شمارہ یکم نومبر 2019
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:12، شمارہ نمبر:21
پاک روس تعلقات کے بھارت پر اثرات
سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے روس پاکستان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے،لیکن حالیہ کچھ عرصے میں ان تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے۔قیام پاکستان کے وقت سے ہی سرد جنگ کی وجہ سے روس سے تعلقات اچھے نہیں تھے،پھر ۸۰ کی دہائی میں سی آئی اے کے کہنے پر پاکستان نے افغان مجاہدین کی حمایت کر کے اپنے تعلقات مزید خراب کر لیے۔چونکہ روس کی بھارت کے ساتھ دوستی تھی اور پاکستان امریکا کا اتحادی رہا تو اس کے نتیجے میں دو طرفہ تعلقات ایک حد تک ہی رہنے تھے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد دونوں طرف سے تعلقات میں بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ کو شش نہیں کی گئی۔۲۰۰۳ء میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے [مزید پڑھیے]
افریقی ممالک نے اپنی سرحدیں کیوں بند کیں؟
کینیا، روانڈا اور سوڈان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں اپنے ہمسائے ممالک کے لیے سرحد کی بندش کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اب ان ممالک میں نائیجیریا اپنی سرحد کو بند کرنے والا تازہ ترین افریقی ملک بن گیا ہے۔ سرحد کی اس بندش کی وجہ سفارتی تنازعات، سیکورٹی خدشات، صحت سے متعلق معاملات اور معاشی تحفظات وغیرہ شامل ہیں۔ براعظم افریقا کی سب سے بڑی معیشت نائیجیریا کی طرف سے یہ اقدام درحقیقت براعظم کے انضمام کی کوششوں پر تمانچا ہے۔ حالانکہ حال ہی میں افریقی ممالک کے درمیان سامان اور افراد کی آزادانہ نقل وحمل کا ایک معاہدہ ہوا ہے۔ان ممالک نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ اقدامات اُٹھائے ہیں،ان ممالک نے یہ اقدامات کیوں کیے، آیے جائزہ لیتے ہیں۔ نائیجیریا [مزید پڑھیے]
افغانستان ’’خاموش انخلا‘‘ کی کہانی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات کئی بار برملا کہی ہے کہ امریکا کو دُور افتادہ خطوں میں لاحاصل جنگوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی حکام افغانستان سے فوجیوں کو خاموشی سے نکال رہے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایک سال کے دوران افغانستان سے دو ہزار فوجیوں کو چپ چاپ نکال لیا ہے۔ یہ خاموش انخلا کابل حکومت کے علم میں ہے اور اس حوالے سے باضابطہ دستاویزی کارروائی بھی کی گئی ہے۔ یہ انخلا اس اعتبار سے حیرت انگیز ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ چکا ہے اور ان سے کسی باضابطہ معاہدے کی منزل بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے ٹاپ کمانڈر جنرل آسٹن ایس ملر نے ایک [مزید پڑھیے]
چین جرمن تعلقات
رائے عامہ کے جائزوں کے حوالے سے عالمگیر شہرت کے حامل امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے تحت ہونے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں ۵۳ فیصد افراد چین کو مثبت نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جرمنی اب واضح طور پر مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔ چین اور جرمنی کے باضابطہ سفارتی تعلقات اکتوبر ۱۹۷۲ء میں قائم ہوئے تھے۔ تب سے اب تک دونوں ممالک تعلقات مستحکم تر کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ ۲۰۰۴ء سے دونوں ممالک سالانہ اجلاس طلب کرتے آئے ہیں اور ۲۰۱۰ء سے اب تک گورنمنٹ کنسلٹیشن میکینزم پر عمل کرتے آئے ہیں۔ ۲۰۱۴ء میں دونوں ممالک نے باہمی تعلقات کو جامع اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے ذریعے مزید مستحکم کیا۔ ۲۰۰۶ء سے اب تک جرمنی نے [مزید پڑھیے]
بھارت: دفاع کے نام پر!
جب نصف درجن ٹرک تعمیراتی سامان کے ساتھ کھیتوں میں آکر رکے تو بریان سنگھ اور بوبیا گاؤں کے دیگر مکینوں کو اندازہ ہوگیا کہ بہت جلد ان کی مزید زرعی اراضی قومی سلامتی اور دفاع کے نام پر فوج کے کھاتے میں چلی جائے گی۔ بپھرے ہوئے کسانوں نے ٹھیکیداروں اور مزدوروں کو مار بھگایا اور احتجاج کے دوران ٹرکوں کے پہیوں سے ہوا بھی نکال دی۔ ویسے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس سے کچھ نہیں ہوگا، پرنالہ وہیں گرتا رہے گا۔ بریان سنگھ نے رائٹرز کو بتایا کہ ہمارے دیہات میں فوج کا بنیادی ڈھانچا پنپ رہا ہے اور ہمارے زیر تصرف زرعی اراضی کا رقبہ گھٹتا جارہا ہے۔ بھارتی فوج پاکستانی سرحد سے متصل بوبیا گاؤں میں نصف سے زائد [مزید پڑھیے]
پاکستان میں ’’متوسط طبقے کی موت‘‘
ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات اور ٹیکس نیٹ میں وسعت کے ذریعے اہداف حاصل کرنے سے متعلق اقدامات نے وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی اساس کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ ووٹرز اور کاروباری افراد عمران خان کے متعارف کرائے ہوئے اقتصادی پروگرام کا دکھ پوری شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ راولپنڈی کے راجہ بازار میں جوتوں کا سیلزمین قیصر محمود کہتا ہے کہ ’’پاکستان میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کی موت واقع ہو رہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بجلی کے بل بھی قیامت ڈھا رہے ہیں۔ ان سب سے کچھ بچ پائے تو انسان جوتے [مزید پڑھیے]
زندگی کوئی کہانی نہیں!
