شمارہ یکم جنوری 2012
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:5، شمارہ نمبر:1
جنوبی ایشیا میں پینے کے صاف پانی کا حصول ایک بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ اب بھی دریاؤں پر دباؤ غیر معمولی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں وولر جھیل میں پانی کی مقدار تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اس کا رقبہ بھی ۲۱۷ مربع کلومیٹر سے گھٹ کر اب صرف ۸۴ مربع میل رہ گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے بیشتر علاقوں کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں دریا، جھیلیں اور چشمے زیادہ ہیں اور انہیں استعمال کرنے والے کم مگر اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بھی پینے کے صاف پانی کا حصول دشوار ہوتا جارہا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اس مقام کی طرف جائیے جہاں بگلیہار ڈیم بنایا جارہا ہے۔ آپ کو ایک سفید دیوار پورے علاقے کو باقی وادی سے الگ کرتی ہوئی [مزید پڑھیے]
محمد سلام ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئے، آپ نے انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ قانون سے گریجویشن کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری امریکا کی نیویارک یونیورسٹی سے پبلک گورننس میں حاصل کی۔ ان کی زندگی تعلیم کے لیے وقف ہے۔ وہ جن جن مناصب پر رہے اس کی فہرست بنانا مشکل ہے۔ وہ شریک پروفیسر، پروفیسر، رئیس کلیہ (ڈین فیکلٹی) ریکٹر، ترکی کے چیمبرز اور کموڈیٹی ایکسچینجز یونین کے معتمد عمومی، اعلیٰ تعلیم بورڈ کے سربراہ (YOK) سول سرونٹس کے اخلاقی بورڈ کے سربراہ، اب وہ سیاسی معاملات میں شامل ہیں۔ آجکل چار میقات کے لیے پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے قومی تعلیمی کمیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ یورپین یونین اور ترکی کے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے نائب صدر رہ [مزید پڑھیے]
شمالی کوریا کے تعلق سے ہمارے نظریہ میں فی الحاق تبدیلی کا کم ہی امکان ہے۔ جہاں ایک طرف شمالی کوریا کے سرکاری ٹیلی ویژن پر شہریوں اور فوجیوں کو اس دکھ کی گھڑی میں سسکتے ہوئے دکھایا جارہا ہے، وہیں مغربی مبصرین انہیں مسترد کرتے ہوئے پروپیگنڈا بتا رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان میں سے زیادہ تر مناظر میں دکھاوا ہے، رسم کی ادائیگی ہے۔ یا تو یہ کیمرے کے لیے کیا جارہا ہے یا پھر یہ آمرانہ نظام کا اٹوٹ حصہ کامریڈوں اور مخبروں کے دھیان کھینچنے کا بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ ’’ڈیئر لیڈر‘‘ کی موت کے ماتم کا مظاہرہ محض ایک بھیڑ چال ہی ہے، لیکن کچھ لوگوں کے لیے شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کم جانگ اِل کا انتقال [مزید پڑھیے]
خلیجی ملکوں کی تجویز کو نافذ کرنے میں حائل رکاوٹوں میں سے دو رکاوٹوں کو عبور کرنے میں یمن کے مختلف سیاسی گروپوں، جماعتوں نے فوجی سیکوریٹی بورڈ اور قومی وفاقی حکومت تشکیل دے کر کامیابی حاصل کر لی ہے، ابتدائی مرحلہ اور تین ماہ تک برقرار رہنے والے ہنگامی مرحلے کے شروع میں یہی دونوں امور اور تجویز کے یہ دونوں پیراگراف سب سے اہم اور خطرناک تھے، یہ مرحلہ آئندہ ۲۱ فروری کو اس وقت ختم ہو جائے گا جب موجودہ نائب صدر مملکت عبدالرب منصور ہادی کو ملک کا دو سال کے لیے صدر منتخب کر لیا جائے گا، ان کے انتخاب کے بعد نگراں حکومت کے دوسرے مرحلہ کی شروعات ہوگی۔ فوجی سیکورٹی بورڈ اور وفاقی حکومت کو ملک میں امن [مزید پڑھیے]
