شمارہ 16 فروری 2021
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:14، شمارہ نمبر:4
لیبیا میں سیاسی استحکام کی ضرورت
فرانس، مصر اور ترکی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو مسترد کرکے لیبیا کے مندوبین نے ماضی کی سیاست کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حال ہی میں جنیوا میں بعض عجیب باتیں ہوئیں۔ جنیوا کا شمار اُن شہروں میں نہیں ہوتا جو آج کل مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اہم فیصلوں کے مراکز میں سے ہیں۔ لیبیا میں عبوری حکومت کے قیام کے لیے عالمی برادری کے حمایت یافتہ امیدوار اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والے حالیہ مذاکرات میں لیبیا کے مندوبین کی منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بجائے نسبتاً غیرمعروف سیاست دانوں کے ایک گروپ کو لیبیا میں سالِ رواں کے آخر میں ہونے والے انتخابات تک کے لیے عبوری حکومت کے قیام کے لیے منتخب کیا گیا۔ ذرائع بتاتے [مزید پڑھیے]
امریکا کے لیے ایشیا میں چیلنج
ٹرمپ انتظامیہ کے تجربہ کار سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی طاقتوں خاص کر چین سے مسابقت میں اضافہ کر کے امریکی خارجہ پالیسی کو تبدیل کردیا ہے۔ ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر کے مطابق چین سے مسابقت میں اضافہ سرد جنگ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ جیو پولیٹکس کے حوالے سے کھیل، کاروبار اور طرزِ زندگی میں مقابلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ واشنگٹن کو چین کو قابو کرنے کے لیے بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ طریقہ کار حقیقت پسندانہ اور قابل عمل ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے امریکا ان معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ امریکا کی تین بڑی اسٹریٹجک غلطیوں نے اس کی مسابقتی حیثیت کو کمزور [مزید پڑھیے]
میانمار کو تنہا نہیں کرنا چاہیے!
فوج ہمیشہ ہی میانمار (برما) میں اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ہے۔ میانمار میں فوج نے ایک بار پھر عشرے سے جاری جمہوری عمل کی بساط لپیٹ کر سیاسی رہنماؤں کو نظر بند کردیا ہے۔ جس کے بعد میانمار کو سزا دینے کے لیے پابندیاں عائد کرنے اور عالمی تنہائی میں دھکیلنے کے مغربی مطالبات زور پکڑتے جارہے ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی اقدام غلط ہوگا۔ جنوب مشرقی ایشیا کے تمام ممالک تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا، ویتنام اور میانمار اپنے شمالی پڑوسی ملک چین کی طرح آمرانہ طرزِ حکمرانی رکھتے ہیں۔میانمار میں جمہوری عمل کی ناکامی ایک بار پھر یاد دلاتی ہے کہ انتہائی طاقتور آمرانہ قیادت اور اداروں کی موجودگی میں جمہوریت کا پنپنا ناممکن ہے۔ جمہوری ممالک کی جانب سے سزا کی [مزید پڑھیے]
بحیرۂ روم: ایردوان کیا چاہتے ہیں؟
گزشتہ جولائی سے ترک بحری افواج کا ایک تیل بردار بحری جہاز جو یونان کے ایک چھوٹے سے جزیرے ’’کاستیلوریزو‘‘ میں ہائیڈرو کاربن کی تلاش کررہا تھا، بارہا اس کا یونان کے بحری ادارے کے حکام سے تنازع ہوا۔ یاد رہے یونان اور ترکی کی آپس میں دیرینہ مخاصمت ہے اور دونوں کے درمیان بحیرۂ روم کی بحری سرحدوں پر کشیدگی رہتی ہے۔ جب کبھی یونان اور ترکی اس مسئلے پرتنازع کا شکار ہوتے ہیں، اس کی شدت کو کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ درحقیت ’’کیستیلوریزو تنازع‘‘ ترکی کے جارحانہ عزائم، غلبے کی جنگ اور برسوں پر محیط چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ اس دیرینہ لڑائی میں شدت آنے کی بنیادی وجہ ترکی کا اپنی محتاط اور محاذ آرائی سے [مزید پڑھیے]
نائیجیریا ، پولیس کے خلاف نوجوانوں کی تحریک
نائیجیریا ایک ایسی ریاست ہے جو سانس لے رہی ہے، اگرچہ کہ ماسک کی وجہ سے اسے سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہے۔۷؍اکتوبر کو رشوت کے خلاف بنائی جانے والی بدنام زمانہ خصوصی فورس کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیل گئی، ڈیلٹا ریاست کے شہر اوغلی میں بنائی گئی اس ویڈیو میں خصوصی فورس کا ایک اہلکار ایک شہری کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے شہری کو گولی مارنے کے بعد وہ شخص اپنے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلاجاتا ہے۔ اس واقع نے سیکڑوں نائیجیرین کو اپنے ساتھ پیش آنے والے برے واقعات بیان کرنے کی ہمت دلادی، جو ماضی میں بدنام خصوصی فورس کی وجہ سے ان کے ساتھ پیش آئے، ان واقعات میں ان کے قریبی عزیز اور ساتھیوں کا [مزید پڑھیے]
