‘‘کینیڈا کے مسلمان: ’’خواندگی، ہنرمندی اور تعلیم

مّْلا ابن المغرب کی ڈائری

ایک عرصہ گزر گیا ہے، اس ڈائری کو لکھے ہوئے۔ طویل غیر حاضری کی وجوہات طویل تر ہیں۔ تاہم ایک بات جو اہم ہے وہ یہ کہ مغربی نظام تعلیم کے گہرے اور بہت ہی زیادہ گہرے یعنی سمندر میں ڈوب کرمطالعے نے ملّا ابن المغرب کو اِدھر اُدھر تانک جھانک کی مہلت ہی نہ دی۔ لیکن گزشتہ ہفتے علامہ دانش کی ویک اینڈمجلس میں اس مو ضوع پر خوب گفتگو رہی تھی۔ علامہ دانش کو میری مغربی نظام تعلیم سے دلچسپی کا علم ہو چکا تھا۔ پوچھنے لگے کہ ملّا مغربی نظام تعلیم کی سب سے اہم خصوصیت بتلاؤ۔

’’مغربی نظامِ تعلیم انسانوں کو نفس کی خواہشات کا احترام سکھاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں احترامِ انسانیت سکھا تا ہے۔ ’’میرے دوٹوک اورحتمی جواب پر علامہ دانش نے عجیب انداز میں مجھے گھور کر دیکھا۔ ان کے چہرے کی تمام کیفیات کو میں بیان نہیں کر سکتا، البتہ اس پر غصہ پوری طرح عیاں تھا۔ کہنے لگے کہ ’’تو کیا تم اب احترامِ خواہشِ نفس اور احترامِ انسانیت میں کوئی فرق نہیں سمجھتے‘‘۔

میں نے پورے اعتماد سے جواب دیا: ’’نہیں! انسان کے اندر سب سے قیمتی شے نفس ہی توہے۔نفس اور اس کی خواہشات کا احترام نہ کرنا انسانیت کی توہین ہے‘‘۔

علامہ دانش نے کہا: ’’یہ تو انسانیت کے نام پر شیطانیت کا احترام ہوا‘‘۔

’’نہیں! انسانیت اسی کا تو نام ہے‘‘۔

میں نے اہم علماء مغرب کے فلسفیانہ خیالات سے آگاہ کرتے ہوئے علامہ دانش کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن علامہ تو اور ہی بگڑ گئے اور کہنے لگے یہ توسارے علما جاہل ہیں۔ عام طور سے علامہ دانش ٹھہرکر اور منطقی انداز میں بات کرتے ہیں لیکن اس وقت ان کا غصہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔ میں نے کہا کہ احترامِ انسانیت اور آزادیٔ فکر اورآزادیٔ اظہار کایہ بھی تقا ضا ہے کہ ان علماء مغرب او ر ان کے علوم کی قدر کی جائے۔کہنے لگے جب تمہیں علما، علوم، خواہشاتِ نفسانی، علم برائے حیوانیت وغیرہ کے مفہوم سے واقفیت نہیں ہے، تو ’’انسانیت‘‘ اور ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے درس سے باز آجاوْ۔ تم دوسرے لفظوں میں یہ کہہ رہے ہو کہ ایک قاتل کی خواہشِ قتل کا احترام کیا جائے اور اسے قتل کرنے کی آزادی بھی حاصل ہو‘‘۔

میں نے ان کے غصے کے بجائے اپنے نفس کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب دیا کہ ’’جی ہاں! مغربی مفکرین اسی لیے سزائے موت کے خلاف ہیں۔کہتے ہیں کہ قاتلوں کا احترام واجب ہے۔ انہیں قتل کی سزاکے بجائے جیل کی کم سے کم سزا ہو اور وہ بھی وی آئی پی اندازکی‘‘۔ علامہ دانش نے اب قرآن کی قرأت شروع کردی (مفہوم) ’’پھرکیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا‘‘۔ (الجاثیہ آیت ۲۳)

