شمارہ 16 فروری 2011
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:4، شمارہ نمبر:4
اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں نسبتاً زیادہ اچھی شہرت رکھنے والے سیاسی و معاشی ماڈلوں کی تقدیر میں ڈرامائی تبدیلی کا مشاہدہ کیا گیا۔ دس سال پہلے ڈاٹ کام میل کی پنکچرنگ کے موقع پر امریکا ایک بلند مقام پرکھڑا تھا۔ دنیا بھر میں اس کی جمہوریت پر رشک کیا جاتا تھا۔ اس کی ٹیکنالوجی ساری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ ہلکے پھلکے قواعد وضوابط والے ’’اینگلوسیکسن‘‘ سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی مستقبل کی ایک لہر تصور کیا جاتا تھا، لیکن امریکی انتظامیہ نے ایک بہت ہی چھوٹے نظم و ضبط (Order) کے قیام کے لیے عراق سے جنگ چھیڑ دی۔ اس نے فوجی حملے اور جمہوریت کی ترقی کے اندر جو تعلق تلاش کیا اس نے امریکا کا چہرہ داغ دار کردیا، جبکہ [مزید پڑھیے]
مصر کے صدر حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کا سورج بھی بالآخر عوامی احتجاج کے ہاتھوں غروب ہوگیا اور انہوں نے مستعفی ہوکر اقتدار اعلیٰ فوجی کونسل کے سپرد کردیا۔ حسنی مبارک کے استعفے کا اعلان نائب صدر عمر سلیمان نے کیا۔ اس اعلان کا ان لاکھوں مظاہرین نے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے خیرمقدم کیا جو قاہرہ کے مشہور تحریر چوک پر کئی دن سے جمع تھے۔ انہوں نے واضح اعلان کر رکھا تھا کہ وہ صدر حسنی مبارک کے مستعفی ہونے تک گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔ دو جمعوں سے انقلاب کی باتیں ہو رہی تھیں اور انقلاب جمعہ ہی کے دن آیا۔ عوام نے جب صدارتی محل، وزارت داخلہ اور سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارات کا گھیراؤ کیا تب بات [مزید پڑھیے]
مصر کی خفیہ اسلامی حزبِ اختلاف نے تشدد کو بہت پہلے ترک کردیا ہے۔ اور یہی اس کے لیے معقول ترین انتخاب تھا۔ صدر اوباما کو اخوان المسلمون سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے اور بہتر یہ ہے کہ مصریوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ تیونس کے انقلاب نے پوری عرب دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس سے قبل عوام نے سڑکوں پر آکر کسی آمر کو چلتا نہیں کیا۔ زین العابدین بن علی کے بعد اب حسنی مبارک کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتا دکھائی دے رہا ہے۔ مصر میں ممکن سیاسی تبدیلی کے پیش نظر یہ سوال بھی ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ اخوان المسلمون کا کیا بنے گا اور کیا امریکا مصر کی عبوری یا نئی حکومت میں [مزید پڑھیے]
عالمی معاشی بحران کے اثرات نے پوری دنیا کو اب بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ڈیووس میں تین سالانہ سربراہ اجلاس ہوچکے ہیں اور ہم اب یہ جائزہ لینے کے قابل ہوئے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں ایسا لگ رہا تھا کہ لبرل ڈیموکریٹک کیپٹل ازم کا مکمل زوال بہت قریب ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اصلاح احوال کی کوئی ایسی صورت بھی نہیں نکل پائی ہے جسے اطمینان بخش قرار دیا جاسکے۔ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام شدید زخمی ہے اور تھکا ہوا بھی۔ قرضوں، عدم مساوات، بنیادی ڈھانچے کی کمزوری اور سماجی تفاوت کے اعتبار سے یہ نظام بہت کمزور ثابت ہو رہا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کے سرمایہ [مزید پڑھیے]
تیونس میں عوامی انقلاب کے نتیجے میں صدر زین العابدین بن علی کے ملک سے فرار ہو جانے اور مصر میں تیس سال سے اقتدار پر قابض حسنی مبارک کے مستعفی ہو جانے کے بعد عرب دنیا میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور حکمرانوں نے عوام کو مختلف معاملات میں سہولتیں دینا شروع کردی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کو سستا کیا جارہا ہے۔ روزمرہ استعمال کی بہت سی اشیا پر سبسڈی دی جارہی ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اور پنشن بھی بڑھائی جارہی ہے۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک کیپٹل اکنامکس کے تجزیہ کار سعید کا کہنا ہے کہ مختصر میعاد کے لیے سبسڈی دی جاسکتی ہے۔ اگر یہ طوالت اختیار کر گئی تو معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ سبسڈی کا [مزید پڑھیے]
ترکی سے ۳۱ مئی ۲۰۱۰ء کو غزہ جانے والے بحری جہاز کے سفر کے وقت کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ جہاز اور اس سے جڑنے والے واقعات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر جائیں گے اور یہ جہاز ان میں شمار ہو گا جو امداد لے کر غزہ کی ناکہ بندی توڑ کر محصورین کی امداد کرنا چاہتے تھے۔ اس پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا اور ۹ مسافر جاں بحق جبکہ تیس سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔ اسرائیل کا اپنی سرحد سے ۷۷ میل دور پانی میں ترک امدادی قافلے پر حملہ ایک بے وقوفی تھی۔ جس پر ترک حکومت کی طرف سے بہت سخت اور ترش ردعمل سامنے آیا۔ ترکی کے جوابی اقدامات ایک سنگل میل کی حیثیت رکھتے ہیں اوراب ترکی [مزید پڑھیے]
جب مجھے سیون سیلز سے نیو ٹوئنٹی نام کے بلاک میں منتقل کیا گیا، تب مشرقی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی کئی نمایاں شخصیات سے میری ملاقات ہوئی۔ ان میں متحدہ پاکستان کے آخری گورنر برائے مشرقی پاکستان، ڈاکٹر عبدالمالک، ان کی کابینہ کے رکن اخترالدین، مشرقی پاکستان کونسل مسلم لیگ کے صدر خواجہ خیر الدین اور کونسل مسلم لیگ ہی کے سرکردہ رکن مولانا نورالزماں نمایاں تھے۔ ان میں سب سے کم عمر، اخترالدین تھے جو عمر کی چوتھی دہائی کے وسط میں تھے۔ میں انہیں یونیورسٹی میں ان کے زمانہ طالب علمی سے جانتا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں ایک خیر سگالی مشن لے کر میں برما گیا تھا اور اس چار رکنی مشن میں اخترالدین بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک [مزید پڑھیے]
کامیاب سیاسی تجربہ: موجودہ دور میں اسلامی تحریکیں اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے جمہوری نظام اور الیکشن کو استعمال کرنے کے لیے تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ کل شییٔ اولاشیٔ (یا تو سب کچھ، یا کچھ نہیں) کے اصول کے بجائے ’’شییٔ احسن من لاشییٔ‘‘ (کچھ نہ ہونے سے، کچھ ہونا بہتر ہے) کے عملی اصول کی طرف بڑھنے میں تحریکوں کی جرأت دراصل سیاست کا ایک جدید مظہر ہے۔ آج اسلامی تحریکوں کی رائے یہ نہیں ہے کہ دعوتِ دین کے ذریعے حکومتِ الٰہیہ قائم ہونے تک سیاسی عمل اور انتخابات سے باز رہیں۔ بلکہ وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ اسلامی نظام کو قائم کرنے کی طرف پیش قدمی کے لیے غیراسلامی نظام میں جو مواقع موجود ہیں، انہیں [مزید پڑھیے]