عبوری حکمراں فوجی کونسل، اسلامی عناصر اور امریکی سفارت خانے کے چند ہفتوں کے تفاعل سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شاید مصر بہت جلد دوسرے پاکستان میں تبدیل ہو جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ مصر اگر تبدیل ہوگا تو پاکستان میں کیوں تبدیل ہوگا، ترکی کیوں نہیں بنے گا؟ مصر کے عوام طویل مدت سے خواہش مند رہے ہیں کہ ترکی کو نمونے کے طور پر قبول کیا جائے اور اس کی پالیسیاں اپنائی جائیں۔ لوگوں کی خواہشات اپنی جگہ مگر مصر تو پاکستان ہی میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے اور شاید پاکستان کا سب سے برا ورژن مصر میں سامنے آئے۔ مصر کی عبوری حکمراں سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی پاکستان میں ملٹری اتاشی [مزید پڑھیے]
افریقا میں غیرسرکاری تنظیمیں (NGOs) کے ساتھ کام کرنے والی جینی ولیمز نے اپنے کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’کیا ہمیں استعمال کیا جارہا ہے؟ کیاامداد و ترقی کے تصورات مغرب کے محض اوزار ہیں جو بھلائی کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں؟‘‘ جینی ولیمز سے میری واقفیت میری کتاب ’’اعترافات‘‘ کی تدوین کے دنوں میں ہوئی تھی۔ اس نے میرے ہارڈ کور پبلشر ’’بریٹ کوہلر‘‘ کے ہاں ملازمت شروع کی تھی۔ وہ بے حد تیز فہم تھی، کچھ عرصے بعد افریقا کے سفر پر نکلی تاکہ ایک غیر نفع بخش تنظیم کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرے۔ یہ تنظیم یوگنڈا اور سوڈان میں ’’ایمرجنسی ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ‘‘ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ اس [مزید پڑھیے]
فٹ بال کے میچوں میں دھاندلی پر سزاؤں سے متعلق بل پر بحث نے ترکی کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی صفوں میں اختلافات کو ہوا دی ہے۔ وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے بِل کو کسی تبدیلی کے بغیر پیش اور منظور کرنے کی بات کہی۔ نائب وزرائے اعظم بلند ارینک اور حیاتی یزیچی نے بل کے حق میں بیانات دیئے مگر صدر عبداللہ گل نے مجوزہ قانون کو ویٹو کردیا۔ بعض امور پر اختلافات نے دیگر بہت سی جماعتوں کی طرح اے کے پارٹی میں بھی اختلافات اور انتشار کو ہوا دی ہے۔ یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ اب تک دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ہر جماعت میں سفر کے درمیانی حصے میں مختلف [مزید پڑھیے]
علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی معرکۃ الآراء کتاب ’’بگاڑ کہاں؟‘‘ (این الخلل؟) ’’معارف فیچر‘‘ میں قسط وار شائع کی گئی۔ قارئین نے اسے بہت سراہا جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ ’’بگاڑ کہاں؟‘‘ کا آخری باب ملاحظہ فرمائیے۔ یوں یہ کتاب مکمل ہو گئی: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے کچھ اَٹل قوانین مقرر فرمائے ہیں جن کو سنتِ الٰہی کہا جاتا ہے۔ یہ خدائی ضابطے جس طرح آدم علیہ السلام کی اگلی نسلوں میں نافذ تھے، ٹھیک اسی طرح ان کے بعد کی نسلوں میں بھی جاری اورنافذ ہیں۔ سنتِ الٰہی کا معاملہ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ یکساں ہوتا ہے۔ یہ قوانینِ الٰہی کبھی اور کسی کے معاملے میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوتے: فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا وَلَن تَجِدَ [مزید پڑھیے]