اب اس بحث و مباحثہ کی زیادہ تفصیلات لکھ نہیں سکتا، اس کی ایک وجہ طوالت دوسری وجہ اپنی شکست ہے۔ ویسے بھی علامہ دانش سے کون جیت سکتا ہے۔ملّا بھی اکثر زندگی کے بہت سے الجھے مسائل کو انہی کے پاس سلجھاتاہے اور اس طرح ایک احترام کا تعلق قائم ہے جو بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ ملّا اختلاف کے ساتھ اتحاد کا بھی قائل ہے۔قارئین جانتے ہیں کہ کس طرح یہ ملّا مسٹر چنگار کے ساتھ تفاوت کے باوجود دوستی کو نبھاتا رہا ہے۔ اب جاکر مسٹر چنگار کو بہت بے آبرو کر کے مسجد سلام سے نکالا گیا ہے، ان کی رکنیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ مجھے یہ سب اچھا نہ لگا۔ لیکن اس کی تفصیلات بعد میں کبھی لکھوں گا۔مختصراً یہ جان لیجیے کہ انہیں مسجد کے نام پر قبروں کی ذاتی تجارت اور اسی مقصد کے لیے مسجد کو بھاری سود پر قرض حاصل کرنے کے لیے استعمال میں لانے کے الزام میں باثبوت تفتیشی رپورٹ کے بعد نکالا گیا ہے۔ ہمیں ان کا قبروں کی تجارت کا ایک اشتہار اچھا لگا تھا۔

’’دو بالغ قبروں کی خریداری پر ایک بچہ قبر فری‘‘۔

نئے قارئین کو بتاتا چلوں کہ مسٹرچنگار اور ان کے استاد امام چٹیل (جو کینیڈین اماموں کی کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں) کا اصل کارنامہ کینیڈا میں قومِ لوط کی باقیات کی دریافت ہے اور اس قوم کو اقتدار میں لانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ انہی منتخب لیڈروں کے ذریعہ ملک میں ہم جنسوں کی شادی کا قانون اور اونٹاریو ریاست میں ہم جنس پرست تعلیم پرائمری سطح سے شروع کرانا ممکن ہوا۔ مسٹر چنگار اور امام چٹیل اس میں ’’مسلم مددگار‘‘ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مبارکباد کے مستحق رہیں گے۔

بات کہیں سے کہیں اور نکل جائے گی۔ مغربی نظامِ تعلیم اور پبلک ایجوکیشن کے حوالے سے اس ملّا کے ہم نوا علامہ دانش کی مجلس میں ایک ہی ہیں اور وہ ہیں معروف دانشور مسٹر شدید الفکر۔ یوں تو یہ مسٹر شدیدالفکر کٹراسلام پسند ہیں بلکہ انہیں اسلامسٹ کہا جائے تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمیں زمانہ کے رنگ ڈھنگ، چال چلن اور ہوا کے رخ کا بھی ساتھ دینا چاہیے۔مثلاً وہ اسلام کے ساتھ ساتھ جمہوریت، لبرل ازم، اور پبلک ایجوکیشن سسٹم کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک دین اسلام کی اقامت کا راستہ بھی ان تینوں ذرائع سے ہی مل سکتا ہے۔ ملّا کی ان کے ساتھ ہم خیالی اور ان کے مضبوط دلائل کے باعث ملّا کا اپنابھرم بھی قائم رہ جاتا ہے۔

لیکن ان کی فکری تردید کے لیے علامہ دانش کے علاوہ اس مجلس میں علی متقی اور عمر مجددی شامل ہوتے ہیں۔علامہ دانش کتنی ہی بارانہیں پبلک ایجوکیشن کی تبلیغ سے روکنے کے لیے اور ان کی ’’غلط فہمی‘‘ دور کرنے کے لیے یہ بات سمجھا چکے ہیں کہ: خواندگی (Literacy)، ہنر مندی (Technical Skills) اور تعلیم (Education) تین مختلف چیزیں ہیں اور آپ ہمیشہ اس کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔بلاشبہ خواندگی اورہنرمندی رزق کے لیے اور ملازمت کے لیے ایک اچھا وسیلہ ہے۔قدیم مصر اور بابل کے دور سے لے کر آج شمالی امریکا کے جدید دور تک شاید ہی کوئی مہذب قوم ایسی رہی ہو جس نے خواندگی اورہنرمندی کاا اہتمام نہ کیا ہو، لیکن بہرکیف یہ تعلیم نہیں ہے۔ہر قوم اپنے ذہن میں انسانِ مطلوب اور انسانِ کامل کا ایک واضح تصور رکھتی ہے۔اس معیارِ مطلوب تک پہنچنے کے لیے اپنی قوم کے بچوں کی فکری، ذہنی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔ اسے کہتے ہیں تعلیم۔ دوسری طرف خواندگی اور ہنرمندی انسان کی جسمانی یا حیوانی ضروریات اور اس کو سہولتیں بہم پہنچانے میں تومددگار ہوتی ہیں لیکن شرفِ انسانیت کے لیے اور مہذب، با اخلاق،خدا ترس، رحمدل اور غم گسار انسان بنانے کے لیے اور عادلانہ معاشرہ قائم کرنے کے لیے خواندگی اور کارِ ہنرمندی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ یہاں تعلیم درکار ہے۔تعلیم انسان کو زندگی کے اعلیٰ اقدار سے آشنا کرتی ہے، زندگی میں پاکیزگی، رفعت و لطافت پیدا کرتی ہے۔ انسان صرف جسم، نفس اور اس کی خواہشات ہی کا نام نہیں ہے بلکہ حسنِ کردار، اعلیٰ اخلاق، بے لوثی اور عظیم جذبات کا نام ہے۔ اور حقیقی انسان اسی کو کہتے ہیں۔

