شمارہ 16 نومبر 2020
پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی
جلد نمبر:13، شمارہ نمبر:22
فرانس َبڑپن کا مظاہرہ کرے!
ایسا لگتا ہے کہ فرانس کے صدر ایمانویل میخواں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ محمدؐ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی حمایت اور مجموعی طور پر اسلام کا تمسخر اڑانے سے مسلم دنیا میں جو شدید ردِعمل پیدا ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مسلم دنیا کے مقبول ترین رہنما رجب طیب ایردوان سے بھی مخاصمت مول لی ہے۔ یہ کہنا اس وقت ذرا مشکل ہے کہ صدر میخواں واقعی اپنے کہے اور کیے پر شرمندہ ہیں اور تلافی کرنا چاہتے ہیں یا پھر انہیں مسلم دنیا کی طرف سے بائیکاٹ کی صورت میں فرانس کی معیشت کو پہنچنے والے موجودہ اور ممکنہ نقصان کی زیادہ فکر لاحق ہے اور ساتھ ہی ساتھ اگلے انتخابات میں اپنے امکانات کی بھی۔ فرانس [مزید پڑھیے]
آرمینیا سے امن معاہدہ۔۔ آذربائیجان کی فتح
آذربائیجان کا کہنا ہے کہ اس نے نگورنو کاراباخ کے آس پاس کے ان بیشتر علاقوں کو حاصل کر لیا ہے جو ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۴ء کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران اس کے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ اس جنگ میں تقریباً ۳۰ ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے۔ حالیہ جنگ کے دوران تین بار معاہدہ جنگ بندی کا اعلان ہوا لیکن جنگ روکنے میں کامیابی نہیں مل سکی تھی، تاہم اب فریقین میں ایک معاہدہ کے تحت کاراباخ کا علاقہ دوبارہ آذربائیجان کو واپس حاصل ہوجائے گا۔ آذربائیجان کے صدر الہام علی یوف، آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پاشنیان اور روسی صدر پوٹن نے نگورنو کاراباخ جنگ بندی معاہدہ ۲۰۲۰ء کا اعلان کیا، جس کا متن آذربائیجان کے حق میں [مزید پڑھیے]
بھارت نازی ازم سے متاثر فاشسٹ ریاست ہے!
پاکستان کے ۶۸ سالہ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں معروف جرمن جریدے ’’ڈیر اسپیگل’’ (Der Spiegel) کو خصوصی انٹرویو دیا۔ ڈیر اسپیگل کی نمائندہ Susanne Koelbl کو دیے گئے اس انٹرویو میں انہوں نے عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار، چینی قیادت کے لیے اپنی پسندیدگی اور متعدد معاملات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی مماثلت پر کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ عمران خان کسی زمانے میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے اور ان کا ایک امیج پلے بوائے کا بھی تھا۔ انہوں نے کم و بیش دو عشروں کی محنت کے نتیجے میں خود کو ایک مخلص اور آمادہ بہ کار سیاست دان میں تبدیل کیا ہے۔ وہ بیک وقت کئی بحرانوں اور [مزید پڑھیے]
جمال خاشقجی کا ’’بھوت‘‘
دوبرس قبل جما ل خاشقجی نے اپنی ترک منگیتر سے شادی کے لیے کچھ کاغذات حاصل کرنے کے لیے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قدم رکھا،جہاں سے وہ کسی چھلاوے کی طرح غائب ہوگئے۔وہ وہاں صرف اپنی طلاق کی رسمی کارروائی پوری کرنے گئے تھے، ان کے قریبی دوستوں نے انہیں قونصل خانے جانے سے منع کیا تھا،پھر بھی جمال خاشقجی نے ان کی بات کو نظر انداز کردیا،کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ سعودی سفارخانے میں کام کیسے ہوتا ہے۔ترکی اور واشنگٹن میں ان کا مستقبل محفوظ تھا، مہینوں گومگو اور تنہائی میں رہنے کے بعد جمال نے اپنا ذہن بنالیا، جب وہ لندن سے استنبول واپس آئے تو کسی بھی دوست سے رابطہ نہیں کیا بلکہ وہ سیدھے قونصل خانے گئے، جس [مزید پڑھیے]
