شمارہ یکم نومبر 2020
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر: 13، شمارہ نمبر: 21
بدمعاش سپر پاور
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی خارجہ پالیسی کی اوور ہالنگ کا وعدہ کرتے ہوئے ایوانِ صدر میں وارد ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے انہوں نے امریکا کے اتحادیوں کا تمسخر اڑایا ہے، امریکا کو بین الاقوامی معاہدوں سے الگ کیا ہے اور دوستوں، دشمنوں میں فرق کیے بغیر تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں۔ سیاسی اور سفارتی امور کے بہت سے ماہرین ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ پالیسی کے ہاتھوں بین الاقوامی لبرل نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ماتم کر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے دنیا بھرمیں ایسے لبرل اداروں کا نظام کام کر رہا ہے جن کی مدد سے دنیا بھر میں لبرل اقدارکو فروغ دینے کی کوششیں بہت حد تک کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ ان ماہرین کو [مزید پڑھیے]
کپڑا لال تھا، ہم نے ہرا سمجھ لیا!
معروف امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کی آفیشل ویب سائٹ پر ۸؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو رافیلو پینٹوشی (Raffaello Pantucci) کا ایک مضمون شائع ہوا۔ ’’انڈینز اینڈ سینٹرل ایشینز آر دی نیو فیس آف دی اسلامک اسٹیٹ‘‘ (داعش کا نیا چہرہ بھارتی اور وسط ایشیائی باشندے) کے زیر عنوان شائع کیے جانے والے اس زہریلے مضمون میں بدنامِ زمانہ انتہا پسند تنظیم دی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے اثرات سے خبردار کیا گیا تھا۔ اس تنظیم کو عربی میں دولتِ اسلامیہ عراق و شام (داعش) کہا جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ مضمون متعلقہ ویب سائٹ پر نمودار ہوا، پاکستان کی تمام بڑی اردو خبر ایجنسیوں نے جیسے تیسے اور خاصی عجلت میں اِس کا ترجمہ کرایا اور پورے [مزید پڑھیے]
جنوبی امریکا میں نئی ’گلابی لہر‘
(بولیویا کا شمار جنوبی امریکا کے انتہا پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ بولیویا میں سیاسی و معاشی عدم استحکام رہا ہے۔ عشروں تک غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہنے سے معاملات اتنے بگڑے ہیں کہ مایوسی عوام کے ذہنوں کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ بولیویا کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک ایوو موریلز (Evo-Morales) کی مطلق العنان حکومت کے تحت رہا ہے۔ اس دوران تھوڑی بہت اچھائیاں اور اچھی خاصی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ایوو موریلز نے ملک کو جتنا دیا اس سے کہیں زیادہ لیا۔ اب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں گزشتہ برس متنازع انتخابات کے بعد عوام کے شدید احتجاج کے باعث فرار ہوکر ارجنٹائن میں پناہ لینا پڑی تھی۔) ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر جنوبی [مزید پڑھیے]
نگورنو کاراباخ: پسِ پردہ کیا ہے؟
نگورنو کاراباخ کے حوالے سے آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازع نہ تو دائمی نوعیت کا ہے اور نہ ہی قدیم دشمنی کی بنیاد پر ہے۔ روسی سلطنت کی آمد سے قبل دونوں ریاستیں صدیوں تک پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندہ رہی ہیں۔ اس وقت نگورنو کاراباخ کے حوالے سے جو تنازع دونوں ممالک کے درمیان پایا جاتا ہے وہ اس وقت شروع ہوا جب آرمینیا کی افواج نے آذر بائیجان کی زمین پر قبضہ کیا۔ آرمینیا نے آذر بائیجان سے اپنے تنازع کو تہذیبوں کا تصادم قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کرسچین کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ آرمینیا کا پروپیگنڈا زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس وقت آذر بائیجان اُتنا ہی [مزید پڑھیے]
سعودی عرب کی موجودہ صورت حال
سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے پرانا اتحادی ہے۔ یہ ۱۹۴۳ء کی بات ہے جب امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ کو دعوت دی کہ وہ اپنے بیٹوں کو واشنگٹن کے دورے پر بھیجیں تاکہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جاسکے۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے فیصل کو بھیجا جو بعد میں بادشاہ بنے۔ ۱۹۴۵ء میں ویلنٹائن کے دن مصر میں تاریخی اجلاس ہوا، جس میں امریکا نے ابن سعود کے ساتھ براہ راست معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ بہت سادہ رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا نے سعودی عرب کے توانائی کے ذخائر تک رسائی حاصل کی اور بدلے میں سعودی عرب کی داخلی اور خارجی [مزید پڑھیے]
انسانیت پسندی (Humanism)
حقوق انسانی، جمہوریت، لبرل ازم، ترقی پسندی، سیاسی اسلام، قومیت اگر ان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو تمام تر فرق اور باہمی کشمکش کے باوجود جو ان کے درمیان موجود ہے یہ بات واضح طور سے سامنے آئے گی کہ یہ تمام نظریات دراصل انسانیت پسندی یا ہیومنزم کی جڑ سے نکلی ہوئی مختلف شاخیں ہیں۔ ہیومنزم کی تعریف کے حوالے سے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ فکری ونظریاتی رجحانات کی جتنی بھی مذہبی، فلسفیانہ یا سیاسی شکلیں آج موجود ہیں ان میں سب سے گہری اور سب سے قدیم یہی ہیومنزم ہے۔ ہیومنزم کا پورا تصور تین اہم بنیادوں پر قائم ہے، یا یوں سمجھیں کہ ہیومنزم کے تین بڑے عقائد یا مسلمات ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اس کائنات کا [مزید پڑھیے]
قطر متحدہ عرب امارات تنازع اور واشنگٹن
خلیجی ریاستیں اب تک تقریبا ۱۰۰ملین ڈالر اس مہم جوئی پر خرچ کر چکی ہیں، جو انہوں نے سفارتی تعلقات کے خراب ہونے کے بعد ۳ سال سے شروع کی ہوئی ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے امریکا قطر اسٹریٹیجک مذاکرات کا افتتاح کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ خلیجی ریاستوں کے تنازعات اب ماضی کا حصہ ہیں، یہ ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کو دفن کر کے سفارتی تعلقات کا نئے سرے سے آغازکر چکی ہیں لیکن پومپیو کے بیان کے برعکس ۱۰۰ ملین ڈالر کی رقم یہ ظاہر کرتی ہے کہ سفارتی تعلقات کی تجدید میں ابھی مزید وقت لگے گا۔ اصل موضوع یہ ہے کہ ۳ سال پہلے دو خلیجی ریاستوں کے سفارتی تعلقات ختم ہونے کے [مزید پڑھیے]
امریکا ’نازک دور سے گزر رہا ہے!‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والے صدارتی انتخابات سخت تنازع اور کشمکش کا شکار ہیں۔ اگر حالیہ امریکی تاریخ کی روشنی میں بات کی جائے تو یہ انتخابات سب سے زیادہ نتیجہ خیز انتخابات میں سے ایک ہوں گے۔ اس بار ہونے والی انتخابی مہمات کے دوران پُرجوش ماحول سے ہٹ کر بات کی جائے تو کئی ریاستوں میں رائے دہی کے طریقہ کار کو درپیش قانونی چیلنجز سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکا کو سیاسی ہنگامہ آرائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اب جبکہ صدارتی انتخابات میں محض دو ہفتے ہی رہ گئے ہیں، تو امریکا اور دنیا بھر میں ان انتخابات کے حوالے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کیا انتخابات [مزید پڑھیے]