چین: کمیونسٹ پارٹی کا ۷۰ سالہ جشن

چین کے دارالحکومت بیجنگ کے وسط میں ’شہر ممنوعہ‘ سے جنوب کی جانب دو رنگین دروازے ہیں، جو مرکزی راستے کے چوراہے پر لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک تیانمن گیٹ دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس پر ماؤ زے تنگ کی دیو قامت تصویر لٹک رہی ہے، جس کے چہرے سے سوائے سکون کے اندرونی جذبات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

چین میں ماؤ کی شخصیت کی ایک علامتی حیثیت ہے، جو گزشتہ صدی میں چین کی تاریخ، ثقافت اور سیاست میں ایک واضح لکیر کی طرح ہے۔ ایک طرف مالدار دربار ہیں، جو اس کی ماضی کی وسیع و عریض سلطنت کے عروج و زوال کے نشان ہیں تو دوسری طرف ماؤ کی تصویر جس کی نظریں کمیونسٹ پارٹی کے مستقبل پر لگی ہوئی ہیں۔

تیانمن اسکوائر بھی اس جدید ریاست کا علامتی مرکز ہے، جس کی بنیاد ماؤ نے رکھی تھی۔ یہاں اس سلطنت کے مرکز میں ماؤ نے ۷۰ برس قبل یکم اکتوبر ۱۹۴۹ء کو عوامی جمہوریہ چین کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔اور یہیں اس تاریخی مقام پر جہاں پر آخری شنہشاہ کی رہائش گاہ تھی، ماؤ عظیم رہنما بنے۔ انھوں نے نہ صرف قوم کی تقدید بدل دی بلکہ اس قوم پر طویل عرصے تک مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کی، جو ان سے پہلے قنگ خاندان کے دور تک کسی حکمران کو حاصل نہیں رہے۔

معروف تاریخ دان اور ماؤ کی سوانح حیات تحریر کرنے والے مصنف الیگزنڈر پینسٹو کے مطابق ’ماؤ تاریخ کی ایک انتہائی متنازع شخصیت ہیں۔ وہ اپنے ملک کو دنیا پر لانے والے تھے، وہ تبدیلی اور انقلاب لانے والے تھے، جو چین کی سرحدوں سے آگے تک پھیلا۔

امریکا کی کیپٹل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر الیگزنڈر پینسٹو نے مزید لکھا ہے ’ماؤ تاریخ کے ایک غیر اعلانیہ آمر تھے، جو چار کروڑ افراد کی ہلاکت کے ذمہ دار تھے‘۔

برطانوی محقق مائیلل وڈ اپنی مشہورِ زمانہ دستاویز فلم ’دی اسٹوری آف چائنہ‘ میں لکھتے ہیں کہ جو واقعات ماؤ اور چین کی کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں ہوئے، وہ تاریخ کے عظیم حادثات میں شامل تھے۔

وڈ کے مطابق یہ سب ’چینی انقلاب‘ سے دو عشرے قبل شروع ہوا تھا، جب ۱۹۲۷ء میں ماؤ کی سربراہی میں کمیونسٹوں اور چیانگ کائی کے پیروکار کوومینتانگ قوم پرستوں (کے ایم ٹی) کے مابین اقتدار کے لیے جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔ اس جنگ کے بعد جمہوریہ کی باگ ڈور شیک کے ہاتھ سے چلی گئی اور انھیں تائیوان میں جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں چینی تاریخ اور سیاست کی ماہر ایلیزبتھ پیری نے بی بی سی کو بتایا ’انقلاب کے آغاز میں جب ۱۹۲۱ء میں سی سی پی کا قیام عمل میں آیا تو ماؤ ایک نوجوان دانشور تھے، جو اپنے ملک کو مضبوط بنانے کے لیے راستے تلاش کر رہے تھے‘۔ وہ کہتی ہیں ’ماؤ غریبوں اور امیروں، شہری اور دیہی علاقوں، مردوں اور خواتین کے مابین عدم مساوات پر پریشان تھے اور پوری نیک نیتی سے چین کی سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال کو بہتر کرنا چاہتے تھے‘۔ کئی صدیوں تک شاہی خاندانوں کی حکمرانی کے بعد چین بیسویں صدی میں شدید معاشی پسماندگی کے ساتھ داخل ہوا اور ماضی میں وہ بیرونی حملہ آوروں اور محکومیت کا شکار بھی رہا۔

