چند ماہ کے دوران سفارت کاروں نے ایک عالمی طاقت کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا شکایت آمیز انداز سے ذکر کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذکر امریکا کا نہیں، چین کا ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے سینئر افسر نے بتایا کہ چین کے حکام ہم سے خاصی گرم جوشی اور تپاک سے ملا کرتے تھے، مگر اب ان کے رویے میں غیرمعمولی منفی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔ ان میں وہ پہلا سا یگانگت اور یکجہتی کا تاثر نہیں۔ اب ہمیں وہ ایک ایسے ملک کی حیثیت سے برتتے ہیں جس کی چند ضروریات ہیں۔ بیجنگ میں تعینات سفارت کاروں نے حکام کے رویے میں رونما ہونے والی تبدیلی کی شکایت کی ہے۔ چند ایک سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے تو چینی حکام سے ملاقات آسانی سے ہو جایا کرتی تھی۔ اب اس معاملے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ بیجنگ میں جن حکام سے ملاقاتیں عام تھیں اب ان سے بھی اپائنمنٹ مشکل سے ملتا ہے۔
ان میں سے چند باتیں سمجھنا دشوار نہیں۔ بھرپور کامیابی سے بھرپور اعتماد کے ساتھ ساتھ خود سری اور سرکشی بھی پیدا ہوتی ہے اور امریکی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ چین چند عشروں کے دوران غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار رہا ہے۔
عالمگیر معاشی بحران سے بخوبی نمٹنے والے ممالک میں چین سر فہرست ہے۔ چین آج بھی انفرا اسٹرکچر میں غیر معمولی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کے بینک مستحکم ہیں۔ صارفین میں بچتوں کی شرح خاصی بلند ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر ڈھائی ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ یہ سب کچھ اعتماد پیدا کرنے کے لیے کافی ہے مگر چند ہفتوں کے دوران چین کے اندر اور باہر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ چین کے رویے میں خود سری سے زیادہ تذبذب، بے یقینی اور خوف ہے۔
چین میں حکام کو اب بھی یقین ہے کہ ان کی حکومت معیشت کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے گی۔ مغرب میں یہ تصور عام ہے کہ چین کی معیشت ’’اوور ہیٹنگ‘‘ کا شکار ہو رہی ہے۔ بیجنگ میں اس حوالے سے بے یقینی عام نہیں ہوئی۔ مگر چند ایک بڑی تبدیلیاں اب دکھائی بھی دینے لگی ہیں۔ ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ رہن کی اسکیم ختم کریں۔ دوسری جانب پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ بیجنگ میں کوئی بھی گھرانہ ایک سے زیادہ اپارٹمنٹ نہیں خرید سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں یہ پابندیاں ختم بھی ہوجائیں۔
چین میں مختلف حوالوں سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ چند ہفتوں کے دوران مزدوروں نے احتجاج کیا ہے۔ خود کشی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ ہونڈا فیکٹری میں ہڑتال ہوئی اور آئی فون تیار کرنے والے فوکس کون کمپلیکس میں خود کشی کے واقعات ہوئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ چین نے کم اجرتوں والی معیشت کے حوالے سے جو ماڈل دیا تھا وہ اب ختم ہوتا جارہا ہے۔
چین کی رینمن یونیورسٹی کے لیبر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر چانگ کائی کہتے ہیں کہ چین میں اب اجرتوں کو مزید کم نہیں رکھا جاسکتا۔ لوگ اب اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ چند سال قبل تک حکومت کی جانب سے اجرتوں کے معاملے میں دباؤ کی پالیسی پر عمل کیا جاتا تھا۔ جب لوگ اجرتیں بڑھانے کی بات کرتے تھے تو ان سے کہا جاتا تھا کہ ایسے مطالبات کے نتیجے میں کاروبار ویت نام اور کمبوڈیا منتقل ہو جائے گا۔ بیجنگ میں ہونڈائی کمپنی کی لیبر یونین کے ڈپٹی چیئرمین ژینگ ژکیونگ کہتے ہیں کہ ہڑتالوں کو روکنا ہی ہوگا کیونکہ ان سے چین کے بارے میں غلط تاثر عام ہوتا ہے۔ بیجنگ میں انٹرنیشنل لیبر آفس کے افسر لی پینگ ہی کا کہنا ہے کہ وہ دور گیا جب اجرتوں کے معاملے میں کوئی بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اب مزدور یونین بھی چینی معیشت کا ناگزیر حصہ بنتی جارہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو چین کے سرکاری انگریزی اخبار چائنا ڈیلی میں شائع ہوئی ہیں۔ چند سال پہلے تک اس قسم کی باتوں کے کسی سرکاری چینی اخبار میں شائع ہونے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ایک بزنس مین نے بیجنگ میں لنچ کے دوران بتایا کہ امریکی معاشی بحران نے ہمیں بھی پریشان کردیا۔ بات یہ ہے کہ ہم نے امریکی ماڈل اپنالیا ہے۔ نظریاتی سطح پر کمزوریاں نمایاں ہیں۔ اب اگر کوئی چیز امریکا میں ناکام ہوتی ہے تو اس کا چین میں بھی منفی اثر ہی مرتب ہوگا۔ چین نے معاشی بحران پر قابو پالیا ہے اور مزید مضبوط ہوکر ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں سے ہم کہاں جائیں؟
چین میں سیاسی تبدیلیوں کی آمد آمد ہے۔ اعلیٰ قیادت میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ دو سال کے اندر چین میں ایسا صدر اور وزیر اعظم ہوگا جس کا جدید چین کے معمار ڈینگ ژیاؤ پنگ سے کوئی براہ راست تعلق نہ ہوگا۔ چین اب عالمی قوت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ فطری طور پر وہ چاہتا ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے، احترام دیا جائے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ چینی حکومت کو بھی اندازہ نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر اسے کیا کرنا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کے وسیع تر مقاصد اور اہداف نہیں۔ وہ یہ بھی طے نہیں کرسکتا کہ وہ امریکا کا دوست ہے یا دشمن۔ چین کو خود بھی اندازہ نہیں کہ وہ دنیا میں کس نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کے معاملے میں اس نے تذبذب کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکیوں کے لیے چین کی اس الجھن کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ ابتدائی دور میں امریکا بھی کچھ ایسی ہی مشکلات سے دوچار رہا تھا۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۱۴ جون ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply