اگرچہ سوشلزم وکمیونزم کا زمینی آئیڈیل منہدم ہوچکا ہے‘ لیکن جس مسئلہ کے حل کرنے کا مدعا لے کر وہ آیا تھا‘ وہ مسئلہ جوں کا توں باقی ہے۔ سماجی قوت کا بے حیائی سے اور دولت کا بے محاسبہ استعمال جو بیشتر صورتوں میں حوادث کا رُخ متعین کرتے ہیں اور اگر بیسویں صدی کا عالمی سبق ایک صحت بخش ٹیکے کے طور پر ناکام رہا تو ایک وسیع سرخ بگولہ ایک دفعہ پھر اپنی قہرسامانیوں کے ساتھ مکمل صورت میں نمودار ہوجائے گا۔
(الیگزنڈر سولزنٹبین‘ ’’نیویارک ٹائمز‘‘۔ ۲۸ نومبر ۱۹۹۳ء)
جدید سرمایہ دارانہ نظام کی عمر اَب ۴۰۰ سال ہونے کو آئی ہے۔ اس کا آغاز سترہویں صدی سے ہوتا ہے جب صنعتی شعبہ میں ولندیزی (ڈچ) ایجادات و اختراعات اور زرعی شعبہ میں ان کی پیش رفت نے انہیں مالیات میں امامت کا مرتبہ عطا کر دیا تھا۔ اس جدید سرمایہ داری میں ان کے بعد امامت کا شرف برطانیہ کو حاصل ہوا۔ اگرچہ ایجادات اور صنعتی شعبہ میں وہاں بھی پیش رفت ہوئی‘ لیکن اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں برطانیہ کی عالمی قیادت کی بڑی وجہ اس کی نوآبادیات (استعمار) تھیں۔ بیسویں صدی کے وسط تک (دوسری جنگ عظیم کے بعد) برطانیہ اپنی پوزیشن کھو چکا تھا اور عالمی سرمایہ داری کے نظام کی قیادت ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا واضح طور پر عالمی معیشت و سیاست کے فیصلہ کن قائد کے طور پر ابھرا ہے۔ لیکن اس کی معیشت کی برتری اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے ’’برطانیہ عظمیٰ‘‘ کے نوآبادیاتی نظام کے نمونے پر نہیں‘ بلکہ ایک آزاد (اور کارآمد) امیگریشن پالیسی (جس کے نتیجے میں محنتی‘ ہنرمند‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت وافر مقدار میں مہیا ہوگئی) اور ایجادات و فنیات میں پیش رفت سے ہوئی۔
اب ہمارے ملک‘ بلکہ شاید ساری دنیا میں ایک عام تصور یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اپنی دولت اور خوشحالی کی وجہ سے محنت کشوں کے لیے جنت ہے۔ نظام سرمایہ داری کے قائد نے منڈی کی معیشت‘ آزاد تجارت اور کھلی مسابقت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پابند معاشی نظام (اشتراکیت/سوشلزم) کو شکست دی ہے‘ بلکہ عام انسانوں اور معاشی کارکنوں کے لیے مسرت‘ خوشحالی اور ترقی کے ایسے زینے مہیا کر دیے ہیں‘ جہاں آسمان ہی رفعتوں کی حد ہے۔
Business Weeks کے چیف اکانومسٹ ولیم ولمان اور این کولاموسکا نے اس تصو رکو چیلنج کیا ہے۔ ان کی زیر نظر کتاب
“The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work”
(یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا) تین حصوں پر مشتمل ہے۔ سرمائے کی فتح‘ محنت کے ساتھ دغا اور سرمایہ داری کو خود اپنے آپ سے بچانا۔
سرمائے اور مزدور کی کشمکش‘ عہد قبل تاریخ کے پرویز اور شیریں فرہاد کی داستان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ یہ آویزش اور زیادہ شدید ہوگئی‘ تاہم اختراعات اور نوآبادیاتی وفد کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کا کچھ حصہ محروم طبقات تک بھی پہنچا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طباعت اور نشر و اشاعت کے سیلاب کے نتیجے میں محرومی کا شعور بھی شدید ہونے لگا جس کا نقطہ عروج کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اگرچہ داستان بھی بڑی دلچسپ اور چشم کشا ہے تاہم ولمان اور کولاموسکا نے پیش نظر کتاب میں اپنے مطالعے کو سرد جنگ کے خاتمے (بیسویں صدی کے آخری عشرے) میں امریکا میں سرمائے اور محنت کے تعلقات پر مرکوز رکھا ہے۔