الیگزنڈر پینسٹو کا کہنا ہے کہ ماؤ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ انقلاب سے پہلے چین مغرب کی نو آبادیات تھا، جس کا بہت استحصال کیا گیا اور چینی باشندوں کو دوسرے درجے کے لوگ تصور کیا جاتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ۱۹۱۱ء میں کے ایم ٹی کی قوم پرست افواج انقلاب کو روکنے میں ناکام ہو گئیں۔ یہ کام ماؤ نے کئی سال بعد کیا۔

لیکن چینی انقلابی تحریک کا غیر متنازع رہنما بننے کے لیے ماؤ کو نہ صرف قوم پرستوں سے نجات دلانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت تھی بلکہ انھیں یہ بھی تلاش کرنا پڑا کہ سی سی پی کی لڑائیوں میں کامیابی کیسے حاصل ہو گی۔

پیری کا کہنا ہے ’ماؤ کو اپنے کمیونسٹ پارٹی یا نیشنلسٹ پارٹی کے ہم عصروں پر فکری اور سیاسی برتری حاصل تھی، جو بہت سے دوسرے اعلیٰ قائدین کو بھی نہیں تھی‘۔

انھوں نے مزید کہا ’ماؤ ایک باصلاحیت اور ذہین شخص تھے اور دوسرے اہم رہنما ماؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ انتہائی بے رحم بھی تھے، جس کی وجہ سے وہ جب بھی کسی مقصد کے لیے مصروف عمل ہوتے تھے تو ہر ممکن کوشش کرتے تھے‘۔ اکتوبر ۱۹۴۹ء سے چین پر ماؤ کی جماعت کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ جماعت ناصرف ملک کو چلا رہی ہے بلکہ اس نے چین کو ایک معاشی قوت بھی بنایا ہے لیکن اس سفر کے دوران اس نے کوئی مخالفت برداشت نہیں کی اور ہر طرح کے اختلاف کو سختی سے دبا دیا۔

چین کی کہانی، ۱۰۰ الفاظ میں

چین کی کمیونسٹ پارٹی کو حکومت سے لے کر پولیس اور فوج تک سب پر مکمل اختیار حاصل ہے۔

نو کروڑ ارکان پر مشتمل اس پارٹی کا ڈھانچہ ایک تکون کی شکل کا ہے، جس میں صدر شی جن پنگ سب سے اوپر ہیں۔

ایک پارلیمان ہے، جسے نیشنل پیپلز کانگریس کہا جاتا ہے، جو صرف اس پارٹی کی قیادت کی جانب سے کیے گئے فیصلوں پر مہر لگانے کا اختیار رکھتی ہے۔ ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ مکمل طور پر پارٹی کی گرفت میں ہیں۔ چین سے محبت، پارٹی سے محبت کے برابر سمجھی جاتی ہے اور ملک کی ہم آہنگی اور ترقی کے لیے دیگر حکومتی نظاموں کو رد کر دیا جاتا ہے۔

۶۰۰ ؍الفاظ کی کہانی

چین میں عملی طور پر یک جماعتی حکومت ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کا کردار اصل میں ملکی آئین میں درج ہے اور دیگر کئی چھوٹی جماعتیں ہیں لیکن وہ کمیونسٹ پارٹی کی حمایت کرنے کی پابند ہیں۔ پارٹی کے بانی ماؤزے تنگ کی سربراہی میں مطلق العنان سوشل ازم نافذ کیا گیا۔ اس کے باوجود ’گریٹ لیپ فارورڈ‘ کی معاشی ناکامی، خشک سالی اور ثقافتی انقلاب کے دوران ملک بھر میں کروڑوں جانیں گئیں۔

۱۹۷۶ء میں ماؤ کی وفات کے بعد ملک بتدریج اس جمود سے نکلا اور ڈنگ ژاؤ پنگ کی اصلاحات شروع ہوئیں۔ موجودہ صدر شی جن پنگ نے ۲۰۱۲ء میں اقتدار سنبھالا اور چین کے ایک بین الاقوامی سپر پاور بننے کے عمل کی نگرانی کی۔

تکون کی چوٹی کا کنٹرول

ملک کی سات فیصد آبادی پارٹی کی رکن ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، چاہے آپ سیاست میں ہیں، تجارت میں ہیں یا پھر فنون لطیفہ کے شعبے میں تو مقامی سطح پر پارٹی کا وفادار رکن ہونا ضروری ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی درست ہے، جو مختلف شعبوں میں کامیاب ہوئے جیسے کہ مشہور ای کامرس کمپنی علی بابا گروپ کے بانی جیک ما، ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے بانی رین زینگفی اور اداکارہ فان بنگ بنگ۔

