شمارہ یکم اکتوبر 2020
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر: 13، شمارہ نمبر: 19
’’معاہدۂ ابراہیمی‘‘ یا اسرائیلی استعمار؟
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدۂ ابراہیمی بھیانک صہیونی و اسرائیلی حقیقت اور مذہبی و برادرانہ اختلافات کو دوبارہ لکھنے کی تازہ ترین کاوش ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کرائے ہیں۔ اس حوالے سے ۱۳؍اگست کو طے پانے والے دوطرفہ معاہدے کو دی ابراہم اکارڈ (معاہدۂ ابراہیمی) کا نام دیا گیا ہے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے فخر سے اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات کے مسلمان اب (مقبوضہ) بیت المقدس کی تاریخی مسجد اقصیٰ میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدۂ ابراہیمی کے ذریعے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کراکے کوئی نیا [مزید پڑھیے]
چین سے چھٹکارا آسان نہیں!
امریکا اور یورپ دونوں کے لیے چین بہت تیزی سے انتہائی خطرناک حریف میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ امریکی پالیسی ساز اس لیے زیادہ پریشان ہیں کہ چین کی قوت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود چین سے تجارت میں ہونے والے خسارے کی خلیج پاٹنا اُن کے لیے ممکن نہیں ہو پارہا۔ ایک طرف چین نے مینوفیکچرنگ سیکٹر پر شکنجہ کَس دیا ہے اور دوسری طرف وہ عالمی سیاست میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر کرتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکا اور یورپ کے قائدین کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ اگر چین کو روکنے کی جامع اور معقول کوشش نہ کی گئی تو معاملات ہاتھ سے نکلتے چلے جائیں گے۔ دنیا تیزی سے ایک ایسی کیفیت [مزید پڑھیے]
بحیرۂ روم میں کیا ہو رہا ہے؟
بحیرۂ روم کا محلِ وقوع بھی خوب ہے۔ یہ ایشیا، یورپ اور افریقا کا سنگم ہے۔ ان میں سے ہر براعظم بحیرۂ روم سے اس طور جڑا ہوا ہے کہ اُس سے ہٹ کر اہمیت گھٹ سی جاتی ہے۔ قدیم زمانوں ہی سے یہ سمندر دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا مرکز رہا ہے۔ طاقت میں اضافے کے لیے بڑی ریاستیں اس خطے کو اپنے حق میں بروئے کار لاتی رہی ہیں۔ غیر معمولی اہمیت کے حامل محلِ وقوع نے بحیرۂ روم کو ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک کے لیے سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم بنادیا ہے۔ اور اس حوالے سے لیبیا بھی ایک اہم ریاست ہے۔ سرد جنگ کے شروع ہوتے ہی امریکا نے ٹرومین ڈاکٹرائن کے تحت [مزید پڑھیے]
ایران کے ساتھ ترکی بھی ہدف!
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کا پہلا تاثر یہ ہے کہ اسرائیل ایک عرب ملک کے ساتھ تعلقات قائم کرکے ایک علامتی رکاوٹ کو توڑنے میں کامیاب ہوگیا، عرب امارات کے ساتھ اسرائیل کی کو ئی سرحد موجود نہیں۔حال ہی میں بحرین بھی اس معاہدے کا حصہ بن گیا ہے۔بظاہر متحدہ عرب امارات نے اس معاہدے سے وہ حاصل کرلیا جو دوسرا کوئی ملک حاصل نہیں کرسکا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا مغربی کنارے پر قبضے کا منصوبہ وقتی طور پررک گیا اورانتہائی جدید ترین امریکی اسلحے تک رسائی حاصل ہوگئی، جس میں ایف۔۳۵ لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔ ابوظہبی نے امریکاکے ساتھ بھی اپنے تعلقات مضبوط بنالیے، قطع نظر اس کے کہ اگلے امریکی انتخابات کون جیتتا ہے۔ لیکن اس معاہدے [مزید پڑھیے]
بیروت دھماکا: پُراسرار کشتی اور آگ کے شعلے – 2
