شمارہ 16 اگست 2018
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:11، شمارہ نمبر:16
قصہ ہاری ہوئی جنگ کا!
افغانستان میں اگر امریکی فوج کی کوئی حکمتِ عملی ہے تو بس یہ کہ کسی نہ کسی طور لڑائی جاری رکھی جائے تاکہ خطرات کی سطح اس حد تک گر جائے کہ افغان فوج کے لیے ملک کی سیکورٹی کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینا ممکن ہوسکے۔ افغانستان کے طول و عرض میں سترہ سال کی لڑائی کے بعد بھی کوئی بھی کسی بھی سطح پر یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ افغان فوج کو اس قابل بنایا جاسکا ہے کہ وہ ملک میں سلامتی برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھال سکیں۔ افغان فوج جیتنے کی پوزیشن میں تو خیر آہی نہیں سکی ہے۔ زیادہ سے زیادہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہار نہیں رہیں۔ اور ہاں، یہ بات ضرور کہی جاسکتی [مزید پڑھیے]
امریکا طالبان مذاکرات
تین عسکری گروہوں کے کمانڈروں نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لیے اس کے اعلیٰ عہدیدار سابق طالبان راہنماؤں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طالبان ذرائع کے مطابق یہ بات چیت افغانستان، قطر اور متحدہ عرب امارات میں ہوئی ہے۔ ایک شریک کار نے بتایا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایک ہوٹل میں طالبان سے مذاکرات کرنے والے وفد میں کبھی بھی پانچ سے زیادہ امریکی عہدیدار شامل نہیں تھے۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی۔ نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت کے وقت ہی سے اس کے جنگجو امریکی سرپرستی میں نیٹو فورسز کے خلاف برسرپیکار تھے، تاکہ [مزید پڑھیے]
ایتھوپیا اور اریٹیریا تعلقات: حقائق کیا ہیں؟
بلاشبہ یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ اریٹیریا کے صدر اسیاس افورقی نے ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم ابی احمد کا اسمرہ میں گرم جوشی سے استقبال کیا۔افریقا کے ان دو اہم رہنماؤں کی اخبارات میں چھپی تصاویر سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برسوں سے متحارب یہ دو طاقتیں اب دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہیں۔ایک مشترکہ بیان میں بتایا گیا کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان لڑی گئی خوں ریز جنگ، جس نے پورے افریقا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا،بالآخر اس تلخ دور کا خاتمہ ہوا۔اقوام متحدہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کے’’تمام متنازعہ امور،پابندیوں اور اختلافات کا یوں یکدم خاتمہ ہوگیا ہے جب کہ نیشنل سروس (لازمی فوجی خدمات) کا معاملہ ہنوز مبہم [مزید پڑھیے]
عرب جمہوریت اور مذہبی جماعتوں کا کردار
مشرق وسطیٰ کے بارے میں یہ سوال ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے کہ کیا یہاں جمہوریت کام کر سکتی ہے؟ عمومی طور پر دیکھا جائے تو جواب نفی میں ملتاہے۔لیکن یمن، شام اور لیبیا میں جاری خانہ جنگی، مصر اور سعودی عرب میں آمرانہ طرزِ حکومت کا احیا اور اُردن میں جاری معاشی عدم استحکام کے باوجود کچھ ایسی مثالیں ملتی ہیں جو اس تاثر کو رَد کرتی ہیں۔ پہلی مثال تیونس کی ہے جہاں انقلاب کے بعد مئی کے مہینے میں پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ دوسری مثال عراق اور تیسری مثال لبنان کی ہے جو شاید دنیا کی سب سے زیادہ ناکام ریاست ہے۔ ان تینوں ممالک میں دو قدریں مشترک ہیں۔ پہلی یہ کہ ان ممالک میں اسلام پسند جماعتوں نے جمہوری [مزید پڑھیے]
افغان امن عمل میں اچانک تیزی
افغانستان سے آنے والی دوخبریں بیان کرتی ہیں کہ کیسے ۲۰۰۱ء میں امریکا کے ہاتھوں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغان تنازع آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلی خبر یہ کہ کابل میں ایک خودکش حملے میں افغان نائب صدر بال بال بچ گئے، اس حملے میں۱۴؍افراد ہلاک ہوئے اور اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، دوسری خبر یہ کہ افغان طالبان نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع پکتیکا صوبے کے دو اضلاع پر قبضہ کرلیا۔ ان خبروں میں کیا بات چھپی ہے، کیا حالیہ برسوں میں امن کے لیے ترسے ہوئے ملک میں امن کی امید کی جاسکتی ہے؟ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے لیے راستہ تلاش [مزید پڑھیے]
بھارت، تشدد کا بڑھتا دائرہ
بھارتی معاشرے میں تشدد کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف معاشرتی نوعیت کا تشدد ہے اور دوسری طرف مذہبی منافرت کی بنیاد پر پھیلایا جانے والا تشدد۔ تشدد کا وسیع ہوتا ہوا دائرہ اہلِ دانش کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ معاشرے کے سیاہ و سفید پر نظر رکھنے والے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ معاملات کو کنٹرول کرنے پر توجہ دے اور ایسے اقدامات کرے، جن سے تشدد کا دائرہ محدود سے محدود تر رکھنے میں مدد ملے۔ بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنانے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں تشدد [مزید پڑھیے]
چین: دشمنوں سے اچھے تعلقات بنانے میں کیسے کامیاب ہوا؟
ایران، اسرائیل اور سعودی عرب عام طور پر بین الاقوامی تنازعات پر مخالف سمتوں پر ہوتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ کی ان سپر پاورز نے ایک دوسرے سے شکوک اور کڑواہٹ کا رویہ رکھا ہے اور ان کے درمیان تعلقات کبھی تو ’دشوار‘ اور کبھی ’بالکل ختم‘ ہی ہو جاتے ہیں۔ خطے کے دو بڑے شیعہ اور سنی مسلم ممالک ایران اور سعودی عرب، شام، یمن اور یہاں تک کہ فلسطین میں بھی اپنے اتحادیوں کے ذریعے پراکسی وار لڑ رہے ہیں اور دونوں ہی اسرائیل پر جس کے ساتھ ان میں سے کسی بھی ملک کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی ایران کے جوہری پروگرام کواپنے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں اور دونوں [مزید پڑھیے]
جس کی لاٹھی اُس کی بھینس!