عارف نقوی: ’’کیا زبردست شخصیت ہے!‘‘
عارف نقوی پاکستان کی تاریخ کا وہ کردار ہے جس نے کمال ہنرمندی سے اپنی صلاحیت اور دولت کا استعمال کیا۔ وہ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا بنے۔ وہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو بیک وقت ڈیل کرنے اور تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کراچی الیکٹرک کمپنی کی نجکاری کی آج تک کسی کو سمجھ نہ آسکی۔ یہ صرف عارف نقوی اور حکمران ٹولہ جانتا ہے کہ کراچی کے اہم اثاثے ’’کے الیکٹرک‘‘ کو کیسے لُوٹا گیا۔ عارف نقوی کی درج بالا داستان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفاد پرستی اور دولت کی ہوس کے باوجود جب قدرت کی لاٹھی کسی پر برستی ہے تو وزیراعظم سمیت کوئی بھی مفاد یافتہ سیاستدان یا [مزید پڑھیے]
جمہوریت کا عالمگیر عہدِ زوال؟
آج دنیا بھر میں جمہوریت کو خطرے میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آمریت کے ادوار آتے جاتے رہتے ہیں۔ آمریت اب شکل بدلنے لگی ہے۔ بعض جمہوری معاشروں میں ایک خاص طبقہ اتنا مضبوط ہوچکا ہے کہ تمام فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور اقتدار و اختیار کے تمام مآخذ پر اثر انداز ہوکر اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ پروان چڑھاتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاملات مزید الجھتے ہیں اور عام آدمی کے لیے زندگی دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں حقیقی نمائندگی کا فقدان ہے۔ منتخب ایوانوں پر وہ لوگ متصرف ہیں جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں اور یوں اُن کے ہاتھوں میں تمام وسائل اُن کی مرضی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ کوئی کتنی [مزید پڑھیے]
مضبوط خاندان مضبوط معاشرہ
انسانی سماج کے سب سے زیادہ حسین اور دل کش نظارے خاندان کے دائرے میں نظر آتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کی محبت، ماں باپ کی شفقت، چھوٹوں سے پیار، بڑوں کا احترام، بیماروں کی تیمار داری، معذوروں کی مدد، بوڑھوں کو سہارا، ایک دوسرے کے کام آنا، سب کو اپنا سمجھنا، خوشی اور غم کے مواقع پر جمع ہوجانا۔ غرض خاندان ایک چھوٹا سماج ہوتا ہے، اور یہ چھوٹا سماج جتنا زیادہ مضبوط اور خوب صورت ہوتا ہے، بڑے سماج کے لیے اتنا ہی زیادہ مفید اور مددگار ہوتا ہے۔ اللہ کے دین کی برکتوں کا سب سے کم محنت سے سب زیادہ ظہور خاندان کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اس دائرے میں رہتے ہوئے اقامت دین کی راہ کے بہت سے تجربات اور [مزید پڑھیے]
معرکۂ محبت اور سرفروشی کی تمنا
۳۰ جنوری ۲۰۲۱ء کو معروف ناول نگار اور دانشور ارون دھتی رائے نے ایلگر پریشاد کے اسٹیج پر ایک تقریر کی۔ انگریزی میں لکھی گئی اس تقریر کا متن انھوں نے شائع کروا دیا البتہ اسٹیج پر سامعین کی سہولت کے لیے اس کا ہندی ترجمہ کروا کر پڑھا جو بہت کچھ ٹوٹا پھوٹا تھا۔ بھارت میں جاری کسان احتجاج کو ایک وسیع تر منظرنامے میں سمجھنے کے لیے یہ گفتگو نہایت سودمند ہو سکتی ہے۔ (مترجم) میں ایلگر پریشاد ۲۰۲۱ء کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے اس فورم پہ گفتگو کے لیے مدعو کیا کہ جس روز روہت ویمولا کی بتیسویں سالگرہ ہونا تھی اور فتح معرکۂ بھیما کوریگاؤں ۱۸۱۸ء کا دن بھی۔ وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور [مزید پڑھیے]
میانمار میں کیا ہوا؟
۲۸ جنوری ۲۰۲۱ء کو میانمار (برما) کی وزیراعظم آنگ سانگ سوچی نے فوجی حکام سے مذاکرات کی ناکامی کے پیش نظر گرفتاری سے بچنے کی کوششوں کے دوران سامان پیک کرتے ہوئے اپنا سیل فون بھی تلف کردیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کم و بیش چار دن قبل ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ فوج منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ نومبر ۲۰۲۰ء کے عام انتخابات میں آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی شاندار کامیابی کے بعد سے فوج مختلف حوالوں سے انتخابی نتائج کا جائزہ لینے کا مطالبہ کر رہی تھی مگر آنگ سانگ سوچی نے اس بار نہ جھکنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ میانمار میں جو کچھ ہوا [مزید پڑھیے]