نئی امریکی انتظامیہ اور ترجیحات
۲۰۱۶ء میں جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، بھارتی اپوزیشن کانگریس کی صدر سونیا گاندھی علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھیں۔ واپسی پر جب وہ پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے آئیں، تو وقفہ کے دوران مرکزی ہال میں کئی صحافی اور سیاستدان ان کی خبر و خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے ارد گرد جمع تھے۔ مختلف موضوعات کے علاوہ امریکی سیاست بھی زیر بحث تھی۔ چونکہ وہ امریکا سے تازہ وارد ہوئی تھیں، اکثر افراد ان سے متوقع امیدواروں، اور ان کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ بزنس مین ڈونالڈ ٹرمپ کے نہ صرف ریپبلکن پارٹی کی [مزید پڑھیے]
بھارتی مسلمان ووٹر: متبادل حکمت عملی کی ضرورت
امریکی ووٹروں نے صدارتی انتخابات میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی، ابتر معیشت اور سیاہ فاموں کے خلاف نسلی تشدد کے لیے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وا ئٹ ہاوس سے باہر کا راستہ تو دکھا دیا، مگر ہزاروں میل دور بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے حالیہ انتخابات میں جس طرح وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے زیر قیادت اتحاد نے اقتدار میں واپسی کی، اس سے لگتا ہے کہ دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات،کورونا وائرس سے نپٹنے میں ناکامی یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی حالت زار بھارتی ووٹروں کو پسیج نہیں پائی۔ تمام تر ناکامیوں کے باوجود، وہ مودی کی گفتار اور ہندو تواکی سیاست کے اسیر ہیں۔ مگر باریک بینی سے انتخابات کے نتائج [مزید پڑھیے]
ترقی پسندی
گزشتہ صدی کی چھٹی اورساتویں دہائی میں عرب اور یوروپی ممالک کی جامعات میں انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا جاتا تھا: ترقی پسند، رجعت پسند اوروہ لوگ جن کی اصل مشکوک ہو۔ ترقی پسند سپکٹرم کے درمیان میں کمیونسٹ براجمان تھے۔ ان کے ایک طرف انتہا پسند بائیں بازو والے اوردوسری طرف شائستہ اور اعتدال پسند جمہوریت کے داعی سوشلسٹ تھے۔ ان سب کے درمیان یہ بات مشترک تھی کہ یہ سب اپنے آپ کوکھلے ذہن کے حامل، تہذیب یافتہ، بنی نوع انساں کے مستقبل کے بارے میں رجائیت پسند اور اس کی بہتری کے لیے کام کرنے والے اصحاب خیرسمجھتے تھے۔ ان کی نگاہ میں دوسرے لوگ اس کے برعکس رجعت پسند تھے جن میں بنیادی طور پروطنیت پرست اور قومیت پرست [مزید پڑھیے]
نگورنو کاراباخ: سہ فریقی معاہدے کا متن
صدر جمہوریہ آذربائیجان الہام علی یوف، وزیراعظم جمہوریہ آرمینیا نکول پشنیان اور صدر ِ روس ولاد میر پیوٹن کے درمیان در ج ذیل نکات پر اتفاق ہوا ہے:[مزید پڑھیے]
سیموئیل پیٹی کا قتل: مسلمانوں کو ٹھیس پہنچانے کا ایک ہتھیار
۴۷ سالہ فرانسیسی استادسیموئیل پیٹی کے مسلمان انتہاپسند کے ہاتھوں قتل نے پورے فرانس کو صدمے اور اضطراب سے دوچار کردیا۔ سیموئیل پیٹی کی موت اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بڑا نقصان ہے۔ جبکہ قوم کے لیے یہ ایک تازہ ترین صدمہ ہے، چارلی ایبڈو پر حملہ بھی قوم کے لیے ایک صدمہ تھا، جس کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے۔ یعنی ابھی پرانے زخموں کو بھرنا بہت دور کی بات ہے۔ سیموئیل پیٹی کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے کلاس کے دوران نبیٔ کریمؐ کا کارٹون دکھایا گیا، جس پر مشتعل ہو کر ۱۸ سالہ چیچن عبداللہ عنصروف نے مبینہ طور پر سیموئیل پیٹی کا سر کاٹ دیا۔ جمعہ کو سیموئیل پیٹی کا قتل ہوا، جس کے [مزید پڑھیے]