اہلِ یورپ آج بھی اس خیال کے حامل ہیں کہ علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت کے ذریعے وہ بھرپور فتوحات کے حامل ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ محض خام خیالی ہے۔ عسکری قوت کے بغیر کسی بھی سطح پر اپنے آپ کو منوانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ یورپ کو نرم قوت پر ناز ہے مگر ایک دن یہ بات یورپ کے قائدین کو تسلیم کرنا پڑے گی کہ عسکری قوت کے بغیر آگے بڑھتے رہنا اور اپنی فتوحات کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ یورپ کے بہت سے باشندوں نے اس حقیقت پر ہمیشہ فخر کیا ہے کہ انہوں نے امریکا کی طرح ہر معاملے میں عسکری قوت بروئے کار لانے پر ٹیکنالوجی اور معاشی قوت کو آلہ کار [مزید پڑھیے]
مذہبی جماعتیں، سیاسی عمل اور اقتدار
حالیہ انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی شکست پر عام سوال یہ اٹھا کہ لوگ انہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ جوابات اور ردعمل بہت متنوع تھے۔ گزارش ہے کہ اس موضوع پر کچھ بنیادی سوالات کو دیکھ لیا جائے تو شاید جواب کی طرف پیشرفت ہو سکے۔ بنیادی سوالات تو صرف دو ہیں: کیا ان جماعتوں کا سیاسی عمل مذہبی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ان کا سیاسی عمل جدید سیاست کے اسالیب پر پورا اترتا ہے؟ ’’مذہبی سیاست‘‘ اصلاً ان دو سوالوں کے لاینحل الجھاؤ سے پیدا ہوئی ہے، اور اس نے ہماری دینی روایت اور سیاسی عمل دونوں کو متاثر کیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں متداول تمام مذہبی سیاسی تصورات اور عمل کا شجرہ نسب تحریک [مزید پڑھیے]
عرب ریاستیں اور عدم تحفظ
ہر تھوڑے دن بعد رات میں آگ برساتا ہوا دھماکا خیز راکٹ سعودی عرب میں آسمان پر نمودار ہو کر یمن کی جنگ کی یاد دلاتا ہے۔ یہ میزائل حوثی ملیشیا کی طرف سے داغے جاتے ہیں، جنھیں ۲۰۱۵ء میں یمن میں نظامِ حکومت سے الگ کردیا گیا تھا۔ یہ میزائل اک بے ضرر شے کی طرح سعودی صحر امیں جاگرتے ہیں، لیکن تین سال گزرنے کے بعد ان کا ملبہ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ حوثی ناقابل شکست ہیں۔ ان میزائلوں کی رفتار اور حدود بڑھ چکی ہیں اور اب یہ سعودی شہر ریاض تک میں اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ ریاض میں سعودی حکام نے فوجیوں کوایک تقریب میں مختصراً ان میزائلوں کے ملبے کے بارے میں آگاہ کیا۔ یہ ’’قیام‘‘ میزائل [مزید پڑھیے]
سرد جنگ اور ’’خدائی فوجدار‘‘ | 8
امریکا کے لیے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے علاقائی ممالک کو کمزور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ جنوبی اور وسطی امریکا کے بیشتر ممالک کو امریکا نے کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس حوالے سے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور محکمۂ دفاع نے مل کر کام کیا ہے۔ سی آئی اے نے ہر اُس حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس سے امریکی مفادات کو ذرا بھی خطرہ لاحق ہو۔ ان دونوں اداروں نے مل کر ایسی کئی حکومتیں گرائی ہیں جن سے امریکا کو کچھ پریشانی لاحق ہوسکتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اِنہوں نے کئی ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ۱۹۶۱ء میں امریکا نے کیوبا میں [مزید پڑھیے]