شمارہ 16 فروری 2017
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:10، شمارہ نمبر:4
بحیرۂ اسود اور پَر تولتا ہوا روس
یہ مضمون دراصل ان مضامین کی سیریز کا آغاز ہے جن کا مقصد امریکا اور نیٹو کے لیے بحیرۂ اسود کی اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ لگانا ہے۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں کریمیا کے روس سے الحاق نے دنیا کو ایک بار پھر اس علاقے کی طرف متوجہ کردیا جو ماضی کی دو عظیم سلطنتوں (روس اور عثمانی دور پر مبنی ترکی) کے درمیان واقع ہے۔ اور ان دونوں سے برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت کئی یورپی طاقتوں کا بھی اشتراکِ عمل تھا۔ اس تجزیے کا بنیادی مقصد خطے کے حوالے سے ایک مجموعی رائے ظاہر کرنا ہے جو دراصل اس خطے سے تعلق رکھنے والی ماضی کی عظیم طاقتوں کے ارادوں کے حوالے سے ہے۔ یہ طاقتیں جدید دور کے اطوار اپنا کر اس خطے میں [مزید پڑھیے]
ترکی: سلطنت عثمانیہ کے بعد کی بڑی تبدیلی
ترکی میں انتخابات کے محکمے نے ۱۶؍اپریل کو ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں پارلیمانی نظام ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق فیصلہ دیں گے۔ ایردوان صدارتی نظام کے خواہش مند ہیں۔ خلافت عثمانیہ کا دور ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی جدید ترک ریاست کے سیاسی نظام میں سب سے بڑی تبدیلی کے لیے یہ ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں ترک عوام ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے حق اور مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان ملک میں موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام ختم کر کے صدارتی جمہوری نظام قائم کرنے کی خواہش کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایردوان کا یہاں تک کہنا ہے [مزید پڑھیے]
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی
گزشتہ برس دنیا نے بہت تیزی سے کروٹ بدلی ہے بریگزٹ اور ٹرمپ کے علاوہ بھی دنیا کو حیرت کا ایک اور جھٹکا تب لگا جب ولادیمیر پیوٹن اور رجب طیب ایردوان ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کے بارے میں یہ قیاس آرائیاں کی جا ری تھیں کہ روس مغربی ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا، اس وقت مغربی ممالک کے پاس نئی تہذیب نئے خیالات، حوصلہ مند افراد اور جدید ذرائع موجود تھے اور مغربی دنیا کے ساتھ روس ایک اچھے سفر کا آغاز کرسکتا تھا، لیکن ۹۰ کی تباہ کن دہائی کے اختتام پر یہ بات واضح ہوگئی کہ روس ایک نیا راستہ اختیارکرے گا۔ پیوٹن نے اقتدار کے آغاز ہی [مزید پڑھیے]
مقدس مشعل
اس تقریب میں خیالات کا رُخ لازماً اس سوال کی طرف مڑ جاتا ہے کہ اس جدید دور میں ادیب کس صورتحال سے دوچار ہے؟ میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کو ان سوچوں میں شریک کروں جو میرے دل و دماغ پر اس سے طاری ہوتی ہیں، جب میرا دھیان جدید دور میں صاحب قلم کے کردار کی طرف جاتا ہے، میں اس موقع پر صاحبِ قلم کی صلاحیت اور اس کی ذمہ داری کے متعلق گزارشات پیش کروں گا۔ میں ان محرکات کا بھی ذکر کروں گا، جو ادیب کی تخلیقی صلاحیت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر دیتے ہیں اور ان دکھوں کا بھی ذکر کروں گا جن کے چرکے صاحبِ قلم اس تنگ نظر اور بانجھ عہد میں کھا رہے ہیں، [مزید پڑھیے]
’’بکھرتا ہوا ورلڈ آرڈر‘‘، میونخ سیکورٹی رپورٹ
میونخ سیکورٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی پسندانہ سوچ میں اضافے سے عالمی نظام کو خطرات لاحق ہیں، جب کہ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مجموعی عالمی منظر نامے سے امریکا غائب ہو رہا ہے۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی معاملات سے امریکی غیرحاضری کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ دوسرے عناصر اٹھا سکتے ہیں۔ کانفرنس کے چیئرمین وولفگانگ اِشِنگر کی جانب سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی سطح پر صورتحال انتہائی غیرمستحکم ہے۔ یہ رپورٹ، ’’سچ کے بعد، مغرب کے بعد اور نظام کے بعد‘‘ کے نام سے جاری کی گئی ہے، [مزید پڑھیے]
لبرل اِزم کے خواب
