شمارہ 16 اپریل 2020
کورونا وائرس کی موجودہ عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کی صورتحال کے تناظر میں ’’معارف فیچر‘‘ 16 اپریل ۲۰۲۰ء کے شمارہ کا صرف ویب ایڈیشن شائع کیا جارہا ہے۔ تاکہ قارئین ’’معارف فیچر‘‘ دنیا بھر کے حالات سے آگاہی حاصل کر سکیں۔ (ادارہ)
ہر بڑا اور عالمی امور پر متصرف ملک اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے اور کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کی بڑی طاقتوں نے معاملات اپنے بس میں کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا۔ جہاں بات آسانی سے نہ بن سکتی ہو وہاں طاقت کے بے محابا استعمال کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوئے بڑی طاقتوں نے ہر وہ کھیل کھیلا ہے جو کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ آج کی دنیا ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے کہ جب عالمی امور پر متصرف ریاستیں کمزور پڑتی جارہی ہیں اور چند ریاستوں کی قوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جو ریاستیں طاقتور ہوتی جارہی ہیں وہ [مزید پڑھیے]
کورونا وائرس نے جو بحرانی کیفیت پیدا کی ہے، اُس نے پاکستان جیسے پسماندہ یا نام نہاد ترقی پذیر ممالک کا حال بُرا کردیا ہے۔ معیشت کا پہیہ رکا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ عوام میں اشتعال اور انتشار بڑھ رہا ہے۔ بیزاری کا گراف تیزی سے بلند ہو رہا ہے۔ نفسی پیچیدگیوں کو راہ مل رہی ہے۔ حکومتی سطح پر متضاد دعوے کیے جارہے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں اس حوالے سے مکمل ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں طرح طرح کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق ٹیسٹنگ کی سہولت ناکافی ہوجانے کے باعث بہت سے کیسز کا تو پتا ہی [مزید پڑھیے]
گریگ پولنگ، سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹر نیشنل اسٹڈیز میں ایشیا میری ٹائم ٹرانسپیرنسی انشئیٹیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ زیرنظر مضمون اُن کے ایک انٹرویو پر مشتمل ہے۔ اس انٹرویو کے مندرجات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کورونا وائرس کے بعد کی صورتِ حال چین کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔ اُس کی پوری ساکھ داؤ پر لگتے لگتے رہی ہے۔ ایک وبا پر ڈھنگ سے قابو پانے میں ناکامی کا اُسے بھاری خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ ڈھائی تین ماہ سے کورونا وائرس ہر معاملے پر چھایا ہوا ہے۔ اس وقت شاید ہی کوئی ملک ہو جو اِس وبا کے اثرات سے محفوظ رہنے میں کامیاب رہا ہو۔ ہیڈ لائنز کورونا وائرس سے شروع ہوکر کورونا وائرس پر ختم ہوتی ہیں۔ مگر خیر، اور بھی [مزید پڑھیے]
کورونا وائرس کے ہاتھوں دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو گھروں تک محدود رہنا پڑا ہے اور معاشی سرگرمیاں تھمی ہوئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں عالمی معیشت پر کس نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے، یہ جاننے کے لیے ہمیں معاشی امور کے کسی بھی ماہر سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہر ملک کی معیشت کورونا وائرس کے ہاتھوں شدید متاثر ہوئی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پر آج نہیں تو کل قابو پا ہی لیا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات سے مکمل طور پر نمٹنے میں کامیابی کس طور ممکن بنائی جاسکے گی۔ معیشت کا جو حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر ملک پریشان [مزید پڑھیے]
فضائی سفر، سمندر میں تفریحی سفر، مخلوط رہائش، مل بیٹھنے کے مقامات، سنیما ہال، اوپن ایئر تھیٹر، مارکیٹس، کھیل کے میدان، تماشائیوں کے بیٹھنے کا اہتمام … کیا یہ سب کچھ خواب و خیال ہوجائے گا؟ جب سے کورونا وائرس نے دہشت پھیلائی ہے، کروڑوں بلکہ اربوں ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات سر اٹھا رہے ہیں۔ خدشات ہیں کہ محض پیدا نہیں ہو رہے بلکہ خطرناک رفتار سے پنپ بھی رہے ہیں کورونا وائرس کے اثرات غیر معمولی حد تک دور رس ہیں۔ یہ اثرات نادیدہ ہیں جو تیزی سے زور پکڑ رہے ہیں۔ یہ وائرس انتہائی مضبوط ہے، تیزی سے متحرک ہوتا ہے، علامات کے بغیر متاثر کرتا ہے اور پھر جب تک تدارک کا سوچیے اور کچھ کیجیے تب تک یہ جڑ [مزید پڑھیے]
آسٹریلوی حکومت نے کورونا وائرس کے حوالے سے غیر جانبدار اور خود مختار نوعیت کی بین الاقوامی تحقیقات کی تجویز پیش کی ہے۔ صورتِ حال کی مناسبت سے یہ ایک عمدہ اور بروقت تجویز ہے۔ کورونا وائرس دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی تباہی ہے، جس کا دنیا کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں چین اور عالمی ادارۂ صحت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ معاملات کو درست اور شفاف بنائیں تاکہ دنیا کو دوبارہ ایسی کسی بھی صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والے بحران نے چینی قیادت کی خامیوں اور مطلق العنانیت پر مبنی طرزِ حکمرانی کے دیوالیہ پن کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ چینی طرزِ حکمرانی کے تحت حقیقت سے دور [مزید پڑھیے]
کورونا وائرس کے ہاتھوں رونما ہونے والی تبدیلیاں پریشان کن تو ہیں ہی مگر اِس سے زیادہ حیران کن بھی ہیں۔ بہت کچھ اِتنے بڑے پیمانے پر رونما ہو رہا ہے کہ لگتا ہے ایک دور ختم ہو رہا ہے اور دوسرا شروع ہو رہا ہے۔ لوگ اب تک بہت سے مفروضوں کی بنیاد پر سوچ رہے ہیں۔ چند ماہ بعد جب معاملات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا تب بہت کچھ واضح ہوگا اور بہت کچھ نیا سُوجھے گا۔ معاشی اور معاشرتی بحران کی شدت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ اِس وقت بہت سوں کو نہیں۔ عالمی نظام یہ سب کچھ کس حد تک جھیل سکے گا فی الحال پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی، [مزید پڑھیے]
انسان معاشرت کی بنیاد پر زندہ رہتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تب ہی کچھ ہو پاتا ہے، کچھ بن پاتا ہے۔ روئے ارض پر انسان کو جو سانسیں عطا کی گئی ہیں، وہ اُسی وقت حقیقی معنوں میں بامقصد طریقے سے بروئے کار لائی جاسکتی ہیں، جب ٹھوس اور حقیقت پسندانہ بنیاد پر اشتراکِ عمل یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی انسان کے لیے اِس سے زیادہ کوئی بات سوہانِ روح نہیں ہوسکتی کہ اُسے الگ تھلگ رہنے پر مجبور کردیا جائے یا وہ الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہو۔ مل جل کر رہنے کی طرح تنہائی بھی انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ شخصیت کی تشکیل و تطہیر میں تنہائی کلیدی کردار [مزید پڑھیے]