شمارہ 16 اگست 2019
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر: 12، شمارہ نمبر: 16
عمان مشکلات کا شکار۔۔۔
عمان خطرناک پڑوسیوں میں گھرا ہوا ہے۔ جون میں پیٹرو کیمیکل کے دوٹینکروں پر خلیج عمان میں حملہ کیاگیا، اس سے قبل مئی میں بھی چار ٹینکروں پر حملہ کیاجاچکا تھا۔اس دوران پڑوسی ملک یمن میں بھی قبائلی جھگڑے جاری ہیں، باغی المہرہ قبائل کافی عرصے تک عمان کے زیر اثر تصور کیے جاتے رہے۔سیاسی عدم استحکام کے باوجود عمان نے تاریخی طور پرعلاقائی طاقتوں کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھے ہیں،جس کی وجہ سے عمان کو مشرق وسطیٰ میں ثالثی کا منفرد کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔علاقائی کشیدگی میں کمی کے لیے عمان کا کردار اہمیت کا حامل ہے،لیکن عمان کو چند فوری اور بڑے مسائل کا سامنا ہے،جس کی وجہ سے اس کا ثالثی کا کردار متاثر ہوسکتا ہے۔عمان مسلسل بڑھتے [مزید پڑھیے]
روہنگیا بحران
چند پولیس چوکیوں پر۲۰۱۷ء میں ایک چھوٹے مگر تربیت یافتہ مزاحمتی گروپ کے حملوں کے بعد میانمار کی فوج نے روہنگیا نسل کے مسلمانوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع کیا۔ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو میانمار کی حکومت باضابطہ شہری تسلیم نہیں کرتی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ بنگالی مسلمان ہیں۔ کریک ڈاؤن میں ۱۰ ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ۸۰۰ دیہات مکمل تباہی سے دوچار کردیے گئے اور کم و بیش ۸ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو نقل مکانی کرکے بنگلادیش کی سرزمین پر پناہ لینا پڑی۔ اس کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ نے ’’ٹیکسٹ بک کیس آف ایتھنک کلینزنگ‘‘ قرار دیا ہے۔ حقائق تلاش کرنے پر مامور ایک مشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جو کچھ [مزید پڑھیے]
کشمیر جلد بنے گا ’’ بھارت کا افغانستان‘‘!
جب جدید بھارت کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں یہ ضرور شامل ہوگا کہ ہندو بھارت کے سامراجی مقاصد وادیٔ کشمیر میں خاکستر ہوگئے۔ افغانستان کو اگر ’سلطنتوں کا قبرستان‘ کہا جاتا ہے تو غلط نہیں۔ ۱۹ برس بیت گئے مگر امریکا اب بھی وہاں اپنی طویل ترین جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ لڑتے بھارت کو ۷۰ برس بیت چکے ہیں۔ اس جنگ کو ۷ لاکھ بھارتی فوجی لڑتے چلے آرہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سویت یونین یا امریکی نیٹو فورسز نے افغانستان میں اگر اب تک سب سے بھاری فوج تعینات کی ہے تو وادی کشمیر میں اس سے ۷ گنا زیادہ فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ کشمیر جنگ کا خاتمہ صرف اس وقت [مزید پڑھیے]
مودی نے کشمیر دبوچ لیا!
کشمیر کی صورتِ حال صاف بتارہی ہے کہ تہذیبوں کی بنیاد پر قائم دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کو جُوتے کی نوک پر رکھنے کے حوالے سے مودی، نیتن یاہو، شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک صف میں، بلکہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ اہلِ کشمیر کو آزادی یا حق خود ارادیت سے محروم کرنے کے حوالے سے نریندر مودی کا حالیہ اقدام تاریخی اعتبار سے کس طرح کا ہے، اِس کا درست اندازہ لگانے کے لیے ہمیں ۱۹۵۲ء میں تب کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے الفاظ پر غور کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا ’’کشمیر بھارت کی جاگیر ہے نہ پاکستان کی۔ یہ تو کشمیریوں کا ہے۔ جب جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق کیا [مزید پڑھیے]
مودی کی حماقت بھارت کو لے ڈوبے گی!
مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے صدارتی فرمان کے اجرا اور بھارتی پارلیمان میں ری آرگنائزیشن آف کشمیر بل پیش کیے جانے پر ۵؍اگست کو بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن قرار دیا جا رہا ہے۔ میں بھی اسے بھارتی جمہوریہ کے لیے سیاہ ترین دن سمجھتا ہوں لیکن اس کی واحد وجہ کشمیر کے ساتھ کی گئی تاریخی زیادتی اور جبر نہیں، بلکہ اور کئی اہم ترین وجوہات ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہر پاکستانی کی طرح میرا دل بھی کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے، اس لیے میرے موقف پر کوئی بھی فتویٰ لگانے سے پہلے پوری بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ بھارت کے لیے سیاہ ترین دن ہونے کی مزید وجوہات کیا ہیں؟ کشمیر کے ساتھ تاریخی زیادتی [مزید پڑھیے]
چین، ایران اور کشمیر پر بھارت کے وعدے
تقریباً آدھی صدی کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بحث یقینا ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی اس میٹنگ کو رکوانے کے لیے تمام تر سفارتی وسائل بروئے کار لائے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کونسل کے سربراہ پولینڈ کے اپنے ہم منصب جیسیک سیزاپوٹوویزاور دہلی میں پولینڈ کے سفیر آدم بورکووشی پر ہر ممکن دباؤ بنانے کی کوشش کی کہ کسی طرح یہ میٹنگ ٹل جائے اور اگر چین کی ایما پر منعقد بھی ہوتی ہے، تو اس کا کوئی مشترکہ اعلامیہ جار ی نہ ہو۔ بلکہ پاکستان کو متنبہ کیا جائے کہ معاملات کو بین الاقوامی رنگت دینے سے خطے میں صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ اس سے [مزید پڑھیے]
مقفل کشمیر کے اندر
میری کار بھارتی فوجی گاڑیوں کی ایک قطار اور گَرد کے بادل کے ساتھ آگے بڑھی۔ عام حالات میں سری نگر کے ایئر پورٹ سے میرے آبائی قصبے بارہ مولا تک یہ آسان اور تیز سفر ہوتا۔ آج کل کشمیر کی وادی میں زندگی شدائد سے دوچار ہے۔ جموں و کشمیر کے بھارت کے زیر تسلط حصے میں مودی سرکار کے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف شدید ردعمل روکنے کے لیے ایسا سیکورٹی کریک ڈاؤن چل رہا ہے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۳۵ میل لمبی سری نگر بارہ مولا ہائی وے پر ہزاروں بھارتی قابض فوجی جدید ترین خود کار ہتھیاروں سے لیس ہوکر گشت کر رہے ہیں۔ یہ شاہراہ علاقے کے مرکزی شہر سری نگر کو شمالی [مزید پڑھیے]
شام کی خانہ جنگی۔۔ حتمی مرحلہ یا ایک نیا آغاز۔۔ | 3
شام کے ناکام مذاکرات خانہ جنگی کا اختتام ہمیشہ یا تو کسی ایک فریق کی مکمل فتح پر ہوتا ہے یا پھر مذاکرات کے ذریعے ہوا کرتا ہے۔شامی حکومت شمالی اورمشرقی شام میں اپنے کنٹرول کے لیے براہ راست امریکا اور ترکی سے تصادم کی راہ اختیار نہیں کر سکتی۔مستقبل میں اگر شامی حکومت ان علاقوں پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے تو اسے امریکا اور ترکی سے مذاکرات کرنا ہوں گے اور ان کے اتحادی گروہوں کی قیادت کی سلامتی کی ضمانت دینی ہوگی اور ساتھ ساتھ ان علاقوں کی مقامی حکومت کے حوالے سے دونوں ممالک کی رضامندی بھی لینی ہوگی۔ مذاکرات کے حتمی نتیجے پر پہنچنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں بھی مذاکرات کی جو کوششیں ہوئی ہیں ان کی ناکامی کی [مزید پڑھیے]
اردن ۔ قطر سفارتی تعلقات کی بحالی؟
لارنس رابن کا کہناہے کہ قطر اور اردن کے مابین ایک بار پھر سفارتی تعلقات کی بحالی ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح عمان (اردن کا دارالحکومت) کے لیے خطے میں بدلتے مفادات کے کھیل میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ اردن اور قطر کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات بحال ہوچکے ہیں۔ دوبرس قبل اردن نے بھی سعودی قیادت میں خلیجی ممالک کی جانب سے قطرسے سفارتی تعلقات محدود کرنے کے فیصلے پر عمل کیا تھا۔ اردن اور قطر کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خلیج میں ٹینکروں پر حملوں سے کوئی تعلق نہیں۔اردن کاسفارتی اقدام خطے کے بدلتے ماحول اور معاشی مفادات کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوحا اور عمان کے درمیان سفیروں کے تبادلے کا قطر کے رویے میں حالیہ تبدیلیوں سے [مزید پڑھیے]
مصر میں قید خاندانوں کی غیر انسانی صورتحال
فوج نے دریائے نیل کے کنارے سے تعمیراتی کارکن ۲۰سالہ لطفی ابراہیم کو ۲۰۱۵ء کے موسم بہارمیں حراست میں لیا، اس وقت وہ مسجد سے گھر جارہاتھا،تین ماہ زیر حراست رہنے کے بعد جب ابراہیم سے خاندان کے لوگ ملے تو اس کی حالت بہت زیادہ خراب تھی، اس پر بری طرح تشدد کیاگیاتھا۔ ابراہیم کی ماں تہانی نے بتایا کہ انہوں نے تشدد چھپانے کے لیے میرے بیٹے کا ہاتھ آستین سے ڈھک دیاتھا، لیکن ہم پھر بھی اس کے ہاتھوں پر جلنے کے نشانات دیکھ سکتے تھے، اس کاچہرہ پیلا پڑگیاتھا، اس کے بال بھی مونڈ دیے گئے تھے۔ابراہیم پر ملٹری اکیڈمی کے تین طلبہ کو سڑک کنارے بم دھماکے میں قتل کرنے کا الزام تھا۔ ابراہیم نے اپنی بے گناہی کی قسم [مزید پڑھیے]
پاکستانی معیشت ۔ ایک جائزہ
پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد و جزر کا شکار رہی ہے۔ گو کہ پاکستان کو ورثے میں بچے کھچے صرف چند ادارے ملے لیکن اس وقت ایک قابل انتظامیہ موجود تھی جس کی بدولت ۱۹۵۰ء تک پاکستانی معیشت ایک مستحکم درجہ اختیار کرچکی تھی۔ کوریا کی جنگ میں پاکستانی کپاس، پٹ سن سے خوب زرِمبادلہ حاصل ہوا۔ لیکن ملکی معیشت میں تبدیلی ۱۹۵۸ء کے بعد آئی۔ پاکستان کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ ۱۹۶۵ء میں ختم ہوا۔ اس وقت پاکستانی معیشت کو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت حاصل تھی۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کرسکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد معیشت میں [مزید پڑھیے]