چار ؍اگست کو ہونے والے دھماکے کی عکاسی کرتے ہوئے Boris Prokoshev نے بیروت کی انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، انہوں نے لبرٹی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکے کے خود ذمہ دار ہیں انہیں اس خطرناک دھماکا خیز سامان سے جلداز جلد جان چھڑانی چاہیے تھی، انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ لبنان کے کسانوں کو یہ سامان دے دیتی تاکہ وہ زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے اس کو استعمال کرلیتے۔ اگر کوئی اس سامان کے بارے میں نہیں پوچھ رہا تھا تو اس کا مطلب تھاکہ سامان کا مالک کوئی نہیں ہے۔ کشتی کے مالک نے بی بی سی کی درخواست کے باوجود اس سانحے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ Mv.Rhosus کے مقدمے کے حوالے سے اس [مزید پڑھیے]
دنیا کا از سر نو جائزہ لینا کیوں ضروری ہے؟
ڈاکٹر منصف المرزوقی تیونس کی دستور ساز اسمبلی کے صدر رہ چکے ہیں اور ملک کے صدر بھی منتخب ہوئے اور تین سال اس عہدے پر فائز رہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ ان کی پہچان حقوق انسانی کے معروف جہدکار اور متعدد کتابوں کے مصنف، تجزیہ نگار، سیاسی ناقد اور نظریہ ساز کے طور پر رہی ہے، آپ دنیا کی موثر ترین شخصیتوں کی فہرست میں جگہ رکھتے ہیں۔ ان حوالوں سے ان کی یہ تحریر خصوصی طور پر قابل توجہ ہے۔ اس میں انھوں نے صرف رائج تصورات پر تنقید پر اکتفا کیا ہے۔ اسلامی تحریک سے وابستہ افراد کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی تنقید کے ساتھ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں متبادلات بھی دنیا کے [مزید پڑھیے]
کیا دشمن فوج کا عزم و حوصلہ جانچنا ممکن ہے۔۔۔
جون ۲۰۱۴ء میں داعش کے تقریباً ڈیڑھ ہزار جنگجو ؤں نے عراقی شہر موصل پر حملہ کردیا۔شہر کی حفاظت پر مامور سرکاری فوجیوں کی تعداد ان جنگجوؤ ں سے پندرہ گنا زیادہ تھی۔ لڑائی کا نتیجہ شرمناک پسپائی کی صورت میں نکلا۔ لیکن یہ پسپائی داعش کے جنگجوؤں کی نہیں بلکہ سرکاری فوجیوں کی تھی۔اس پسپائی نے یہ بات ظاہر کردی کہ امریکا اس لڑائی کے نتیجے کی پیش بینی میں ناکام رہا۔امریکا کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ کسی فوج میں موجود لڑنے کے جذبے (Will to Fight) کی پیش گوئی کرنانا ممکن ہے۔ دنیا کی عسکری تاریخ، افواج میں موجود لڑائی کے جذبے سے متعلق غلط قیاسات سے بھری پڑی ہے۔مثال کے طور پر ساٹھ اور ستّر کی دہائی [مزید پڑھیے]
سفارتی مناقشے اور پاکستانی خارجہ پالیسی پر نظرثانی
سفارتی مناقشے کی روشنی میں پاکستان اور سعودی عرب اپنی اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ (مقبوضہ) جموں و کشمیر میں گزشتہ برس ۵؍اگست کو بھارت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ابھرے ہیں۔ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اُسے بھارت کا حصہ بنانے کی وزیر اعظم نریندر مودی کی کوشش پر پاکستان نے چاہا کہ اسلامی دنیا اس کا ساتھ دے۔ اس نے جموں و کشمیر کی صورتِ حال پر اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کی سربراہ کانفرنس بلانے پر زور دیا مگر سعودی عرب اس کے لیے راضی نہ ہوا۔ جب او آئی سی کا اجلاس بلانے کی کوشش ناکام رہی تو وزیر خارجہ [مزید پڑھیے]
بھارت کے خفیہ نظام کی ناکامی
جون کے مہینے میں بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں جھڑپ ہوئی۔اس خطے میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی متعین سرحد نہیں ہے۔اس جھڑپ میں تقریباً ۲۰ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے، جب کہ ہلاک ہونے والے چینی فوجیوں کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔یہ ۱۹۷۵ء کے بعد سے پہلی ایسی جھڑپ تھی جس میں دونوں ممالک کی فوج کا جانی نقصان ہوا۔ بیجنگ اور نئی دہلی ایک مناسب طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے باہمی تناؤ کو کم کرنے کی کو شش کر رہے ہیں۔ ایسے موقع پر جب دونوں ممالک باہمی سرحد پر حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بھارت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ چین کی طرف سے اتنی بے [مزید پڑھیے]