شمارہ یکم جون 2019
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:12، شمارہ نمبر:11
چین: ناکامی کو شکست!
ماؤ کی موت کے بعد غیر یقینی کے برسوں میں،چین کے صنعتی طاقت بننے سے بہت پہلے چینی معاشی طالبعلموں کا ایک گروپ شنگھائی سے باہر ایک پہاڑ پر جمع ہوا، نوجوان اسکالروں کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ ہم مغرب کی برابری کس طرح سے کرسکتے ہیں، یہ ۱۹۸۴ء کا موسم خزاں تھا اور دوسری جانب رونلڈ ریگن امریکیوں سے ایک بارپھر نئی صبح کا وعدہ کررہے تھے، اس دوران چین کئی دہائیوں بعد معاشی اور سیاسی بحران سے نکل آیا تھا، ملک میں ترقی ہوئی تھی مگر پھربھی چین کی تہائی آبادی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہی تھی۔ چین میں ریاست فیصلہ کرتی تھی کہ کون شخص کہاں کام کرے گا، کس کارخانے میں کیا بنایا جائے گا اور اس کی [مزید پڑھیے]
عباسی مدنی رخصت ہوئے!
الجیریا حزب اختلاف کے معروف رہنما ’’عباسی مدنی‘‘ ۸۸ سال کی عمر میں ۲۴؍اپریل ۲۰۱۹ء کو قطر میں انتقال کر گئے۔ مدنی ۲۸ فروری ۱۹۳۱ء میں الجیریا کے جنوب مشرقی شہر Biskra کے نزدیک پیدا ہوئے۔انھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لندن سے حاصل کی اور الجیر یونیورسٹی میں لیکچرار ہوگئے۔ ۱۹۵۴ء میں فرانس کی قابض فوج نے ان پر جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کر لیا اور یہیں سے انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ پھر وہ ۱۹۶۲ء میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جیل سے رہا ہوئے۔ لیکن بہت جلد ہی حکومتی جماعت نیشنل لبریشن فرنٹ سے دوری اختیار کرلی۔ فرانسیسی زبان کے بجائے عربی کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کی وجہ سے ۱۹۸۲ء میں ان کو دوبارہ جیل [مزید پڑھیے]
ایران، پراکسی جنگ کی تیاریاں؟
انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں اپنی تمام حامی ملیشیاز سے کہا ہے کہ وہ پراکسی وار (ڈھکی چھپی جنگ) کے لیے تیار رہیں۔ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی حکام نے حال ہی میں عراقی دارالحکومت بغداد میں ملیشیاز کے لیڈروں سے ملاقات میں اُن سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کریں۔ سینئر انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا کہ انتہائی طاقتور قدس فورس کے لیڈر قاسم سلیمانی نے تین ہفتے قبل تہران کے زیر اثر کام کرنے والی ملیشیاز کا اجلاس بغداد میں طلب کیا۔ کہا جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ایران کو ایسا کرنے کے لیے دھکیلا ہے۔ برطانیہ نے بھی [مزید پڑھیے]
بھارت چین تعلقات میں اتار چڑھاؤ
ایک برس قبل چین کے شہر ’’وہان‘‘ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر ژی جن پنگ کی نہایت دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے ہوئے اور مختلف مواقع کی تصاویر سامنے آئیں۔ ان دونوں رہنماؤں کی پر فضا مقامات اور ایک کشتی پر ساتھ چائے پیتے ہوئے لی گئی تصاویر اس بات کی نشاندہی کر رہی تھیں کہ ایشیا کے ان دو حریف ممالک کے درمیان کشیدگی کے ایک دور کے بعد اب حالات معمول پر آرہے ہیں۔ لیکن ’’ہنی مون‘‘ کا یہ دور بہت جلد اختتام کو پہنچ گیا۔ گزشتہ ماہ چین نے چوتھی مرتبہ اقوام متحدہ میں، پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کا باعث بننے والے گروہ کے سربراہ کا نام ’’بلیک لسٹ‘‘ میں ڈالنے سے روکنے کے لیے اپنا [مزید پڑھیے]
امریکا چین تجارت یا سیاست؟
امریکیوں کے لیے سیفٹی نیٹ یقینی بنانا ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کم ازکم اتنا ہی جوش و خروش دکھایا جانا چاہیے جتنا چینی اشیا پر ڈیوٹی عائد کیے جانے کے حوالے سے دکھایا جاتا رہا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان اس وقت تجارت کے حوالے سے جس قدر بھی کشیدگی ہے اس کا تعلق بجٹ کے خسارے سے ہے نہ چینی درآمدات پر عائد کیے جانے والے ٹیرف سے۔ یہ معاملہ ہے امریکی ریاستوں پنسلوانیا، وسکونسن، اوہایو اور مشی گن کا۔ چینیوں کی مجموعی رائے یہ ہے کہ امریکا میں ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں ہی چین کو قربانی کا بکرا بنائے ہوئے ہیں کیونکہ اِنہیں اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کے لیے کوئی نہ کوئی یا کچھ نہ کچھ درکار ہے جسے [مزید پڑھیے]
مذہب: خدا قوم کا خدمت گاربن گیا! | باب 8