علامہ دانش اپنی تقریر کے اختتام پر یہ بھی کہتے کہ اب کیا آپ ایمانداری اور اعتماد سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اونٹاریو کینیڈا کا پبلک ایجوکیشن سسٹم ایسا انسان پیدا کر سکتا ہے؟

ابوالحقائق نے اونٹاریو صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل ۱۳، Accepting Education Act (گے لائف اسٹائل کی قبولیتِ عام کا ایکٹ)، اسکولوں میں قائم ہونے والے گے اسٹریٹ کلب (Gay-Straight Alliance Club) گے پریڈ ڈے اور ویک، پنک ڈے، دو ماں اور دو باپ کا تصور، بچوں میں کے جی کی سطح سے ریڈیکل سیکس ایجوکیشن جس میں درجنوں قسم کے جنسی افعال کی عملی تعلیم گریڈ ۳ سے، جس طرح کھول کر بیان کیا ہے،اسے پاور پوائنٹ پر سمجھایا اور سرکاری پالیسی کی وڈیو کے ذریعے بے نقاب کیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ نئے ایکٹ کا مقصد دراصل تمہارے بچوں کو ہم جنس پرست اور جنسی حیوان (حالانکہ لفظ حیوان کا استعمال بھی یہاں حیوانوں کی توہین ہے کہ حیوان کبھی فطرت سے ہٹا ہوا جنسی فعل نہیں کرتا) بنانا ہے، اس کے بعد کسی میں ہمت نہیں کہ پبلک ایجوکیشن کے دفاع میں لب کشائی کرسکے۔ تاہم مسٹر شدید الفکر کامعاملہ مختلف ہے۔علامہ دانش کی بات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ ان کا اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنا،اور اپنی دانشمندی پر اصراراور دیگر کی دانائی پر شبہ کرنا بھی ہے۔ اس کی دوسری وجہ ان کا یہ خیال بھی ہے کہ جس طرح زبان کی بولی اوربندوق کی گولی واپس نہیں ہوتی، اسی طرح ان کی رائے بھی کبھی واپس نہیں لی جا سکتی۔وہ پٹھان نہیں،اور پٹھان تو بس یونہی بدنام ہیں لیکن اس محاورے پر پورے اترتے ہیں کہ:

’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘۔

علی متقی تو عملاً اپنے گھر میں ایسی مثال قائم کر چکے ہیں کہ ان کی عملی مثال کے آگے سارے دلائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ وہ چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام اپنے گھر میں اپنی تعلیم یافتہ نیک بخت اہلیہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے بچوں کو پبلک اسکول نہیں بھیجا۔ان کا سب سے بڑا بیٹا جس نے ۱۲گریڈ تک ’’گھریلو تعلیم‘‘ کی ہے، اب میڈیکل کالج میں داخل ہوا ہے۔ علی متقی کہتے ہیں کہ خواندگی، ہنرمندی اور تعلیم، تینوں کا انتظام گھر پر بخوبی ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ہم خیال لوگوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ان کے بچے پبلک اسکول جانے والے اپنے ہم عمر بچوں کے مقابلے میں کم از کم دو گریڈ آگے رہے۔ حساب، سائنس اور انگلش میں اعلیٰ کارکردگی کے علاوہ عربی، قرآن، اور اسلامیات کا بھی بہترین علم حاصل کیا، اس کے علاوہ زندگی کے دیگر مشاغل اور ہنر، مثلاً گھر کے سارے کام کاج، روزمرہ کے معاملاتِ زندگی، مسائل کا حل، سوئمنگ اور دیگر اسپورٹس وغیرہ میں بھی ان کے بچے بہت آگے ہیں۔ مزید برآں ان کے بچے والدین اور دیگر اعزا کے حقوق پہچاننے والے اور اعلیٰ اخلاق اور کردار کے حامل اور قابلِ رشک بچے ہیں۔

