شمارہ یکم فروری 2019
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:12, شمارہ نمبر:3
چین اور یورپ کے’’خواب کا تصادم‘‘
جنوری ۲۰۱۸ء میں برسلز کا شاندار بوزار تھیٹر تاریخی لمحات سے متعلق عوامی جمہوریہ چین کی ویڈیو کا بیک ڈراپ تھا۔ یہ موقع تھا چینی نئے سال کے جشن کا۔ ایک گلوکار فن کا مظاہرہ کر رہا تھا اور اس کی پشت پر چلائی جانے والی ویڈیو میں چین کی کامیابیوں کو نمایاں طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ ویڈیو میں چین کے پہلے جوہری دھماکے، عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت، پہلے طیارہ بردار جہاز کی تیاری اور دیگر معاملات سے دنیا کو آگاہ کیا جارہا تھا۔ حاضرین میں موجود سفارت کار، فوجی نمائندے اور دیگر حکام دم سادھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ سوال یہ نہیں تھا کہ وہ چین کی کامیابیوں کو دیکھ کر متاثر ہو رہے تھے یا نہیں۔ ہوسکتا ہے [مزید پڑھیے]
افغانستان میں جاری کھیل کا آخری مرحلہ
افغانستان میں کھیل اب آخری مرحلے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہاں امریکا کی طویل المدت فوجی مہم کے خاتمے کی توقعات نے چند ایسے منظرناموں کو جنم دیا ہے، جو ملکی مستقبل کا تعین کرسکتے ہیں۔ موجودہ سفارت کاری سے یا تو ایک ایسے سیاسی حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، جس سے افغانستان اور خطے کے اندر ظاہری حیثیت میں امن قائم ہو یا پھر یکطرفہ امریکا نیٹو کے نظم و ضبط سے عاری انخلا کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، جو افغانستان کی ۴۰ سالہ خانہ جنگی کے باب کو ایک بار پھر دہرانے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم دیگر منظرناموں کا بھی امکان ہے، کیونکہ کئی قوتیں کھیل کے آخری مرحلے میں ٹکراتی ہیں یا پھر اتحاد کرتی ہیں۔ [مزید پڑھیے]
شاہ سلمان کی بادشاہت کے چار سال۔۔۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو سعودی عرب کا تخت سنبھالے چار سال ہو چکے ہیں۔ ان چار سالوں میں ملک مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ریاست پہلے سے زیادہ غیر مستحکم ہو چکی ہے۔ریاستی اقدامات بھی پہلے کی نسبت زیادہ غیر متوقع اور جابرانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ شاہ سلمان اپنے بھائی اور اُس وقت کے بادشاہ شاہ عبداللہ کی جانب سے ولی عہد مقرر کیے جانے سے پہلے ۵۰ سال تک ریاض کے گورنر رہے تھے۔اُس عرصے میں انھوں نے ایک چھوٹے سے صحرائی قصبے کے ایک جدید شہر بننے کے عمل کی نگرانی کی۔ اس دوران وہ بہت محتاط طریقے سے وہابی علماء کو بھی ساتھ لے کر چلے۔وہ شاہی خاندان کے نگران بھی تھے کیوں کہ خاندان کے اکثر افراد ان [مزید پڑھیے]
ایشیا کے مستقبل میں روس کا نیا کردار
چین کی تیز رفتار ترقی نے دنیا بھر میں کھلبلی مچائی ہے۔ امریکا اور یورپ کے ساتھ ساتھ روس اور دیگر علاقائی ممالک کے لیے بھی پریشانی کا سامان ہوا ہے۔ چین کی ترقی کا گراف بلند ہوتا ہوا دیکھ کر روس کو بھی کچھ کرنے کا خیال آیا ہے اور اُس نے اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ روس سپر پاور بھی رہا ہے اور ایک بار پھر اِس حیثیت کا حامل ہونے کا خواہش مند بھی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس کو ابھرنے کا کوئی ایسا موقع نہیں ملا جس سے غیر معمولی حد تک مستفید ہوا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ روسی قیادت علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے لیے بلند تر کردار کی تلاش [مزید پڑھیے]
بریگزٹ، برطانوی عوام اور یورپی یونین ، کس کو کتنا خسارہ؟