تاحال، جدید نظریات، سائنسی ماہرین اور قومی حکومتیں انسانوں کے لیے مستقبل کا کوئی قابل عمل وژن دینے میں ناکام ہیں(جدید مغربی نظام کی ناکامی کا اعتراف ہے)۔ کیا ایسا کوئی وژن روایتی مذاہب سے حاصل ہوسکتا ہے؟ ممکن ہے اس سوال کا جواب قرآن، انجیل، یا ویدوں کے صفحات میں کہیں ہمارا انتظار کررہا ہو۔(سوال معقول ہے)۔ سیکولرحضرات اس بات پر شاید استہزاء کریں یا اظہار تشویش کریں۔ کیونکہ مقدس صحیفے ازمنہ وسطیٰ سے متعلق تو شاید رہے ہوں، مگر مصنوعی ذہانت، سائبر وار فیئر، بائیو انجینئرنگ اورعالمی حدت کے دورمیں یہ مذاہب کس طرح رہنمائی کرسکتے ہیں؟ (یہ سوال قرآن حکیم سے واقفیت کے بعد ممکن نہیں۔ یعنی پروفیسر نوح ہراری نے مغرب کے لگے لپٹے تصورمذہب کویہاں دہرادیا ہے۔ انہوں نے مستقبل [مزید پڑھیے]
پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا منصوبہ
ہمسایہ ممالک خصوصاً برادرمسلم ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کابنیادی ستون ہیں۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اگر برادرمسلم ممالک کے درمیان کوئی غلط فہمی یاتنازع ہے تو اسے بات چیت کے ذریعے حل کرایا جائے۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات تاریخی اور مثالی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایران کو اپنا دوست اور بھائی سمجھا ہے۔ دونوں ممالک نے ماضی میں ہر آزمائش اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا اور مدد کی۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو سب سے پہلے ایران نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ اسی طرح جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو پاکستان نے فوری طور پر نئی حکومت کو تسلیم کرلیا اور بھرپور تعاون کیا۔ اسی طرح بہت [مزید پڑھیے]
پاکستان میں بجٹ خسارہ نہیں، اعتماد کا خسارہ ہے!
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ ۱۰ماہ کے حکومتی تجربے اور معاشی بدحالی کے بعد اپنی سیاسی اور معاشی ٹیم پر عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی ٹیم بھی بدل دی ہے۔ اگرچہ کچھ تبدیلیوں پر سیاسی اور کاروباری حلقے شکوک و شبہات اور ناکامی کا اظہار کررہے ہیں، مگر ایک ایسی تقرری بھی ہے جس پر اپوزیشن اور معاشی تجزیہ کاروں کو بہت زیادہ اعتراض نہیں ہے، یعنی چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے عہدے پر شبر زیدی کی تقرری۔ شبر زیدی سے میری پہلی ملاقات سال ۲۰۰۶ء میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (آئی کیپ) کے صدر منتخب ہوئے تھے اور اس وقت مجھے کئی مرتبہ ان کو سننے کا موقع ملا۔ [مزید پڑھیے]
پاکستان میں جامعات کا نظام | 2
اگر کسی کو پاکستان کی یونیورسٹیوں کے نظام میں بنیادی مسئلہ دیکھنا ہو تو وہ کسی بھی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے بعد دوسرے درجے کی قیادت میں پوشیدہ ملے گا۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کے نظام میں وائس پریذیڈنٹس، وائس ریکٹرز، فیکلٹی ڈینز وغیرہ، سب سے زیادہ متذبذب یا مجھے کہہ لینے دیجیے، سب سے زیادہ مہمل طبقہ ہوگا۔ ان درجن بھر تعداد کی یونیورسٹیوں میں، جہاں میری واقفیت رہی ہے تقریباً ہر ایک میں ہی، اس درجے کے لوگ حد درجہ کاہل اور تمام مسائل کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ اکثر ایسی یونیورسٹیوں میں جہاں وائس چانسلر کی تعیناتی کے عمل میں کچھ جانچ پڑتال کی جاتی ہے وہاں یہ ساری جانچ اس وقت خاک میں مل جاتی ہے جب کسی پرووسٹ، وائس ریکٹر [مزید پڑھیے]
صومالیہ میں ڈرون حملے
میں نے گزشتہ سال ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھیوں کے ساتھ صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کا سفر کیا۔ ہمارا مقصد امریکی فضائی حملوں میں بچ جانے والے افراد کا انٹرویو کرنا تھا۔۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد سے ہی امریکا نے صومالیہ میں اکا دکا فضائی حملے شروع کر دیے تھے جن کا نشانہ مشرقی افریقا میں موجود القاعدہ کے لوگ ہوتے تھے۔اب یہ حملے الشباب نامی دہشت گرد تنظیم کے خلاف ہوتے ہیں۔ صومالیہ میں پہلا ڈرون حملہ ۲۰۱۱ء میں صدر اوباما کے دورِ صدارت میں ہوا۔ لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے خصوصی حکم نامہ جاری ہونے کے بعدناصرف صومالیہ میں ہونے والے فضائی حملوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے بلکہ عام شہری بھی مزید غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ [مزید پڑھیے]