شمارہ 16 جون 2018
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:11، شمارہ نمبر:12
چین اسرائیل سکیورٹی تعلقات
چین اور اسرائیل تعلقات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، زیادہ تر معاشی اور سیاسی تعلقات کے حوالے سے لکھاگیا ہے،چین اسرائیل سکیورٹی تعلقات کے حوالے سے لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ اس مضمون میں اسرائیل امریکا مضبوط تعلقات کے تناظر میں چین اسرائیل سکیورٹی تعلقات کی بنیاد، اساس اور امکانات پر بات کی گئی ہے۔ چین اور اسرائیل کے سکیورٹی تعلقات کا آغاز جون ۱۹۶۷ ء کی جنگ کے بعد ہوا،اس وقت روسی اسلحے کی بھاری کھیپ اسرائیلی فوج کے ہاتھ لگی تھی۔ یہ اسلحہ شکست خوردہ عرب افواج سے قبضے میں لیاگیا تھا،اسرائیل کو روسی اسلحے کے خریدار کی تلاش تھی،چینی افواج بھی روسی اسلحہ استعمال کرتی تھیں،جس کے بعداسلحے کی فروخت کے حوالے سے اسرائیل اورچین میں خفیہ مذاکرات کاآغاز [مزید پڑھیے]
غزہ: غم کا سماں
غزہ اور خان یونس کے حالات پر اب آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں، فلسطینیوں کی جانب سے۳۰ مارچ سے ’’گھرواپسی‘‘ کے نام سے اسرائیل کی لگائی گئی باڑ کے قریب عظیم مارچ کا آغاز کیا گیا۔ اس مارچ کا مقصدفلسطینیوں کو ان کے گھروں تک واپسی کا حق دلانا ہے جہاں سے انہیں۱۹۴۸ ء میں نکال دیا گیا تھا۔ ۴۳ سالہ صابرین النجار نے جنوبی غزہ میں واقع اپنے گھر میں الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آخری بارانہوں نے اپنی بیٹی کو زندہ کب دیکھا تھا۔صابرین نے کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے استقبال کیا، وہ اپنے رشتے داروں اور دوستوں میں گھری ہوئی تھیں۔ وہ احتجاج کا دسواں جمعہ تھا، جس میں صابرین کی ۲۱ سالہ بیٹی رزان اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ رزان [مزید پڑھیے]
ملائیشیا کے حیران کن انتخابی نتائج
حال ہی میں ملائیشیا میں انتخابات ہوئے ہیں اور ۹۲ سالہ مہاتر محمد کامیاب ہوئے ہیں۔ انتخابی نتائج کو دنیا نے حیرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ مہاتر محمد ۹۲ سال کی عمر میں بھی عوام کے لیے قابل قبول ٹھہرے ہیں۔ انہیں ملنے والا ووٹ بتاتا ہے کہ عوام قیادت کے وصف کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مہاتر محمد نے ملک کی کایا پلٹ دی۔ انہوں نے دو عشروں سے بھی زائد مدت تک ملک کو بھرپور امن و استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن رکھا۔ بعد میں ان کے سِکھائے ہوئے لوگوں ہی نے ملک کو چلایا۔ اختلافات سے قطع نظر، حقیقت یہ ہے کہ مہاتر محمد ملائیشیا کے عوام کے لیے فرق [مزید پڑھیے]
اخوان المسلمون: عزیمت کی ۹۰ سالہ داستان
حسن البناءؒ کی تحریک الاخوان المسلمون کی تاسیس کو گزرے مارچ میں ۹۰ برس ہوگئے ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والی عالم عرب کی اس بے نظیر دینی تحریک جسے معروف معنوں میں سیاسی جماعت بھی کہا جاسکتا ہے، کے پس منظر میں ہمیں خلافتِ عثمانیہ کا شکستہ ڈھانچہ پڑا نظر آتا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کے ادارے کا انہدام ہوا تو اس پر ماتمی نوحے برصغیر پاک و ہند میں بھی بلند ہوئے اور مصر میں بھی سنائی دے رہے تھے۔ مصر میں اس ماتم کی فضا میں احیاء خلافت کی ایک مہین سی کوشش ہوئی تھی لیکن اس ادارے کو ختم کرنے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا تھا کہ اب اسے زندہ کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہوگی۔ [مزید پڑھیے]
اسرائیل کے ستّر سال
اسرائیل میں حالیہ دنوں میں خوشیوں کے شادیانے بجائے جارہے ہیں اسرائیل کے قیام کے ستر سال مکمل ہورہے ہیں، وہ اپنی برقرار رہنے والی معاشی ترقی، جدید ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے تحقیق کاروں کی اسرائیلی سرزمین پر تحقیق کرنے کی خواہش پر بھی خوشیاں منا رہے ہیں،ایک غیر مستحکم خطے میں جہاں خانہ جنگی عروج پر ہے وہاں اسرائیل میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اسرائیل کے ارد گرد موجود مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک افرا تفری اور طاقت کے کھیل میں مصروف ہیں۔ سعودی عرب اور مصر نے ایران اورداعش کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا ہے، دنیا بھر کے چوٹی کے رہنما اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں اور نیتن یاہو انہیں اسرائیل کے دارالحکومت [مزید پڑھیے]
حماس کی نئی قیادت: یحییٰ سِنوار
یحییٰ سِنوار شاید اس وقت فلسطین کی سب سے با اثر شخصیت ہیں۔انھوں نے اپنی ۵۶ سالہ زندگی کا بڑاحصہ جیل میں گزارا، چاہے وہ اسرائیلی جیل ہو یا غزہ جیسی کھلی جیل۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر ۶۰ فلسطینی مظاہرین کو ہلاک کیے جانے کے دو روز بعد ۱۶ مئی کو غزہ کے باسی یہ جاننے کے لیے ٹیلی ویژن کے گرد جمع تھے کہ کیا اشتعال اور تشدد کی نئی لہر انھیں ایک اور جنگ کی طرف دھکیل دے گی؟وہ نہ تو فلسطینی صدر محمود عباس کو سن رہے تھے اور نہ ہی حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کو، بلکہ وہ غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو سن رہے تھے جو آنے والے وقت میں پورے [مزید پڑھیے]
مودی۔ایردوان، تقابلی جائزہ
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اب تک پوری ریاست کو اُس طرح مٹھی میں نہیں لیا ہے جس طرح ترکی کے صدر ایردوان نے لے رکھا ہے پھر بھی دونوں کے درمیان چند ایک معاملے میں موازنہ تو کیا جاسکتا ہے۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ رجب طیب ایردوان کم و بیش پندرہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس اعتبار سے مودی اُن سے گیارہ سال پیچھے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے درمیان موازنہ عام طور پر متوازن نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی سبب ہے کہ ان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ترک رہنما ایردوان بھارتی وزیر اعظم سے گیارہ سال پہلے ایوان اقتدار میں داخل ہوئے۔ دونوں کے حالات میں بہت فرق ہے مگر پھر بھی چند امور ایسے ہیں کہ ان کے [مزید پڑھیے]
’’انڈو پیسفک ریجن‘‘مودی کی ترجیحات
آج سے چار برس قبل جب مودی نے اقتدار سنبھالا تو خطے کے حوالے سے جاری معاشی تعلقات پر منحصر خارجہ پالیسی کو تبدیل کر کے سیاسی اور سکیورٹی کے حوالے تعلقات کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔لیکن تیزی سے تبدیل ہوتے اور تزویراتی طور پر نہایت ہی اہم خطے ’’انڈو پیسفک‘‘ سے متعلق ان کی منصوبہ بندی یا اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر جاننابھی اہم ہے۔ مودی کے دورِ اقتدار میں بھارت کی معاشی ترقی اوسطاً ۳ء۷ فیصد رہی۔۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۸ء تک بھارت دنیابھر میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت والے ممالک میں شامل رہا ہے۔ ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء میں معاشی ترقی ۴ء ۷ فیصد تک ہونے کا امکان ہے، جبکہ ۲۰۱۹ء سے ۲۰۲۰ء تک یہ ۸ء۷ فیصد تک ہوگی اور [مزید پڑھیے]
انتہا پسندی، شدت پسندی
انتہا پسندی [شدت پسندی] (Extremism) جدید سیاسی مباحث کی اہم اصطلاح اور عام استعمال کی میڈیا ترکیب ہے۔ سیاسی علوم میں اس کی حتمی تعریف متعین کرنے کی کوشش ایک کارِ جاریہ ہے۔ سماجی، سیاسی اور تاریخی علوم اور ریاستی طاقت سے گہرے تلازمات کی وجہ سے یہ جدید قانون اور قانون سازی کا بھی اہم موضوع ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یہ ترکیب بہت ہی مؤثر پروپیگنڈا ’’ٹول‘‘ کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اسے عام طور پر ریاست اور سماج دشمن عناصر کے خلاف حسبِ ضرورت برتا جاتا ہے۔ بالعموم یہ اصطلاح مکمل طور پر منفی معنی میں مستعمل ہے، اور اس کا مقصد مخاطب کو مکالمے کے بغیر delegitmize کر کے قوت سے ختم کرنا ہوتا ہے۔ ہم عصر سماجی و سیاسی [مزید پڑھیے]
غیر معمولی مستقبل کی تلاش | 4
فلپائن سے نمٹنے کے بعد لازم ہوگیا تھا کہ امریکا اپنے پَر مزید پھیلائے تاکہ سامراجی عزائم کی پرواز مزید وسعت اختیار کرے۔ اُسی زمانے میں امریکا نے بحرالکاہل میں جزائر کے مجموعے ہوائی کی ملکہ للیووکالانی کا تختہ اُلٹا اور وہاں اپنا فوجی اڈّا قائم کیا۔ ہوائی میں بظاہر ایسا کچھ نہیں تھا جس کے ختم کرنے کے لیے امریکا کو مداخلت کرنا پڑتی۔ اِس ملک سے امریکا کو کسی بھی طرح کا خطرہ بھی لاحق نہ تھا۔ پھر بھی اُسے بخشا نہیں گیا اور امریکی افواج نے ہوائی میں سب کچھ درہم برہم کردیا۔ بحرالکاہل میں چوہدراہٹ قائم کرنے کے لیے ہوائی میں امریکی اقتدار کا پرچم لہرانا لازم ہوگیا تھا۔ اِس اقدام سے خطے کی دیگر قوتوں کو پیغام مل گیا کہ [مزید پڑھیے]
ہوشیار
جبکہ ہم اپنے حال مست و مال مست معمولات میں مکمل مست ہیں، عامر لیاقت حسین سے لے کر سول ملٹری مناقشہ جیسے متنوع معاملات نے ہماری توجہ کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ بے معنی مباحث اور طعن و تشنیع قومی سطح پر فکر و عمل کی یکسوئی کو پارہ پارہ کیے دے رہے ہیں جبکہ دنیا میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جس پر ہماری تشویش بھری نظر ہونی چاہیے لیکن ہماری اولین ترجیح یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم پہلے ایک دوسرے سے تو نمٹ لیں، باقی پھر دیکھا جائے گا۔ بہرحال پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ سب سے پہلا نکتہ تو نریندر مودی کی سفارتکاری سے متعلق ہے۔ جس سرعت کے [مزید پڑھیے]