چھبیس جون ۲۰۱۶ء کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ (BREXIT) کو تو کامیابی بخش دی، لیکن اب حال یہ ہے کہ یورپی یونین سے کس طرح نکلنا ہے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بغیر معاہدے یونین کو چھوڑنے کا ڈر ستانے لگا ہے، کیونکہ یہ برطانیہ کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب نہ صرف برطانیہ کی معیشت یورپی یونین کے دیگر ملکوں کی نسبت بہتر تھی بلکہ بیروزگاری کی شرح بھی کم تھی، لیکن مزید طلب کی خواہش نے جنم لیا اور برطانوی عوام نے ملازمتیں غیرملکیوں کو ملنے اور معاشی مشکلات کے ڈر سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد لینے کے [مزید پڑھیے]
اکیسویں صدی اور ٹیکنالوجی کا چیلنج
انسانوں کا اُس لبرل کہانی پر سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے، جس نے حالیہ دہائیوں میں عالمی سیاست پر حکمرانی کی ہے۔ یہی وہ وقت بھی ہے جب بائیوٹیک اور انفوٹیک کا اتصال سب سے بڑا چیلنج بن کرہمارے سامنے آکھڑا ہوا ہے۔[مزید پڑھیے]
گولن تحریک۔۔۔ طریقہ ہائے فکر و کار | 2
فتح اللہ گولن نے سوچا کہ اب ایردوان کو چند جھٹکے دیے جانے چاہییں۔ ممکنہ طور پر انہی کی ایما پر بیورو کریسی میں موجود گولن نواز عناصر نے انٹیلی جنس کے سربراہ حکان فدان پر بدعنوانی کا الزام لگاکر ان کی گرفتاری کا وارنٹ نکلوایا۔ اس کے بعد ایردوان اور ان کے اہل خانہ پر بدعنوانی کا الزام عائد کرکے مواخذے کا مطالبہ کیا گیا۔ اور اس کے بعد ۱۷ دسمبر ۲۰۱۳ء کو حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی، جو یکسر ناکام رہی۔ لطیف ایردوان کہتے ہیں کہ فتح اللہ گولن نے ٹائمنگ کی غلطی کی اور اس کا انہیں افسوس بھی رہا۔ ایردوان نے عدلیہ، سول سروس اور سیکورٹی فورسز سے گولن کے معتقدین اور حامیوں کو نکالنا شروع کیا۔ ترک [مزید پڑھیے]
واشنگٹن اور انقرہ پھر آمنے سامنے
پچیس جنوری کو جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی قومی اسمبلی کے رہنما جوآن گائیڈو نے عبوری صدر بننے کا اعلان کیا۔ امریکا، کینیڈا، امریکی ریاستوں کی تنظیم اور براعظم امریکا کے گیارہ ممالک تو گویا اس اعلان ہی کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوری طور پر اس اعلان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف روس، چین، ایران اور کیوبا نے صدر نکولس مکدورو کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ان میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان بھی شامل ہوگئے۔ امریکا اور ترکی ایک بار پھر تصادم کی راہ پر ہیں۔ واشنگٹن نے انقرہ کو گھیرنے کی کئی کوششیں کی ہیں۔ ایک بڑا حملہ تو ترک معیشت پر کیا گیا، جو جھیل لیا گیا ہے۔ ترک صدر ایردوان کو اب امریکا سے الجھنے کا [مزید پڑھیے]
حسینہ واجد کا دورِ حکومت اور چین ۔ بنگلادیش تعلقات
چین ان چند ممالک میں شامل ہے جنھوں نے شیخ حسینہ واجد کو ۳۰ دسمبر ۲۰۱۸ء کو ملک میں ہونے والے گیارھویں انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے پر سب سے پہلے مبارکباد پیش کی۔ ڈھاکا میں تعینات چینی سفارت کار نے اپنے وفد کے ساتھ ۳۱ دسمبر کو وزیر اعظم ہاؤس کا سرکاری طور پر دورہ کیا اور حسینہ واجد کو چینی وزیراعظم اور صدر کی جانب سے انتخابات جیتنے پر مبارکباد کا پیغام پہنچایا۔ یہ سرکاری پیغام چین اور بنگلاد یش کے درمیان اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی تیزی سے پروان چڑھتے تزویراتی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ عرصے،خاص طور پر ۹۰ کی دہائی کے بعد سے معاشی ترقی اور قومی سلامتی کے امور میں بہتری کے حوالے [مزید پڑھیے]