شمارہ 16 نومبر 2019
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر: 12، شمارہ:22
عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ۔ سیکولر انڈیا کی موت
بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے اجودھیا کی بابری مسجد سے متعلق مقدمے کا حتمی فیصلہ سنادیا ہے، جس کے تحت ۷۷ء۲؍ایکڑ زمین رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے ہندو ٹرسٹ کو دینے کی بات کہی گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو اجودھیا ہی میں کسی نمایاں مقام پر پانچ ایکڑ زمین دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ مسجد تعمیر کرسکیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیا ہے تاہم یہ بات بھی تسلیم کی ہے کہ بابری مسجد ڈھا کر مسلمانوں سے زیادتی کی گئی۔ یہ انہدام سراسر غیر قانونی نوعیت کا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملا جلا ردِعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے [مزید پڑھیے]
سری لنکا: جمہوریت خطرے میں۔۔۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، سری لنکا میں راجا پکسا خاندان کا دوبارہ اقتدار میں آنا چینی قیادت کے لیے انتہائی خوش آئند ہے تاہم دوسرے تمام فریقین کے لیے یہ سب کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ جنوبی ایشیا کی سب سے پُرانی جمہوریتوں میں سری لنکا بھی شامل ہے مگر اب خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ آئندہ ماہ صدارتی انتخاب ہونا ہے، جس میں راجا پکسا خاندان کے ایک فرد کی فتح یقینی ہے۔ یہ خاندان مطلق العنانیت، تشدد اور کرپشن کے حوالے سے خاصا بدنام ہے۔ گزشتہ برس صدر میتھیلی پالا سری سینا نے آئینی بغاوت کی کوشش کی تھی جو ناکام [مزید پڑھیے]
جمہوریت کا سفر رُکا نہیں!
ہانگ کانگ سے اکواڈور تک، سوڈان سے عراق تک عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں۔ سڑکیں بھری ہوئی ہیں۔ چوک آباد ہیں۔ دکانوں پر حملے کرکے لوٹ مار بھی کی جارہی ہے اور انہیں جلایا بھی جارہا ہے۔ ٹائر جلاکر سڑکیں بند کی جارہی ہیں۔ مظاہرین کو بظاہر واضح قیادت میسر نہیں۔ پھر بھی چند ایک اچھی باتیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ لبنان جیسے مذہبی و مسلکی اعتبار سے انتہائی منقسم ملک میں بھی مظاہرین حکمرانوں کے خلاف متحد ہیں۔ مظاہرین کو تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی ہے۔ سوڈان، الجزائر اور لبنان میں قیادت کو پسپا ہونا پڑا ہے۔ دنیا بھر میں عوامی احتجاج کی وجوہ مختلف ہیں۔ لبنان میں واٹس ایپ کے ذریعے کی جانے والی کالز پر [مزید پڑھیے]
آسٹریلیا انڈونیشیا تعلقات، پاپوا کا ذکر نہ کریں
گزشتہ برس نومبر میں ایک آسٹریلوی گروپ ’’جوس میڈیا‘‘ نے مغربی پاپوا میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایک سرکاری ویڈیو اشتہار بنایا۔ اس ویڈیو میں مغربی پاپوا میں انڈونیشیا کی جابرانہ پالیسیوں اور آسٹریلیا کی جانب سے ان پالیسیوں کی حمایت پر شدید تنقید کی گئی۔ پاپوا میں حالیہ بحران کے دوران جوس گروپ کی ویڈیو سامنے آئی ہے، جس میں پاپوا میں آسٹریلیا کے عزائم کے بارے میں انڈونیشیا کے خدشات کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر پوسٹ کی گئی، جس کو انڈونیشیا میں آسٹریلیا کا اشتعال انگیز اشتہار قرار دیا گیا، لوگوں کاکہنا تھا کہ ہوشیار ہوجاؤ، آسٹریلیا پاپوا کو ضم کرنے کے لیے تیار ہے، انڈونیشیا کے اتحاد کی حفاظت کرو۔ یہ ویڈیو پورے انڈونیشیا میں بڑے پیمانے [مزید پڑھیے]
بھارت فائدہ کیوں نہ اٹھا سکا؟
امریکا اور چین کے درمیان تجارت کے محاذ پر مناقشہ اب تک جاری ہے۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ بھارت اِس صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا اور ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ کیوں؟ بھارت اب تک اس مناقشے سے بھرپور فائدہ اس لیے نہیں اٹھا سکا کہ ایک طرف تو اس کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت محدود ہے اور پھر امریکا سے تنازعات بھی اب تک دور نہیں کیے جاسکے ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان یہ مناقشہ نقطۂ عروج پر گزشتہ برس پہنچا جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں سے منگوائی جانے والی اشیا پر غیر معمولی شرح سے ڈیوٹیز اور ٹیکس نافذ کیے۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں [مزید پڑھیے]
ٹرمپ ’’قوم کے لیے خطرہ‘‘