اگر وہ پارٹی کی اقدار سے رو گردانی کرتے ہیں تو انھیں خفیہ حراست اور قہر سے بچنے کے لیے سرِ عام معافی مانگنی پڑتی ہے جیسا کہ اداکارہ فان کے ساتھ گزشتہ سال ہوا۔

مقامی سطح سے شروع ہو کر پارٹی کی تنظیمیں اوپر کی تنظیموں کے رکن منتخب کرتی ہیں اور یہ طریقہ اعلیٰ ترین قیادت تک اختیار کیا جاتا ہے۔ نیشنل پارٹی کانگریس ایک مرکزی کمیٹی کا چناؤ کرتی ہے، جو کہ پولٹ بیورو کا انتخاب کرتی ہے۔

ان انتخابات کا اکثر قبل از وقت فیصلہ اور ان کی توثیق کر دی جاتی ہے اور اصل اختیار پولٹ بیورو کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر صدر شی جن پنگ ہیں۔ پارٹی نے ۲۰۱۷ء میں ان کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار کی۔ پارٹی نے ان کا نام اور نظریہ ملک کے آئین میں شامل کیا اور ان کا رتبہ پارٹی کے بانی ماؤ زے تنگ کے برابر کر دیا۔

با اختیار پولٹ بیورو

کمیونسٹ پارٹی کو حکومت، پولیس اور فوج سب پر اختیار حاصل ہے۔ اعلیٰ ترین سطح پر پولٹ بیورو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارٹی کی لائن پر عملدرآمد کیا جائے اور تین اہم اداروں کو کنٹرول کیا جائے:

٭ اسٹیٹ کونسل

٭ سینٹرل ملٹری کمیشن

٭ نیشنل پیپلز کانگریس یا پارلیمنٹ

چین میں ’اسٹیٹ کونسل حکومت ہوتی ہے‘ جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے، جو آج کل لی کی کیانگ ہیں، اور وہ صدر سے عہدے کے اعتبار سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری جماعت کی پالیسیوں کو ملک بھر میں نافذ کرنا ہوتا ہے، مثال کے طور پر ملک کا معاشی منصوبہ اور ریاستی بجٹ۔

پارٹی اور فوج کا تعلق جنگ عظیم دوئم اور اس کے بعد ہونے والی خانہ جنگی سے شروع ہوا۔ چین کی فوج کو چلانے والا ادارہ سینٹرل ملٹری کمیشن دراصل فوج اور جماعت کے دیرینہ تعلقات کی ایک شکل ہے۔

اس کونسل کو ملک کے جوہری اثاثوں پر بھی اختیار حاصل ہے، اور ۲۰ لاکھ افراد پر مشتمل فوج پر بھی جو افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔

عوامی رائے عامہ پر سخت گرفت

کمیونسٹ پارٹی کسی طرح کے اختلاف کو برداشت نہیں کرتی۔ حزب اختلاف کی جماعت بنانے کی اجازت نہیں ہے اور حکومت کے ناقدین کو سزاؤں کا خطرہ رہتا ہے۔

حکومت کے مخالفین پر جبر کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور صدر شی کے دورِ اقتدار میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں شدت ہی آئی ہے۔

اس جبر سے پارٹی کے اعلیٰ ترین اہلکار بھی نہیں بچ پاتے۔ بوژلائی جو کبھی پارٹی کے ایک طاقتور علاقائی صدر تھے، انہیں ۲۰۱۳ء میں کرپشن اور اختیارات کے بے جا استعمال کے جرم کا مرتکب قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

چین کا اصرار ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے اور مخالفین کے خلاف سخت کارروائیوں کو یہ کہہ کر جائز قرار دیتا ہے کہ اس نے کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، جو انفرادی آزادیوں سے زیادہ ضروری ہے۔

میڈیا اور انٹرنیٹ جس میں سوشل میڈیا شامل ہے، اس پر سخت پابندیاں ہیں۔ انٹرنیٹ کو سنسر کرنے والی چین کی ’گریٹ فائر وال‘ مغربی ویب سائٹس مثلاً گوگل، فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر تک رسائی کو کنٹرول کرتی ہے۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عام ہونے سے کمیونسٹ پارٹی اب نگرانی کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہ ایک سوشل کریڈٹ سسٹم کے منصوبوں پر منتج ہو رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول سے پارٹی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرتی ہے اور ملک پر اپنی گرفت مضبوط رکھتی ہے۔

(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام‘‘۔ ۶؍ اکتوبر ۲۰۱۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*