شمارہ یکم اکتوبر 2019
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:12، شمارہ نمبر:19
سعودیوں کی ’’خام خیالی‘‘
سعودی قیادت کو یہ اندازہ تھا کہ اس کی سرزمین کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا مگر یہ خام خیالی تھی۔ سعودی عرب میں تیل کے انفرا اسٹرکچر پر حملے کے حوالے سے سعودی قیادت نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے، وہ اس بات کا غماز ہے کہ انہیں بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ آئل انفرا اسٹرکچر کو کسی بھی وقت آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب نے سلامتی پر اب تک غیر معمولی اخراجات برداشت کیے ہیں۔ سعودی عرب میں امریکی فوجی بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود سعودی قیادت اور معیشت کے تاج کے ہیروں کو ایک بڑی ضرب لگانے میں دشمن کامیاب رہے ہیں۔ نئے سعودی وزیرِ توانائی کو بنیادی چیلنج درپیش ہے کہ تیل کے انفرا اسٹرکچر کو جلد از [مزید پڑھیے]
طالبان امریکا امن مذاکرات
صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے طالبان اور افغان حکومت سے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی اور اس وجہ سے امن مذاکرات کی صورتحال غیر واضح ہوگئی ہے، لیکن یہ ایک بہترین موقع ہے کہ پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھا جائے اور انہیں سدھارا جائے تاکہ مستقبل کے مذاکرات موثر ثابت ہوں۔[مزید پڑھیے]
کشمیر کی آزادی۔ اب یا کبھی نہیں!
پانچ اگست کی صبح مقبوضہ کشمیر میں ۷۲ سال سے غاصب بھارت کا جبر سہتے کشمیری سو کر اٹھے تو دنیا بدل چکی تھی۔ موبائل فون دم توڑ چکے تھے۔ ٹیلی فون کی زمینی لائنیں کاٹ دی گئی تھیں۔ انٹرنیٹ کے رابطے منقطع ہوچکے تھے۔ اچانک اسپتال پہنچنے والے نہ اپنی علالت کی اطلاع دے سکتے تھے نہ کسی نومولود کی آمد کی خوشی میں کسی کو شریک کرسکتے تھے۔ سڑکوں پر بھارتی فوج کے بوٹوں کی دھمک فضا میں مزید خوف و ہراس پھیلارہی تھی۔ جنوبی ایشیا میں ایک اور سیاہ دن اندھیرے اْگل رہا تھا۔ ۱۹۴۷ء میں بھی ۱۵؍اگست ایسی ہی ظلمتیں لے کر وارد ہوا تھا۔ ۷۲سال سے کشمیر کے مظلوم اور مجبور مسلمان شہری مسلسل جدو جہد میں محو ہیں۔ جانوں [مزید پڑھیے]
بھارتی عدلیہ کا شرمناک روپ
بھارت کے جج کشمیر میں حکومتی زیادتیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے فیصلوں کو غیر معمولی تاخیر سے دوچار رکھا تو کسی بھی پیچیدہ یا متنازع معاملے پر رولنگ دینے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔ دو ماہ قبل بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت ہی دیدہ دلیری سے سات عشروں سے برقرار قانونی نظیر ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت سے محروم کردیا یعنی اس کی نیم خود مختار حیثیت ختم کردی۔ حکومت نے جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو ختم کرکے پورے خطے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور دونوں کو یونین ٹیریٹری یعنی مرکز کا علاقہ قرار دے دیا۔ اب جموں و کشمیر پر نئی دہلی کی قومی یا مرکزی [مزید پڑھیے]
افریقا میں جمہوریت کے امکانات | 2
کانگو: کانگو میں اصلاحات اور تبدیلی کا عمل زیادہ مشکل تھا۔ نومنتخب صدر Tshisekedi انتقا لِ اقتدار کے عمل سے بخوبی گزر تو چکے ہیں لیکن ان کی جیت مشکوک ہے۔ اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ حقیقتاً حزب اختلاف کے ایک اور امیدوار الیکشن جیتے تھے۔ غیر متوقع نتیجے سے یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ Tshisekedi نے سابق صدر Joseph kabila سے کسی قسم کا معاہدہ کیا ہے، جس کی وجہ سے ملکی سیاست پر ان کا اثر باقی رہے گا۔ اگر ایسی کوئی ڈیل ہوئی ہے تو یہ مستقبل میں Tshisekedi کے کام کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ Tshisekedi کی جماعت کو پارلیمان میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ Tshisekedi کو اپنا [مزید پڑھیے]
سعودی امریکی تعلقات کا مستقبل؟
جمال خاشقجی کا سایا اب تک سعودی عرب کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو امید تھی کہ یہ معاملہ جیسے تیسے رفع دفع ہو جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ سیکورٹی کے حوالے سے سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کم و بیش ۷۵ برس پر محیط ہیں۔ یہ تعلقات اب داؤ پر لگتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ امریکا کے لیے جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد محمد بن سلمان کے مبینہ کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ سعودی منحرف جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ کے اندر بلایا گیا۔ انہیں اپنی شادی کے سلسلے میں دستاویزات درکار تھیں۔ دستاویزات حوالے کرنے کے بہانے بلاکر جمال خاشقجی کو قتل کرادیا گیا۔ اقوام [مزید پڑھیے]
سچ کی تلاش
یہ سچ ہے کہ انسان سارے علوم کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ گزشتہ چند صدیوں میں لبرل فکر نے انفرادیت پرستی پرکافی انحصار کیا ہے، اور اسے جدید معاشرے کی بنیاد بنایا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد اس یقین پر رکھی گئی کہ فرد سب سے بہتر جانتا ہے۔ آزاد منڈی کا سرمایہ دارنظام یقین رکھتا ہے کہ گاہک ہمیشہ صحیح ہے۔ مگریہ غلطی ہے۔ [مزید پڑھیے]
خلیج بحران، پاکستان کو نئی حکمتِ عملی کی ضرورت؟
حال ہی میں بھارت نے اچانک مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے وفاق کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ پاکستان کے پُرجوش وزیراعظم عمران خان نے اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے ایٹمی جنگ کی دھمکی سمیت تمام تر ذرائع استعمال کیے ہیں۔ زیادہ تر ممالک نے ان کی آواز پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، بلکہ اس بات پر زوردیا کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو مل جل کر حل کریں۔پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کو دنیا بھر کے ردعمل سے اتنی مایوسی نہیں ہوئی جتنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایسے موقع پربھارتی وزیراعظم کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دیے جانے پر ہوئی۔ تاریخی طور پر پاکستان ان دونوں ممالک کو [مزید پڑھیے]
آرایس ایس اور گاندھی دوراہے پر
خلافت کا منشور جاری ہونے کے بعد مسلمانوں کی جانب سے سرکارِبرطانیہ سے دنیا بھر میں خلافت قائم کرنے کی سمت میں مدد فراہم کرنے کا واضح مطالبہ کیا گیا۔ اسی اثنا میں مسلمانوں کو بھی اس مقصد کے لیے متحد رہنے کا مطالبہ سامنے آیا۔ ان مطالبات کی موجودگی میں بال گنگا دھر تلک نے نہ صرف گاندھی کے مشوروں کی حمایت کی بلکہ اُسے یہ یقین بھی تھا کہ مسلمانوں کوغیر مذہبی بنیادوں پر سیلف رول یا سوراج (swaraj) کے موقف پر کانگریس میں شامل کیا جاسکتا ہے لیکن آر ایس ایس (Rashtriya Swayamsevak Sangh: RSS) کے بانی کیشا بلی رام ہیج ور نے اس کی کھل کر مخالفت کی کہ تحریکِ عدم تعاون (non-cooperation movement) کو تحریک ِ خلافت کے ساتھ نتھی [مزید پڑھیے]
مراکش میں معاشی ترقی کا سفر
مراکش کو گذشتہ ایک عشرے کے دوران متعدد بیرونی چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔ ان میں تجارتی شراکت داری میں کمزور شرح نمو، تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ اور علاقائی جغرافیائی، سیاسی تناؤ اور تنازعات نمایاں ہیں۔ ان ناموافق حالات کے باوجود مراکشی حکومت نے اپنا راستہ تبدیل نہیں کیا اور اس نے فوری استحکام پر توجہ دینے کے علاوہ قومی معیشت کی طویل المیعاد ضروریات پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ اس اتھل پتھل کے دور میں حکومت کی متعیّنہ ترجیحات سے ملک اقتصادی استحکام کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔ مثال کے طور پر توانائی کے شعبے میں دیا جانے والا زر تلافی (سبسڈی) ۲۰۱۲ء میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ۶ فیصد تک ہو [مزید پڑھیے]