محنت کش سے ان کی مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی روزی ‘ اپنی جسمانی مشقت‘ مہارت یا دماغی ریاضت سے کماتے ہیں‘ چاہے وہ مشین پر کھڑے ہوں یا کسی دفتر میں اعلیٰ عہدے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہوں۔ معاش کے لیے کام کرنا انہیں اس گروہ سے الگ کرتا ہے جن کے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کی ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی انہیں کسی طرح کی ’’محنت‘‘ سے مستغنی کر دیتی ہے۔ بقول ان کے ’’وہ امریکی‘‘ جو اپنی روزی کے لیے کام کرتے ہیں‘ ایک ایسی دوڑ میں مصروف ہیں‘ جس کا کوئی خطِ اختتام نہیں۔‘‘ ۱۹۸۸ء میں سرد جنگ کے اختتام کے بعد سے انہوں نے بڑی سخت محنت کی ہے کہ کوئی معاشی معجزہ کر دکھائیں تاہم وہ ایک ایسی معیشت میں گزر بسر کر رہے ہیں‘ جہاں ان کا معیارِ زندگی ایک ٹھہراؤ کا شکار ہو گیا ہے اور جہاں انہیں کوئی سکون میسر نہیں۔ سرد جنگ میں یہ امریکا کی فتح کے عواقب ہیں۔
امریکی محنت کش کو اس کے آجر اور سیاستداں جو دلاسے دیتے ہیں وہ عموماً سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے معیشت کے پھیلاؤ اور کارپوریٹ منافعوں میں زبردست اضافوں کے باوجود کارکنوں کی مزدوری میں اضافوں کا تناسب نہایت حقیر ہے۔ یہ بات ایک عام محنت کش کے لیے تو درست ہے ہی‘ لیکن عنقریب ان اعلیٰ درجے کی ملازمتوں (Elite Workers) کے لیے بھی درست ہوگی‘ جن کی آمدنیوں نے انہیں اب تک خوشحالی کے دائرے میں رکھا ہے‘ یہ بھی مستقبل میں سخت دباؤ محسوس کریں گے۔
اگرچہ دیوارِ برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے خاتمے کو سرمایہ داری کی آخری فتح کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے اور بوڈ اپسٹ سے بیجنگ تک ریاستی ملکیت میں کام کرنے والی صنعتیں‘ منڈی کی معیشت کی حامل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو بخشی جارہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرمائے نے وہ قوت حاصل کرلی ہے جو شاید ماضی میں اسے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ آزاد اور سریع الحرکت سرمایہ دنیا میں جہاں زیادہ نفع دیکھتا ہے‘ آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اب امریکا میں صورتحال یہ ہے کہ کارپوریٹ منافع تو بڑھ رہا ہے لیکن کارکنوں کے معاوضے میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں فیملی انکم (ایک خاندان کی آمدنی) میں کمی ہوئی ہے۔ ملازمتوں کا تحفظ‘ پنشن اور علاج معالجے کی سہولتیں کم ہوئی ہیں اور متوسط طبقے کی دولت اور اثاثے بھی زوال پذیر ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ’’آزاد معیشت‘‘ کی میکانیت کے تحت محنت کشوں اور کارکنوں (جسمانی اور ذہنی دونوں) کی آزادانہ نقل و حرکت کی بنا پر دوسری اور تیسری دنیا کی افرادی قوت بڑی آسانی سے شمالی امریکا اور یورپ کے ان علاقوں میں منتقل ہو رہی ہے‘ جہاں انہیں اپنے وطن کے مقابلے میں بہرحال کچھ زیادہ معاوضے اور سہولتیں دستیاب ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں امریکا کی افرادی قوت‘ خواہ وہ نیلی وردی والے مزدور ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر مامور باصلاحیت منتظم‘ سبھی اپنی ملازمتوںمیں کٹوتی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مغربی دنیا کے محنت کشوں (بشمول اعلیٰ تعلیم‘ تربیت یافتہ طبقہ‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز کارکنوں) کو محنت کی ایک کھلی منڈی میں مسابقت کا سامنا ہے۔ جاپان کے بعد چین‘ ہندوستان‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ کوریا اور لاطینی امریکا سے ہنرمند محنت کشوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد بازار معاش (Job Market) میں داخل ہو رہی ہے کہ امریکا اور کینیڈا بلکہ مغربی یورپ کے سبھی ملکوں میں طبقۂ وسطیٰ اور خوشحال کارکنوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کھلے خطرات کا سامنا ہے۔ ہم اب ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں سرمائے کے مقابلے میں محنت کی بہتات ہے۔ چونکہ اس کے نتیجے میں اُجرتیں تو منجمد ہوتی جارہی ہیں اور سرمائے کا نفع بڑھتا جارہا ہے‘ چونکہ عوامل پیداوار میں اب طلب و رَسد کے قانون کے تحت مزدور اَرزاں ہے‘ اس لیے اس کا استحصال کیا جاسکتا ہے‘ اسے اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کے حالیہ فروغ کے بعد اَب مغربی سرمائے کے لیے ضروری نہیں رہا کہ وہ نسلی یورپین (مغربی) آبادی کو اپنے ہمراہ لے کر چلے۔ مشرقی ایشیا میں ایسے باصلاحیت‘ منتظم اور ماہرین نسبتاً سستے داموں دستیاب ہوگئے ہیں۔ سرکاری خرچ پر نسبتاً سستی تعلیم‘ سخت محنت‘ غیرملکی پیشہ ورانہ تربیت اور آگے بڑھنے کے مجبورانہ جوش سے آراستہ یہ اعلیٰ طبقہ (Elite Class) اب اپنی اچھی کارکردگی کے ساتھ مغربی سرمائے کو مہیا ہوگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمائے اور محنت کے درمیان جو بقاے باہمی (Symbiotic) رشتہ قائم ہوا تھا‘ ختم ہوچکا ہے ۔ مغرب کے محنت کش کے لیے یہ بُری خبر ہے۔
چونکہ بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے بھی اپنی لاگت اورمنافع کا تناسب ہمیشہ اپنے فائدے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس لیے یہاں بھی اس پالیسی کا بوجھ عموماً نچلے درجے کے کارکنوں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداوار کے جدید طریقوں کی بنا پر چھانٹیوں Down Sizing اور Right Sizing کا شکار عموماً نچلے محنت کش ہی ہوتے ہیں اور فربہ منتظمین اعلیٰ (CEO`s) کی صحت اس سے متاثر نہیں ہوتی۔
امریکہ‘ تاریخ کے ایک ایسے دور میں جھونکا جاچکا ہے جہاں مالیات ہی سب سے اوپر حاکم ہے۔ میوچل فنڈز اور اسٹاک ایکسچینج ریسرچ کی تجربہ گاہ اور فیکٹری کی جگہ مرکزی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ کاروبار کی تعلیم کے بڑے مرکزی اسکولوں سے فارغ ہونے والے اب حقیقی معیشت کے بجائے انوسٹمنٹ بینکنگ کا رُخ کررہے ہیں۔۔۔ مگر ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو اٹھارہویں صدی کے ڈچ اور انیسویں اوربیسویں صدی کے برطانوی سرمایہ کاروں کے نتیجے میں ان کی معیشت کا ہوا۔ ’’وال اسٹریٹ کی حیرت انگیز فراست کی خطا بھی جلد سامنے آجائے گی۔‘‘ (ص ۱۴۲)
