شمارہ یکم جنوری 2011
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:4، شمارہ نمبر:1
افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے بارے میں سوچنے والوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کی نظر میں حامد کرزئی نا اہل، کرپٹ اور ایسے بدمزاج سیاست دان ہیں جنہیں فوری علاج کی ضرورت ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں افغان صدر نے قومی ضروریات کے مطابق تمام ضروری اقدامات کیے ہیں، قبائلی اور گروہی سیاست کو متوازن رکھنے اور قبائل سے تعلقات بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی ہے اور جو لامتناہی دکھائی دینے والی جنگ سے عوام میں پیدا ہونے والی بیزاری اور بدحواسی کے تناظر میں امریکا پر انحصار کے معاملے میں توازن پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ ایک خاص حد تک یہ دونوں مکاتب فکر درست [مزید پڑھیے]
افغانستان پر قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے فکر مند نیٹو اتحاد کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کے لیے پرتگال کے دارالحکومت لزبن کا چنائو ممکن ہے محض اتفاق ہو، لیکن تاریخ کے طالب علم خوب جانتے ہیں کہ سولہویں صدی عیسوی میں ایشیا اور افریقا کے وسائل اور دولت پر قبضے کے لیے نوآبادیاتی مہمات کا آغاز پرتگال ہی نے کیا تھا، دیگر یورپی قوموں نے اس مہم میں پرتگال کی پیروی کی۔ جدید استعمار کی اس بار نظریں جنوبی ایشیا پر اور توجہ کا مرکز افغانستان ہے، تمام استعماری اقوام مل جل کر قبضے کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور اس کے پیچھے جذبہ وہی صدیوں پرانا ہے یعنی کمزور قوموں کے وسائل ہڑپ کرنا۔ گیارہ ستمبر کے بعد امریکا کی سرکردگی میں [مزید پڑھیے]
پاکستان میں امریکا کے نئے سفیر کیمرون منٹر کیریئر ڈپلومیٹ ہیں۔ سربیا میں سفیر رہ چکے ہیں۔ عراق، چیک جمہوریہ اور پولینڈ میں بھی اہم سفارتی مناصب پر فائز رہے ہیں۔ کیمرون منٹر سے نیوز ویک پاکستان کے فرحان بخاری اور فصیح احمد نے جو گفتگو کی اس کے اقتباسات ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ٭ کچھ عرصہ قبل پاکستان اور امریکا کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات ہوئے تھے۔ ان مذاکرات سے بہت سی توقعات بھی تھیں اور خیال کیا جارہا تھا کہ ان سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں کسی بہتری کی توقع رکھنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ آپ اس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا یہ امر آپ [مزید پڑھیے]
مصر کے حالیہ انتخابات میں کالعدم اخوان المسلمون کے امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔ وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے۔ مصر کی صورت حال دیکھتے ہوئے اخوان کی مقبولیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ معیشت کا برا حال ہے۔ نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا۔ صحت عامہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں بھی ماہانہ ۲۲ امریکی ڈالر کی سطح پر آگئی ہیں۔ ایسے میں اخوان کے انتخابی امیدواروں نے پس ماندہ معاشرے کو امید دلائی کہ قوم کو جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ خود انہی کے ووٹوں اور اعمال سے آئے گا۔ ۴۲ سالہ ڈاکٹر ہودہ غنیہ نے انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران کہا کہ ملک کو تعلیم اور صحت عامہ کے شعبے میں [مزید پڑھیے]
ترکی اور روس وسط ایشیا اور ایشیائے کوچک میں اپنے اثرات کا دائرہ پھیلاتے جارہے ہیں۔ امریکی مصنف ایرک والبرگ نے الاہرام ویکلی میں لکھا ہے کہ ترکی اور روس مل کر امریکا کا راستہ روک رہے ہیں۔ امریکا میں مذہبی انتہا پسندوں نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان سے امریکا کے لیے وسط ایشیا میں پنپنے کی گنجائش پیدا کرنا مقصود ہے۔ تاہم اس راہ میں ترکی اور روس سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں جو کچھ ہوا اس کے بعد میدان جنگ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ۵۰۰ سال تک ایک بڑے رقبے پر محیط سلطنت پر حکمرانی کرنے والا ترکی ایک [مزید پڑھیے]
سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کا پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم مقام ہے۔ آپ رام پور کے شاہی خاندان کے چشم و چراغ اور دوسری جنگ عظیم کے ویٹرن ہیں ’’نیوز ویک‘‘ پاکستان کی نیلوفر بختیار نے اسلام آباد میں صاحبزادہ یعقوب علی خان سے بات چیت کی جو ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں: نیوز ویک: پاکستان کے سیاسی عدم استحکام میں کن عوامل نے مرکزی کردار ادا کیا ہے؟ صاحبزادہ یعقوب علی خان: بھارت میں جواہر لعل نہرو نے آزادی کے فوراً بعد جاگیرداری نظام ختم کردیا۔ اس دور میں مسلمانوں کے پاس زرعی زمینیں اچھی خاصی تھی۔ نہرو نے ایک تیر سے دو نشانے لگائے۔ ایک طرف تو مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر زرعی اراضی رکھنے [مزید پڑھیے]
اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے حکام کے درمیان بات چیت تھم گئی ہے۔ ایسے میں اسرائیل میں نئے انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں جو ۲۰۱۱ء میں ہونے ہیں۔ ان انتخابات کا بنیادی نکتہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کا قیام ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو بظاہر اپنی پارٹی پر غیر معمولی گرفت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ ایہود بارک ۹ برسوں میں لیبر پارٹی کے پانچویں لیڈر ہیں۔ اور ان کی پوزیشن بھی بہت نازک ہے کیونکہ ۱۲۰ رکنی ایوان میں لیبر پارٹی کی نشستیں صرف ۱۳ رہ گئی ہیں۔ ایوشے بریورمین ممکنہ طور پر لیبر پارٹی کے لیڈر بن سکتے ہیں۔ وہ ماہر معاشیات ہیں اور بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر کی حیثیت سے خدمات [مزید پڑھیے]
پاکستان کے دولخت ہونے کی خوں چکاں داستان بنگلہ بولنے والے ایک عاشقِ پاکستان کی تحریر ’’شکستِ آرزو‘‘ (The Wastes of Time) کی صورت میں آپ ’’معارف فیچر‘‘ کے شماروں میں قسط وار پڑھ رہے ہیں۔ آج ایک اور باب ملاحظہ فرمائیے۔ (ادارہ) ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا ’’میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ موت نے اِتنوں کو وجود سے عدم کی طرف دھکیلا ہے!‘‘ ڈھاکا سینٹرل جیل کا اندرونی حصہ میرے تمام خدشات سے زیادہ خراب نکلا۔ بیت الخلاء بہت پرانی طرزِ تعمیر کا نمونہ تھے جن میں صفائی کا انتہائی ناقص انتظام تھا۔ اور میرے لیے جو بات سوہانِ روح تھی وہ پرائیویسی کا نہ ہونا تھا، ہر شخص ہر وقت دوسروں کی نظروں میں تھا۔ مجھے ایک ایسے [مزید پڑھیے]
صنعتی اور سائنسی انقلاب تک امن کی بحالی کا کام کچھ زیادہ پیچیدہ نہ تھا مگر اب موجودہ صدی میں جب کہ دنیا کی آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، زندگی کافی ایڈوانس ہو چکی ہے۔ انسانی قدریں رفتہ رفتہ رخصت ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ حیوانی قدریں انسانی معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہیں۔ آج کے انسان کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل کرے۔ زن، زر اور زمین جنہیں کسی زمانے میں جھگڑے کی بنیاد کہا جاتا تھا اور انسان کو ان سے بچنے کی تلقین کی جاتی تھی آج کے انسان نے ان ہی چیزوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ اگر کسی کو یہ چیزیں حاصل ہیں تو [مزید پڑھیے]
سترہویں صدی عیسوی میں عثمانی ترکوں اور ایران کی صفوی حکومت کے درمیان ایک عرصے تک تنائو کی کیفیت رہی۔سن سولہ سو دو عیسوی میں عین اس وقت جب کہ عثمانی ترک آسٹریا سے جنگ میں مصروف تھے صفوی افواج نے حملہ کرکے تبریز، شروان اور بغداد کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ ان دونوں حکومتوں کے درمیان لڑائیوں کا اس قدر نقصان ہوا کہ ایک مغربی مؤرخ کو کہنا پڑا ’’یورپیوں کی شکست اور ترکوں کی فتح کے درمیان صفوی حائل ہیں‘‘۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ نہ ایران پر صفویوں کی حکومت رہی نہ بغداد پر عثمانیوں کا کنٹرول اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب بعض ایرانی علماء نے عثمانی خلافت کے خاتمے کی باضابطہ مخالفت کرتے ہوئے اسے برقرار رکھے جانے [مزید پڑھیے]
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی مفاد کے نام پر کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اسرائیلی پالیسیوں کے مطابق تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے موساد نے مختلف ادوار میں کئی ممالک کو نشانہ بنایا ہے۔ کسی بھی شخصیت کو قتل کرکے سیاسی، سفارتی اور معاشی فوائد بٹورنا اس ادارے کا وتیرہ رہا ہے۔ اسلحے کے کئی تاجروں کو موساد نے ٹھکانے لگایا۔ جیرارڈ بُل بھی ان تاجروں میں سے تھا۔ موساد نے جیرارڈ بُل کو ۱۹۹۰ء میں قتل کیا۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بین گوریان کو ایک بھیانک خواب اکثر ڈرایا کرتا تھا۔ اس خواب کے مطابق ہولو کاسٹ سے بچ جانے والے یہودی اسرائیل میں ہولو کاسٹ کا نشانہ بن رہے تھے۔ ۱۹۶۲ء [مزید پڑھیے]
وکی لیکس وہ ویب سائٹ ہے جس نے قیامت ہی ڈھا دی ہے۔ پہلے عراق سے متعلق ۳ لاکھ ۹۲ ہزار اور اس کے بعد افغانستان کے بارے میں امریکا کی ۷۶ ہزار خفیہ دستاویزات جاری کیں اور امریکا اور اس کے اتحادی ممالک میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اب وکی لیکس نے ڈھائی لاکھ سے زائد خفیہ امریکی دستاویزات جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو پھر بحرانوں کے آثار ہیں۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانچ کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ امریکا کی خفیہ دستاویزات جاری کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔ اب تک ماہرین یہ طے نہیں کرسکے کہ وکی لیکس کے بانی اس میدان میں تنہا کھڑے ہیں یا ان کے ساتھ کوئی اور نادیدہ قوت بھی [مزید پڑھیے]