امریکا میں بہت جلد شائع ہونے والی کتاب ’’اے وارننگ‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک سال قبل ٹرمپ انتظامیہ کے افسران نے اجتماعی طورپر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس فیصلے پر عمل کرنے سے انہوں نے اس لیے گریز کیا کہ ایسی صورت میں ایک کمزور حکومت مزید کمزور ہو جاتی اور ملک کو درپیش مسائل کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ اشاعت سے قبل ہی حاصل ہونے والے مسودے کے مطابق مصنف نے، جس کا نام دینے کے بجائے ’’ٹرمپ انتظامیہ کا ایک افسر‘‘ بتایا گیا ہے، یہ بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی اعتبار سے اس منصب کے اہل نہیں۔ وہ انتہائی سفاک مزاج کے ہیں اور قوم کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک سال [مزید پڑھیے]
گیان
غور کرو اتنی کہانیوں پرتنقید کے بعد، مذاہب اور نظریات پر نقطہ چینی کے بعد، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خود کا جائزہ بھی لے لیا جائے، کہ کس طرح ایک تشکیک پسند فرد خوشگوار صبح سے زندگی کا آغازکرسکتا ہے! پڑھنے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ میرے چشمے پروہ کون سے رنگ چڑھے ہیں، جن سے میں دنیا کودیکھتا ہوں۔ جب میں نوجوان تھا، بہت بے چین طبیعت تھا۔ دنیا میری سمجھ سے باہرتھی۔ بڑے سوالوں کا کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ خاص طورپریہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ دنیا میں اتنا درد، تکالیف، اور آزمائشیں کیوں ہیں؟ اوران سے نجات کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ جوجواب دوستوں اور کتابوں سے ملے وہ سب فکشن تھا۔ مذاہب اور قومی پرستی کے نظریات مجھے [مزید پڑھیے]
تیونس: نئے دور کا آغاز؟
تیونس کو ۲۰۱۱ء میں آمر کی اقتدار سے بے دخلی اور جمہوریت کے راستے میں سفر کے آغاز سے ہی سخت مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔ معیشت جامد، کرپشن روز افزوں، دہشت گردی زوروں پر اور اصحاب سیاست میدان سے باہر ہیں۔ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۱۹ء کو ریٹائرڈ پروفیسر قیس سعیدتیونس کے نئے صدر منتخب ہوئے، اس تبدیلی سے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ اس موقع پر ہزاروں تیونسی عوام دارالحکومت میں جمع ہوئے خوشی اور جوش و جذبے کا اظہار کیا۔ صدرسعید نے اپنی کامیابی کو انقلابِ نو سے تعبیر کیا۔تاہم اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ انقلاب کس نوعیت کا ہوگا۔قیس سعید نے سیاست دانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ۶۱ سالہ ریٹائرڈ پروفیسر نے ناموزوں انتخابی مہم چلائی، [مزید پڑھیے]
عرب دنیا کے طاقتور ترین رہنما تک کا سفر
ام طور پر ایم بی ایس “MBS” کے نام سے مشہور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب جیسے انتہائی قدامت پسند معاشرے کو بدلنے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف انھوں نے سعودی عرب کو یمن کی جنگ میں جھونکا اور حقوق کے لیے مظاہرے کرنے والی خواتین، مذہبی علماء اور بلاگرز کو قید کروایا۔ بہت سے لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ گذشتہ سال سعودی حکومت کے نقاد صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں قتل میں بھی ان کا ہاتھ ہے۔ تو آخر ایم بی ایس کہلانے والے یہ شخص کون ہیں؟[مزید پڑھیے]
بھارت: مسلم نوجوانوں کی پسپائی
ایک زمانے سے بھارت میں مسلمان زوال کا شکار ہیں۔ معاشی اور معاشرتی پستی کے حوالے سے ان کا ذکر نمایاں طور پر کیا جاتا ہے۔ معاشی اور معاشرتی اشاریوں میں بھارتی مسلمانوں کی کارکردگی شیڈولڈ کاسٹ ہندوؤں اور دیگر پس ماندہ طبقات کے ہندوؤں سے بھی گئی گزری ہے۔ تعلیمی اداروں میں ۱۵ سے ۲۴ سال تک کے نوجوانوں کی انرولمنٹ کے حوالے سے مسلمانوں کا حصہ صرف ۳۹ فیصد ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں یہ تناسب ۵۹ فیصد، شیڈولڈ کاسٹ کے ہندوؤں میں ۴۴ فیصد اور دیگر طبقات کے پسماندہ ہندوؤں میں ۵۱ فیصد ہے۔ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات نے بھارتی سیاست میں مسلمانوں کی انتہائی کمزور پوزیشن بالکل واضح کردی۔ ایوان زیریں (لوک سبھا) میں مسلمانوں کی نمائندگی برائے نام رہ [مزید پڑھیے]
بنگلادیش: بین الاقوامی سوسائٹی برائے کرشنا کے عزائم
بین الاقوامی سوسائٹی برائے کرشنا ISKCON بنگلا دیش میں وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہو رہی ہے۔تاہم،اس کے اثر ونفوذ میں اضافے کی وجہ سے مسلمانوں میں تشویش اور اضطراب پیدا ہورہا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ اذان کے دوران بھی ہندو موسیقی اور ڈھول بجانے سے احتراز نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ مختلف ہندو جماعتوں کے سرکردہ افراد اس عمل کی تائید نہیں کرتے لیکن ISKCON اس پر عمل پیرا ہے۔ ۲۰۱۴ء تک اس کے بنگلا دیش میں ۱۹۰۰ تا حیات ارکان تھے،اس وقت یہ تعداد ۳۵۰۰۰ کے لگ بھگ ہے۔جبکہ ان سے وابستہ غیر ارکان افراد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں ان کے ۳۵ مندر تھے اب یہ تعداد ۷۱ تک پہنچ گئی ہے۔ ۱۹۹۰ء کے اواخر میں ISKCON نے [مزید پڑھیے]