ہارورڈ یونیورسٹی کے جوزف شوم پیٹر (Joseph Schumpeter) اگرچہ دائیں بازو کی سیاست کے دانشور اور ماہرِ معاشیات ہیں لیکن عالمی سرمایہ داری کے ان رجحانات میں انہیں بھی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں۔ ’’نظامِ سرمایہ داری‘ ایک عقلی ذہنی اُفتاد کو تشکیل دیتا ہے‘ جو دوسرے بہت سے اداروں کی اخلاقی بالادستی کو تباہ کردینے کے بعد آخر کار خود اپنی بالادستی کے بھی درپے ہوجاتی ہے‘‘ (ص۲۲۱) ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے ٹامس فرائیڈمین کے مطابق جو لوگ ایک ایسی یک رُخی دنیا کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں‘ جہاں کاروبار اور اعداد و شمار کی مالیت ہی سب کچھ ہے‘ انہیں اس عالمگیریت کے خلاف ایک شدید ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (ص۲۲۱)
اس تباہی سے بچنے کے لیے کتاب کے مصنفین‘ کاروبار اور صنعت کے شعبوں میں ریاست کی زیادہ مداخلت کی تلقین کرتے ہیں۔ کارکنوں کی پیشہ ورانہ رہنمائی اور ایک پیشے سے دوسرے پیشے میں آسان منتقلی اور اس سلسلے میں حکومتی امداد‘ عالمی سرمایہ داری کے منفی اثرات سے کارکنوں کی حفاظت کے لیے ریاست کے زیادہ فعال کردار نیز محنت کشوں اور دوسرے کارکنوں کی صحت‘ بیروزگاری اور پنشن سے متعلق بہتر اور زیادہ موثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ (ص ۲۱۸۔۲۱۹)
یہ کتاب نظامِ سرمایہ داری کو خود اپنے ستم اور اس سے جنم لینے والی بربادی سے بچانے کی ایک مخلصانہ کوشش محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری (جس کے ساتھ استحصال کا نظام لازم و ملزوم ہے) کو بچا لینا کس طرح مقصود اور خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا شمالی امریکا اور مغربی یورپ کے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کو آدرش قرار دیا جاسکتا ہے؟ اب اگر ہم عالمی معیشت کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ عالم گیریت کے نتیجے میں اگرچہ تیسری دنیا کے بعض گوشوں اور طبقات (نیز افراد) میں معاشی خوشحالی نظر آتی ہے لیکن وسیع تر تناظر میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہندوستان ہے‘ جہاں کمپیوٹر اور اطلاعی فنّیات میں پیش رفت سے اگرچہ ایک گونہ خوشحالی آئی ہے‘ لیکن بہار اور بنگال کے علاقوں میں شدید غربت کے مارے کروڑوں انسان ناقابل تصور ہلاکت کا شکار ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ فلپائن اور مشرقی یورپ کے بعض خطوں کی ہے۔ افریقہ (خصوصاً وسطی افریقہ) قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود لوٹ کھسوٹ‘ بدانتظامی‘ بھوک اور بیماری (خصوصاً ایڈز) کا اس بُری طرح شکار ہے کہ وہاں آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ شاید عالمی سطح پر معیشت اور مالیات کو کنٹرول کرنے والوں نے یہ منصوبہ بندی کرلی ہے کہ ایک بہترین دنیا کی تشکیل یوں ہی ممکن ہے۔
عیسائی روایات کے مطابق یہودا‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ منافق حواری تھا جس نے اپنے تھوڑے فائدے (۳۰ درہم) کے لیے آنجناب سے غدّاری کی۔ آخری عشایئے میں جب وہ ایک باغ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھے‘ اس نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دے کر رومی سپاہیوں کو آپ کا پتا دیا اور یوں گرفتار کرایا۔
“The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work”
(یہود کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا)
ولیم ولمان (Willian Wolman) اور این کولاموسکا (Anne Colamosca) ایڈیشن ویزلی پبلشنگ کمپنی‘ ریڈنگ ‘ میساچوسٹس ۱۹۹۷ صفحات:۲۴۰)
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply