لیبیا میں نو ماہ سے جاری خانہ جنگی میں شدت کے بعد یورپی ممالک نے معاملے کے حل کے لیے سفارتی کوششوں میں اضافہ کردیا ہے۔
ترک پارلیمان نے طرابلس میں قائم جی این اے حکومت کی مدد کے لیے فوج بھیجنے کی منظوری دی ہے، جس کے چند دن بعد ہی ترک صدر طیب ایردوان نے ۸ جنوری کو روسی صدر پوٹن سے استنبول میں ملاقات کی اور۱۲جنوری سے لیبیا میں جنگ بندی شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ان کاکہناتھاکہ جنگ بندی ہویانہ ہو ماسکو اور انقرہ تشدد کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں گے۔ لیبیا میں ترکی اور روس کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ دراصل تنازع کے حل کے لیے مغربی کوششوں کی ناکامی کوظاہر کرتا ہے۔لیبیا میں سیاسی اقتدار کی منتقلی اور امن کے لیے وسیع بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے، روس اور ترکی ان کوششوں کی حمایت تو کرسکتے ہیں لیکن اس عمل میں قائدانہ کردار ادا نہیں کرسکتے، پوٹن اور ایردوان ملاقا ت میں بظاہر اس حقیقت کو تسلیم کرتے نظر آئے۔ انہوں نے برلن کانفرنس کے کثیر الجہتی منصوبے کی حمایت بھی کی، جس کے تحت تمام متعلقہ فریقوں کو دشمنی ختم کرنے کے ساتھ سلامتی کونسل کے فیصلوں کا احترام کرنا تھا، لیکن اسلحے پر پابندی کے فیصلے کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی جاری ہے۔ فرض کرلیجیے کہ پوٹن سنجیدہ ہیں اور روس کے لیے لڑنے والوں کو پیچھے ہٹانے کو تیار ہیں۔ لیکن ایک مکمل اور دیرپا جنگ بندی نہیں ہوسکتی جب تک مخالف فریق اورلیبین نیشنل آرمی کے جنرل خلیفہ ہفتر کے حمایتی بات چیت کے آغاز کے بعد ایک مقررہ مدت میں فوجی انخلا کے لیے تیار نہیں ہوجاتے۔خاص کر متحدہ عرب امارات جس نے جنرل ہفتر کو اہم فضائی برتری مہیا کی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی ترکی کوبھی کشیدگی ختم کرنے کے لیے یکساں اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایران اور عراق میں تنازع میں الجھ جانے کے باوجود امریکا ہی وہ واحد طاقت ہے، جو تمام غیر ملکی فریقوں کو قابل بھروسہ جنگ بندی کے لیے تیار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔واشنگٹن کو لیبیا میں پائیدار امن کے لیے کوشش کرنی چاہیے، اس سے قبل کہ ملک میں مزید انتشار پھیل جائے۔
ترکی کی مداخلت کے اثرات
روسی ملٹری کنٹریکٹر کے ہفتر کی جانب جھکاؤ کا دباؤ محسوس کرتے ہوئے جی این اے حکومت نے نومبر میں اپنے قابل اعتماد اتحادی ترکی سے مدد کے لیے رابطہ کیا،اس سے قبل انقرہ جی این اے کو بکتر بند گاڑیاں اور ڈرون طیارے فراہم کرچکا ہے، لیکن موسم گرما کے دوران ترکی کی جانب سے رسد کی فراہمی سست کردی گئی۔ نومبر کے آخر میں ترکی نے جی این اے کے ساتھ دومتنازع معاہدے کیے، ایک معاہدے کے تحت ترکی ضرورت پڑنے پر اسلحہ، فوجی اہلکار اور تربیت فراہم کرے گا، جبکہ دوسر ا معاہدہ سمندر میں خصوصی معاشی زون کے حوالے سے تھا، جس کے تحت دونوں ممالک کی سمندری حدود بحیرہ روم میں مصر، قبرض اور یونان تک پھیل گئی۔ دسمبر میں جی این اے نے دفاعی معاہدے کی بنیاد پر براہ راست فوجی مدد کی درخواست کی اور انقرہ نے ۲جنوری کو فوجی تعینات کرنے کی منظوری دے کر معاہدے کی پاسداری کی۔ لیبیا میں ترک مداخلت کا دائرہ اور مقصد تاحال واضح نہیں۔ ایردوان نے ۶جنوری کو بتایا کہ ترک فوجیں بہتر رابطوں اور تربیتی عمل کا حصہ بنیں گی، انہوں نے زور دیا کہ وہ کسی جنگی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں گی۔ اس دوران ترکی نے شامی جنگجوؤں کو بھی جی این اے کی مدد کے لیے بھیجا ہے، جس میں کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجو موجود ہیں، ترکی اس کی تردید کرتا ہے لیکن طرابلس کے امریکی سفارت خانے نے شامی جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ یورپی یونین کا انقرہ کے لیبیا میں کردار کی مخالفت سے اس عمل کو سیاسی دھچکا لگا ہے۔ ترکی اور جی این اے کے درمیان اعلیٰ سطح پر تعاون حالیہ فوجی کشیدگی بڑھانے کی وجہ بنا۔ہفتر اور اس کے اتحادیوں نے چند ماہ سے اپنے بم حملوں میں اضافہ کردیا ہے، جس سے بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے مصراتہ اور طرابلس کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بھی بنایا ہے۔اس میں ایک بڑا میزائل حملہ بھی شامل ہے، جس میں ایئر کیڈٹس کی گریجویشن کی تقریب میں تیس سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ حال ہی میں انہوں نے سلفیوں اور قذافی کے حامیوں کی وفاداری تبدیل کراکے سرت شہر پر قبضہ کرلیا۔ سرت پر قبضہ بہت حیرت انگیز ہے، کیوں کہ ۲۰۱۶ء میں امریکا کو جی این اے کی مدد سے سرت شہر سے داعش کو نکالنے میں چھ ماہ لگ گئے تھے،سرت مصراتہ شہر کو اسٹرٹیجک گہرائی فراہم کرتا ہے، لہٰذا اب ان افواج کو مشرق سے اپنے آبائی شہر کا دفاع کرنا ہوگا، جس سے ان کی مغرب میں طرابلس میں جی این اے کی مدد کرنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔
پائیدار جنگ بندی
ان فوجی سرگرمیوں کے درمیان سفارتی کوششوں نے بھی زور پکڑا ہے۔حالیہ ہفتوں میں تیونس اور الجیریا کے صدور نے طرابلس کے دورے کیے،جس کے بعد جی این اے کے وزیراعظم فیاض السراج نے ۸ جنوری کو برسلز کا دورہ کیا۔ جہاں یورپی یونین کے اعلیٰ اہلکار جوزف بوریل نے پائیدار جنگ بندی اورسیاسی عمل کا ساتھ دینے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ جس کے بعد جوزف بوریل کی جانب سے فرانس، جرمنی اور اٹلی کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا،جس میں جنگ بندی اوربرلن کانفرنس میں شرکت کرکے مذاکرات کی میز پر واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں جی این اے اور ترکی کے یکطرفہ معاہدوں کی مذمت بھی کی گئی، تاہم اعلامیے میں ہفتر کو حاصل بیرونی مدد کے حوالے سے کچھ نہیں کہاگیا۔ اگرچہ یورپی ممالک لیبیا کے معاملے پر پہلے سے زیادہ متحد دکھائی دیتے ہیں، لیکن طویل مدتی استحکام کے لیے ہفتر کے بیرونی اتحادیوں پر طرابلس کے خلاف حملے بند کرانے کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اس حوالے سے ماضی میں جی این اے سے کوئی سیاسی سمجھوتہ کرنے سے انکار کے پیش نظر صرف ہفتر پر دباؤ ڈالنا لاحاصل ہوگا۔ لیکن مشکلات اس وقت بڑھ جاتی ہیں جب ہفتر کے اہم اتحادی مصر اور عرب امارات اپنی پالیسی میں تبدیلی سے انکار کردیتے ہیں، دراصل قاہرہ اور ابوظہبی کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ جی این اے درحقیقت ایک اسلامی ملیشیا ہے اور وہ آسانی کے ساتھ ہفتر میں موجود سلفی عناصر کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ایردوان اسی وجہ سے جی این اے کی حمایت کرتے ہیں، کیوں کہ امارتی اور مصری حکام خطے میں ترک پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور دونوں ممالک ایردوان کو اپنے ملک میں موجود اسلام پسندوں کا سرپرست سمجھتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات امریکا کی سفارتی کوششوں کا نقطہ آغاز ہونا چاہیے۔ جب تک ابوظہبی اپنے ڈرون، آپریٹر اور دیگراہم فوجی مدد واپس نہیں بلاتا لیبیا میں استحکام کے امکانات مدھم رہیں گے۔ ہفتر کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی وجہ سے امارات پر توجہ مرکوز کرنا ہی درست ہے، کیوں کہ دیگر غیر ملکی قوتوں کے پاس کشیدگی کم کرنے کی وجوہات ہیں۔ اگر پوٹن ایردوان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ پوراکرتے ہوئے روس اور ترکی میں تصادم کے امکانات محدودکرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ روسی فوجی اہلکاروں کو واپس بلانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ترکی نے ابھی تک اپنی فوج کو کوئی مشن نہیں دیا ہے، وہ اپنی شراکت محدود بھی کرسکتاہے، خاص کر اگر ترکی کو یقین ہو کہ طرابلس کو فوری کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ ترکی کی نظر میں طرابلس میں حکومت کا خاتمہ مشرقی بحیرہ روم میں اس کے مفادات کو خطرے میں ڈال دے گا، جس کا دائرہ پورے مشرق وسطیٰ تک پھیل جائے گا۔ مصر کی جانب سے بھی ہفتر کو بہت زیادہ مدد ملنے کا امکان نہیں،کیوں کہ قاہرہ کی بنیادی دلچسپی لیبیا کے ساتھ اپنی سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔ صرف واشنگٹن ہی عرب امارات کو یہ بات سمجھا سکتا ہے کہ خلیج فارس میں غیر معمولی بحران کے دوران شمالی افریقا کے دور دراز خطے میں مہم جوئی کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ ابوظہبی کو اپنے وسائل خلیج فارس کی مشترکہ سلامتی پر لگانے چاہییں، امریکا کاسفارتی کردار امارات کو یقین دہانی بھی ہوگی کہ مذاکرات کے دوران اس کے تحفظات کا پورا خیال رکھا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکام کو امارات سے کشیدگی میں کمی کرنے کا مطالبہ کرنا ہوگا، کیوں کہ ماضی میں عرب امارات جنگی تناؤ میں کمی کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ واشنگٹن کو ابوظہبی کو نام نہاد اسلام پسندوں کے خلاف لاحاصل کارروائیوں سے روکنا چاہیے اور لیبیا اس حوالے سے شروعات کے لیے اچھی جگہ ہوسکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کو جنگ بندی کے لیے روس کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل سے قرارداد منظور کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ اپریل اور مئی میں اس حوالے سے اقدامات کی مخالفت کی تھی، لیکن اب ایک اور موقع ہے کہ امریکا پوٹن پر جنگ بندی کے اپنے مطالبے پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔
(ترجمہ سید طالوت اختر)
“Ceasefire or escalation in Libya?” (“washingtoninstitute.org”. January 10, 2020)
Leave a Reply