہانِ روح تھی وہ پرائیویسی کا نہ ہونا تھا، ہر شخص ہر وقت دوسروں کی نظروں میں تھا۔ مجھے ایک ایسے [مزید پڑھیے]
کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ (The Wastes of Time) کے دو ابواب آپ ’’معارف فیچر‘‘ کے گزشتہ شماروں میں قسط وار پڑھ چکے ہیں۔ آج ایک اور باب ملاحظہ فرمائیے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک ’’پاکستان‘‘ کے بھارتی حملہ اور عالمی قوتوں کے زور و سازش، اور سب سے بڑھ کر اپنی اجتماعی نالائقی و بے بصیرتی کے نتیجہ میں ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو دولخت ہونے کی یادیں تازہ کیجیے۔ شاید یہ تلخ یادیں ہماری آنکھیں کھول دینے کا سبب بن سکیں۔ (ادارہ) خانہ جنگی کے دوران بھارت چلے جانے والے دانشوروں، اساتذہ، طلبہ، صحافیوں، ڈاکٹروں اور انجینئروں نے جنوری کے وسط تک وطن واپسی شروع کردی۔ ان میں چاٹگام یونیورسٹی میں شعبہ بنگالی کے سربراہ ڈاکٹر علی احسن اور ڈاکٹر اے آر ملک بھی [مزید پڑھیے]
سابق مشرقی پاکستان کے آخری اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد کے ابتدائی برسوں میں جو کچھ ہوا، اس کا کوئی درست، مکمل، آزادانہ اور منصفانہ ریکارڈ نہ محفوظ ہے، نہ آئندہ اس کا امکان ہے۔ پاکستان سے وفاداری اور تحفظِ پاکستان کے نام پر جان و مال اور عزت و آبرو قربان کرنے والے لاکھوں انسانوں کا اب نہ کوئی وارث ہے نہ ترجمان۔ بلکہ اب تو باقی ماندہ پاکستان میں بھی یہ ادائے وفاداری، جرم قرار دی جانے لگی ہے۔ بھارت کے ایجنٹوں ’’عوامی لیگ‘‘ اور (قاتلوں پر مشتمل) اس کی ’’مکتی باہنی‘‘ کی زبان پاکستان کے اخبارات میں بھی چھپنے اور نصابی کتب میں بھی جگہ پانے لگی ہے۔ جبکہ اُدھر بنگلہ دیش میں سارا سیاسی، انتظامی، دستوری، قانونی اور ابلاغی [مزید پڑھیے]
اب میں حالات کی تبدیلی پر غور کر رہا تھا۔ جو کچھ رونما ہو رہا تھا اس پر مجھے خاصی حیرت محسوس ہو رہی تھی۔ چوبیس سال قبل کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ملک ایسی صورت حال سے دوچار ہوگا۔ تاریخ حیرت انگیز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے تو ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ ۱۵؍ دسمبر کو فضائی کارروائی کے بعد مجھے وائس چانسلر کی سرکاری رہائش سے ۱۰۹۔ ناظم الدین روڈ پر اپنے گھر منتقل ہونا پڑا۔ حالات ابتر تھے مگر پھر بھی امید تھی کہ سب کچھ درست ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں تشدد کے ذریعے ریاستی نظام کو پلٹنے کی مثالیں موجود تھیں مگر خیر ہمارا ایسا [مزید پڑھیے]