علی متقی کے اس تجربے اور پبلک اسکول کی پیداوار کو دیکھ کر اور ان کا موازنہ کرکے کون پبلک ایجوکیشن کی حمایت کر سکتا ہے۔ علی متقی کے پاس ایسی یونیورسٹیوں کی لسٹ ہے جس نے تجربہ، مشاہدہ اور تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پبلک اسکولوں کے بچے یونیورسٹی کے قابل نہیں رہے۔کیونکہ وہ طویل وقت تک بیٹھ کر کتابوں کے مطالعہ میں انہماک قائم نہیں رکھ سکتے، ان میں بدحواسی اور باؤلا پن پایا جاتا ہے، فیس بک، الیکٹرانک گیمز، یو ٹیوب کے کثرتِ مشاہدہ نے ان میں مزید اضطراری کیفیت پیدا کر دی ہے۔

اس کے مقابلے میں ہوم اسکولنگ کے بچے یونیورسٹیوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اب ان یونیورسٹیوں کی انتظامیہ ہوم اسکولرز طلبہ کوپبلک اسکول کے طلبہ پر ترجیح دینے کا سوچ رہی ہے۔علی متقی پبلک اسکول میں جانے والے بچوں کے بارے میں علامہ اقبال اور اکبر الہ آبادی کے اشعار اکثر سناتے ہیں:

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا

کہاں سے آئے صدا لاالہٰ ا لاّاللہ

(علامہ اقبال)

راہِ مغرب میں یہ لڑکے کٹ گئے

واں نہ پہنچے اور ہم سے چھٹ گئے

(اکبر الہ آبادی)

علی متقی کے لیے ایک بڑی خبر یہ ہے کہ جب کیوبیک صوبے کی حکومت نے ہوم اسکولرز پر بھی سیکولر ایجوکیشن کا نصاب لازمی کر دیا تووہاں کے مذہبی یہودیوں کے ایک گروہ نے، جس کا نام لیوطہور (خالص قلب) ہے، ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔ علی متقی کے نزدیک موجودہ دور میں ہجرت کی اس سے بہتر وجہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔افسوس کے ساتھ کہنے لگے کہ اونٹاریو میں مسلمانوں کے اندر جس وقت سیکولر پبلک ایجوکیشن کی ’’افادیت‘‘ پر مکالمہ ہو رہا تھا، اس وقت کیوبیک کے ۴۰ یہودی خاندانوں کے ۲۰۰؍افراد ۱۸؍نومبر کو ایک بجے رات میں بسوں کے ایک قافلے کے ذریعے ہجرت کر کے جنوب مغربی اونٹاریو کے ایک ٹائون چیتھم کینٹ (Chatham-Kent) آرہے تھے۔ ان کے مرد داڑھیوں میں اور ان کی عورتیں اور بچیاں نقاب اور حجاب میں ملبوس تھیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح مکمل حجابی اور نقابی مسلم عورتیں ہوتی ہیں۔ ان کے بچے پبلک اسکول کبھی نہیں گئے تھے۔ انہوں نے اپنی تعلیم کا انتظام اپنے گھروں کے ماحول میں اخلاقی اور مذہبی معلم اور مربی کی نگرانی میں کر رکھا تھا۔ لیکن جب اس پر بھی صوبائی حکومت نے سیکولرازم کا بم چلا دیا تو وہ لوگ ہجرت پر مجبور ہو گئے۔علی متقی نے کہا کہ ’’۲۰۱۲ء میں بل ۱۳ کے پاس ہونے کے بعد کئی عیسائی خاندان ہیملٹن، اونٹاریو سے ہجرت کر کے دوسرے صوبوں میں منتقل ہو گئے لیکن مجھے ابھی تک کسی ایسی مسلم فیملی کا پتا نہیں چلا کہ اس نے صرف اس بنیاد پر ہجرت کی ہو‘‘۔ متقی کے نزدیک:

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

علی متقی اس معاملہ میں اتنے حساس ہیں کہ اکثر جذبات میں ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

اس ڈائری کے تمام کردار فرضی ہیں۔ اتفاقی مماثلت کا ذمہ دار نہ ملّا ہے اور نہ اس کالم کا پبلشر بلکہ تلاش کرنے والا خود اس کا ذمہ دار ہے۔

(بشکریہ: ماہنامہ ’’آفاق‘‘ ٹورانٹو، کینیڈا۔ جنوری ۲۰۱۴ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*