دو تین بلاگرز اور سوشل میڈیا میں سرگرم آدمیوں کی گمشدگی نے کئی مباحث چھیڑ دیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کو لاپتا کر دینا کسی بھی سماجی اور سیاسی نظام میں انتہائی ناپسندیدہ اور قابل مذمت عمل ہے۔ یہ عمل جو نائن الیون کے بعد ’دہشت گردی‘ کے عنوان سے پاکستان سمیت متعدد ممالک میں شروع ہوا تھا۔ امریکی CIA کی نگرانی میں پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کی مرضی اور مفاد کے مطابق بڑے وحشیانہ طریقے سے جاری رہا۔ اس کی کچھ مثالیں میری مختصر کتاب ’مغربی جمہوریت کا داغ داغ چہرہ‘ میں موجود ہیں۔ اس عمل کا انتہائی شفیع اور ناقابلِ قبول ہونا ایک الگ پہلو ہے۔ یہاں میں اس موضوع کو ایک دوسرے زاویے سے زیر بحث لارہا ہوں۔ [مزید پڑھیے]
مستقبل کی افغان ریاست اور طالبان | 4
سیاسی ونگ سے جامع گفتگو طالبان کے سیاسی ونگ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خیالات اور نظریات جاننے کے لیے ۱۹ شخصیات سے انٹرویو کیے گئے۔ ان میں سے ایک شخصیت کا چونکہ طالبان سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا اس لیے اس کے خیالات اس رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔ اسی طور جن دو دو شخصیات نے دوسروں کے خیالات کی محض تصدیق کی اور اپنے خیالات کے اظہار سے اجتناب برتا ان کی باتیں بھی اس رپورٹ کا حصہ نہیں بنائی گئیں۔ زیر نظر رپورٹ میں جن ۱۶ شخصیات سے کیے جانے والے انٹرویوز کے مندرجات پیش کیے جارہے ہیں ان کی شناخت پوشیدہ رکھی گئی ہے، تاہم انگریزی کے دو حروف پر مبنی نام ہر ایک کو [مزید پڑھیے]
امریکی داخلی سلامتی کے ’’نئے‘‘ وزیر۔ ایک تعارف
امریکا میں داخلی سلامتی کے نئے وزیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قابل اعتماد ساتھی جون فرانسیس کیلی امریکا میں غیر ملکی شہریوں کی آمد محدود کرنے کے فیصلے کے مرکزی کردار ہیں اور انہیں ٹرمپ انتظامیہ کے تیسرے اہم عہدیدار کا مقام بھی حاصل ہے۔ ۶۷ سالہ جنرل ریٹائرڈ جون کیلی امریکی بحریہ میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے بحری افواج کی پیادہ یونٹ کی کمان کی اور ۴۵ سال فوج میں کام کیا۔ وہ اس عہدے پر ۱۱؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا میں صدر بش کے دور میں ہونے والے حملوں کے بعد پانچویں اہم شخص ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے جون کیلی کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور ان کے بارے میں دس دلچسپ حقائق مرتب کیے ہیں، جو [مزید پڑھیے]
سچائی نہیں، جھوٹ کی دنیا
ہم سچائی کی دنیا میں نہیں جی رہے۔ نہ تو مشرق وسطیٰ میں، نہ مغرب میں اور نہ ہی روس میں۔ ہم جھوٹ کی دنیا میں آباد ہیں۔ اور ہم ہمیشہ سے جھوٹ کی دنیا ہی میں رہتے آئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی تباہی اوراس کے قابلِ نفرت آمروں کی تاریخ پر نظر ڈالیں۔ وہ سب بدعنوانی کے بل بوتے پر پروان چڑھے تھے اور معمر قذافی کے سواتمام کے تمام اپنے اقتدار کا جواز پیش کرنے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچاتے تھے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ کچھ تو جمہوری حکمران ہونے کے بھی دعویدار تھے۔ اب میرا خیال ہے کہ ہم بھی جھوٹ کی بنیاد پر باقاعدہ انتخابات کرانے کے ماہر ہوچکے ہیں۔ ہو سکتا [مزید پڑھیے]
سعودی عرب کی ٹرمپ سے توقعات
دنیا کی دوسری ریاستوں کی طرح سعودی عرب بھی بے چینی سے ٹرمپ انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کی سمت واضح ہونے کا انتظار کررہا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودیہ نے اوباما کی صدارت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے، اپنے دورِ صدارت میں اوباما نے سعودی حکومت کی مایوسی میں دن بدن اضافہ کیا تھا، اسی لیے انہوں نے واشنگٹن میں نئی انتظامیہ کی آمد کو خوش آمدید کہا۔ ۹نومبر کو سعودی شاہ سلمان نے ٹرمپ کو کامیابی پر مبارکباد کاخیرمقدمی پیغام بھیجا، شاہ سلمان نے پیغام دیا کہ ’’آپ کے مشن کی کامیابی ہی دنیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور استحکام کی ضمانت ہے‘‘۔ ٹرمپ کی جانب سے اپنی انتخابی مہم میں دیے گئے بیانات کی وجہ [مزید پڑھیے]
متبادل سچ
آج کل ’’انیس سو چوراسی‘‘ (۱۹۸۴ء) نام کے معروف انگریزی ناول کی ایک مرتبہ پھر دھوم مچی ہوئی ہے۔ Amazon.com والوں کا کہنا ہے کہ اس ناول کی مانگ اچانک اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بار بار اس کی نقول چھاپنی پڑ رہی ہیں۔ بظاہر اس کی وجہ مبصرین یہ بتا رہے ہیں کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز سے حکمرانی کرنے کا عندیہ دیا ہے اور جس انداز پر عمل پیرا بھی ہو چکے ہیں، اس کی ایک جھلک ۱۹۸۴ء کے اس ناول میں ملتی ہے۔ ’’انیس سو چوراسی‘‘ اور کمیونسٹوں کے خلاف معروف ناول “Animal Farm” کے لکھنے والے George Orvell ہیں۔ جارج آرول موصوف کا قلمی نام ہے، اصل نام شاید Eric Blair تھا جو کم ہی کسی کو [مزید پڑھیے]