جیسے جیسے ماحول کی اجنبیت معمول بن جائے گی، تمہارے ماضی کے تجربات اورساری انسانیت کے تجربات غیرمتعلق ہوجائیں گے۔ انسانوں کوایسے حالات پیش آئیں گے جن کا پہلے کبھی تاریخ میں گزربھی نہ ہوا ہوگا۔ جیسا کہ سپر انٹیلی جنٹ مشین، انجینئرڈ اجسام، ایلگوریتھم جوتمہارے جذبات کنٹرول کریں گے، موسموں کی ہولناک تبدیلیاں، اورہردہائی میں پیشہ بدلنے کی ضرورت حیران کُن ہوگی۔ انتہائی غیرمتوقع صورتحال میں صحیح لائحہ عمل کیا ہوگا؟ جب معلومات کا ایک سیلاب آئے گا توتم کس طرح اس کا تجزیہ کرسکو گے؟ ایک ایسی دنیا میں زندگی کیسی ہوگی جہاں غیر یقینی کی کیفیت عام ہوگی؟ ایسی دنیا میں بقا کے لیے بہت لچکدارذہن، متوازن جذبات لازم ہوں گے۔ اکثرتمہیں ان چیزوں کو فوراً ترک کرنا پڑے گا، جنہیں اب [مزید پڑھیے]
بی جے پی کے لیے ’’ریمائنڈر‘‘
مہا راشٹر اور ہریانہ میں حالیہ اسمبلی انتخابات نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا مارچ کسی حد تک روک دیا ہے۔ یہ حزب اختلاف کے لیے اچھا موقع ہے۔ اگر وہ کوشش کرے تو اپنی ساکھ بحال کرکے دیگر ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ عام انتخابات کے لیے بھی رائے عامہ کو اپنے حق میں کرسکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حزب اختلاف شکست پسند ذہنیت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ایک ہی صورتِ حال کو کہیں کچھ کہا جارہا ہے اور کہیں کچھ۔ اخبارات میں بزنس کے صفحات پڑھ جایے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ معیشت تو بہت بری حالت میں ہے۔ مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے اور افلاس ہے۔ لوگوں کے لیے دو وقت [مزید پڑھیے]
نوبل انعام برائے ادب۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء
نوبل انعام کی وجہ تسمیہ سویڈن سے تعلق رکھنے والا سائنس دان الفریڈ نوبل (Alfred Nobel) ہے، جس نے ۱۸۶۷ء میں ڈائینا مائٹ بم ایجاد کیا تھا۔ اس بم کی ایجاد کا محرک جنگ ِکریمیا (Crimean War) ہے، جس کے لیے الفریڈ نوبل کی خاندانی فیکٹری اسلحہ اور بارود سازی کا کام کرتی تھی۔ ۱۸۵۳ء سے۱۸۵۶ء کے درمیان یہ جنگ لڑی گئی۔ نوبل انعام کے اعلان کی سالانہ روایت ۱۱۸؍ سال سے جاری ہے۔ انعام یافتگان کو ایک خطیر رقم بھی انعام کے ساتھ دی جاتی ہے۔۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء کے لیے منتخب ہونے والے دونوں مصنفین کو الگ الگ نو لاکھ دس ہزار سویڈن کرنسی کرونا (پاکستانی روپیہ:ایک کروڑ ۴۵ لاکھ ۵۲ ہزار) کی شکل میں دی جائے گی۔ سویڈش اکیڈمی (The Swedish Academy) نے [مزید پڑھیے]
کشمیر کی آزادی۔۔۔ اب یاکبھی نہیں!
یقیناً یہ عنوان چونکا دینے والاہے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ بلکہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، اس نے کشمیر کی آزادی کو ایک ناقابلِ انکار حقیقت بنا کر رکھ دیا۔ کشمیر میں بھارت کی فوج کی تعداد ۹ لاکھ ہو یا ۲۰ لاکھ یا ایک کروڑ، یہ بات ناقابلِ تردید حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ بھارت چاہے جتنا زور لگالے وہ کشمیریوں کے دل نہیں جیت سکتا۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو دفعہ ۳۷۰ اور دفعہ ۳۵۔اے کے تحت کشمیریوں کو جو فریب دیا گیا، کشمیری اس پر صبر و شکر کر لیتے۔ بھارت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دے کر دیکھ لیا، ظلم و ستم ڈھا کر [مزید پڑھیے]
کرپشن ہے کیا؟
گوئبلز (Goebbels) ہٹلر کا پروپیگنڈا وزیر تھا، اس کا قول مشہور ہے کہ ’’جھوٹ بولو، اسے اتنا پھیلاؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘۔ دَور حاضر میں لفظ ’’کرپشن‘‘ کی جو بے تحاشا تکرار ہوئی اس پر اسی گوئبلی فلسفے کا اثر ہے۔ خود ہمارے ملک میں کچھ سیاسی عناصر کی کرپشن کے بارے میں اسی گوئبلی فلسفے کا آغاز کرنے سے پہلے ۲۰۱۱ء موجودہ برسراقتدار گروہ کے سرخیلِ اول کا ایک جملہ جسے اس وقت سیاسی لطیفہ سمجھ کر نظرانداز کیا گیا، وہ ہوسِ اقتدار کی ایک خاص ذہنیت کی عکاسی کر رہا تھا۔ شاید پروپیگنڈے کی دھول میں دب کر بہت سے لوگوں کی سوحِ یاد پر نہ رہا ہو، جملہ کچھ یوں تھا: ’’میاں صاحب جانڑ دیو، ہُن ساڈی باری آنڑ دیو‘‘۔ [مزید پڑھیے]